تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     10-07-2017

مشرف اور قطری شہزادے کا بیان

سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر قطری شہزادے کے حوالے سے مسلم لیگ نواز کے وزراء بار بار اعتراض کئے جا رہے ہیں کہ اگر ایف آئی اے غداری کے مقدمے میں جنرل مشرف کا بیان لینے ان کی رہائش گاہ جا سکتی ہے تو پھر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کی فیملی کے خلاف پانامہ لیکس پر سپریم کورٹ کی تشکیل دی جانے والی جے آئی ٹی کو قطری شہزادے کا بیان لینے کیلئے قطر جانے میں کیا ممانعت ہے؟۔ جو نہیں جانتے ان کیلئے مسلم لیگ نواز کا یہ اعتراض اپنی جگہ بہت ہی وزن رکھتا ہے ۔ دوسری طرف مقدمے کے مدعیان تحریک انصاف اورجماعت اسلامی سمیت شیخ رشید کی جانب سے اس اعتراض کا جواب دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جا رہی جس سے عام لوگوں کے ذہنوں میں حکومتی اعتراض وزنی معلوم ہونے لگا ہے۔ جبکہ حقیقت سامنے رکھتے ہوئے عوام کو صحیح صورت حال سے آگاہ کیا جائے تو نواز لیگ کا یہ الزام بے بنیاد دکھائی دینے لگے گا۔ لگے لگا۔ تحریک انصاف کو اپنے میڈیا سیل کو مضبوط اور با خبر رکھنے کیلئے مانیٹرنگ سیل قائم کرنا ہو گا جس میں اتنی صلاحیت ہو کہ وہ اپنے سیا سی مخالفین کو فوری اور موثر جواب دے سکے۔نواز لیگ کے اس بے بنیاد اعتراض کے جواب میں کہنے والا کوئی نہیں کہ جناب والا! جنرل مشرف کا بیان لینے کیلئے ایف آئی اے کے لوگ اس لئے ان کی رہائش گاہ شہزاد چک گئے تھے کہ اس وقت وہ باقاعدہ گرفتار تھے اور نواز حکومت کی جانب سے ہی ان کی رہائش گاہ شہزاد چک کو سب جیل کا درجہ دیا گیا تھا اسی وجہ سے ایف آئی اے کی ٹیم کوان کی رہائش گاہ جانا پڑا۔ جہاں اس نے بند ''حوالاتی ‘‘کا بیان قلم بند کیا۔ جبکہ جنرل مشرف کے مقابلے میں قطری شہزادہ آزاد اور صحت مند ہیں اور اگر وہ پاکستان میں پرندوں کے شکار کیلئے بھکر جیسے
پسماندہ علاقوں میں پندرہ دن تک قیام کر سکتے ہیں یاLNG اور قاسم پورٹ معاہدے پر دستخط کرنے کیلئے پاکستان آ سکتے ہیں تو پھر بطور گواہ پاکستان کیوں نہیں آ سکتے؟۔ تسلیم شدہ اصول اور طریقہ یہ ہے کہ ہم کسی شخص کو اپنی صفائی کیلئے کسی بھی مجازعدالت میں بطور گواہ پیش کرنے کیلئے اس کا نام پیش کرتے ہیں تو عدالت کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ اس گواہ کے نام مقررہ تاریخ کو حاضر ہونے کیلئے سمن جاری کرے نہ کہ اس کا بیان لینے کیلئے اس کے گھر تک جائے اور اسے بلانے کیلئے بار بار ترلے منتیں کرتی رہے؟۔آٹھ جولائی کو مسلم لیگ نواز حکومت کے چار وزراء نے اسلام آباد میں مشترکہ ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جہاں جنرل مشرف والے بیان کو ایک بار پھر بڑی شدت سے اٹھایا ہے وہاں انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے مقدمہ قتل کی تفتیش کیلئے مارک سیگل کا حوالہ دیتے ہوئے سوال کیا ہے کہ ان کا بیان لینے کیلئے تفتیشی ٹیم امریکہ کیوں گئی تھی۔۔۔ معزز وزراء کرام ! آپ اتنے بھولے بھی نہیں کہے جا سکتے، کیونکہ کوچہ سیا ست میں آپ کو عرصہ بیت چکا ہے۔۔۔صرف توپ کا گولہ داغ کر اس کے دھماکے کا شور ہی کافی نہیں ہونا چاہئے بلکہ یہ دیکھا کیجئے کہ یہ نشانے پر بھی لگ رہا ہے یا نہیں۔۔۔۔ مارک سیگل نے شہزادہ حمد بن جاسم کی طرح پاکستان کی سپریم کورٹ میں دوران سماعت مدعا علیہ کے وکیل کے ذریعے کسی کومالی ذرائع فراہم کرتے ہوئے ان کی صفائی دینے کیلئے رضاکارانہ طور پر اپنا حلفیہ بیان داخل نہیں کیاتھا۔چونکہ ن دنوںسیا ست کا بازار انتہائی گرم ہے اور سب ایک دوسرے پر سیا سی اور ذاتی حملے کرنے میں مصروف ہیں شائد اسی ماحول سے متا ثر ہو کر حویلی بہادر شاہ جھنگ میں پاور پلانٹ کے پہلے یونٹ کی افتتاحی تقریب میں وزیر اعظم نواز شریف نے عمران خان کا نام
لئے بغیر انہیں للکارا ہے کہ میرے خلاف سازشیں کرنے کی بجائے اگر ہمت ہے تو جب چاہو جہاں چاہو میدان میں آ کر مقابلہ کرلو؟۔ وزیر اعظم سے ان کے چیلنج کے حوالے سے ادب سے پوچھنے کی جسارت کر رہے ہیں کہ اگر آپ کو باکسنگ رنگ میں اس طرح کھڑا کر دیاجائے کہ آپ کے مقابل کے ہاتھوں میں باکسنگ گلوز اور آپ کے ہاتھوں میں صرف کرکٹ گلوز پہنادیئے جائیں تو اسے کسی بھی طور مقابلہ کہا جا سکے گا؟۔باکسنگ رنگ میں کھڑا ہوا ریفری آپ کا ذاتی ملازم ہو جس پر آپ کے اس قدر احسانات ہوں کہ اس کے پورے خاندان کا گھر آپ کی جانب سے عنائت کی گئی نوازشات سے بھرا پڑا ہو تو کیا اس مقابلے کو منصفانہ کہا جا سکے گا؟۔ذرا سوچئے کہ ایمپائر آپ کے، گرائونڈ آپ کی، گرائونڈ کی سکیورٹی پر کھڑے آپ کے ہلکے سے اشارے کے منتظر گارڈز آپ کے، ان گارڈز کے ہاتھوں میں تھمائی جانے والی بندوقیں آپ کی ۔۔۔۔تو پھر خود ہی فیصلہ کیجئے آپ کا مقابل فریق کس طرح مقابلہ کر سکتاہے؟
وزیر اعظم کا واضح اشارہ آنے والے عام انتخابات میں اپنے اور عمران خان کے مقابلے کی جانب تھا نہ کہ کسی مکہ بازی یا کرکٹ میچ کی طرف ۔کسی بھی جمہوری معاشرے میں اقتدار اور مقبولیت کے معیار کو جانچنے کا سب سے بہترین معیار عوام کی رائے کو ہی لیا جاتا ہے لیکن یہ مقابلہ اگر مقابل کو زنجیروں میں باندھ کر کرایا جائے تو اسے مقابلہ نہیں کہا جا سکتا۔۔۔مئی2013 کے انتخابات کے نتائج آنے کے تیسرے دن اس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرداری نے لاہور بلا ول ہائوس میں سینئر صحافیوں اور اخبارات کے ایڈیٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا'' میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ ریٹرننگ افسران کے انتخابات ہیں‘‘۔جب کسی ملک کا آئینی سربراہ مئی2013 کے انتخابات کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردے کہ ان انتخابات کے نتائج ریٹرننگ افسران کے مرہون منت ہیں تو پھر اسے عوام کی رائے کا اظہار کسی طور پر بھی نہیں کہا جا سکتا؟۔ جب جنرل کیانی سمیت ایک ایک حکومتی اہلکار آپ کے اشارہ ابرو کا منتظر تھا تو پھر اسے '' فکس میچ‘‘ ہی کہا جا سکتا ہے ؟۔ آپ پنجاب ہی کو لیجئے اس وقت کے نگران وزیر اعلیٰ اور ان کی بیگم جب آپ کی تقریروں کے دوران میڈیا والوں کے ساتھ سامنے والی نشستوں پر بیٹھ کر خوشامد کی آخری حد کو چھوتے ہوئے آپ کی تقریر کے دوران بار بار تالیاں بجاتے دکھائی دیں تو اس سے یہی تاثر لیا جا ئے گا کہ موصوف نے اپنی نگران وزارت اعلیٰ کے منصب سے کس قدر انصاف کیا ہو گا ؟۔۔۔۔!! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved