محترم جنرل ضیاء الحق صاحب !
السلام علیکم! آپ کا عالم بالا سے لکھا ہو خط ملا، پڑھ کر اندازہ ہوا کہ آپ کو عالم بالا میں بھی چین نہیں اور وہاں بیٹھ کر بھی اپنی سازشوں سے باز نہیں آ رہے۔ آپ کے امن و سکون کے لیے میں اس خط کی ایک نقل قائد اعظم ؒ، لیاقت علی خان اور ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے ملاحظے کے لیے بھی بھیج رہا ہوں تاکہ وہ حسبِ توفیق آپ سب کا مناسب بندوبست کر سکیں۔ آپ نے میری ہمدردی میں جنرل ایوب خان اور یحییٰ خان کے بار ے میں جو یہ اطلاع دی ہے کہ وہ پاکستان میں جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، تو مجھے ان کی کوئی پروا نہیں‘ کیونکہ اللہ کے فضل و کرم سے انہیں کوئی جنرل ضیاء الحق یا جنرل پرویز مشرف زمین پر دستیاب نہیں۔ لہٰذا آپ اپنے بزرگوں کے ساتھ مل کر سازشوں کو شوق پورا کرتے رہیں، انشااللہ پاکستان کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ اب یہاں کے فیصلے عوام ہی کریں گے اور وہی حکمران ہو گا جسے ان کی خوشنودی حاصل ہو گی۔ آپ پاناما لیکس سے آنے والے سیاسی ابھار کا فائدہ اٹھا کر اگر کوئی کھیل کھیلنے کے چکر میں ہیں تو میرا مشورہ ہے کہ حشر تک سکون میں بیٹھ کر اپنے حساب کتاب کا انتظار کریں اور پاکستان کے معاملات یہاں کے لوگوں پر چھوڑ دیں۔
محترمی، آپ کو یہ سن کر بڑی تکلیف ہو گی کہ آپ کی توقعات کے برعکس پاکستان کی فوج آپ کے زمانے کی طرح اقتدار کو حریص نظروں سے دیکھنے کی بجائے اپنے سپہ سالار کی قیادت میں یہ سمجھ چکی ہے کہ ملک جبر میں ترقی نہیں کرتے۔ البتہ آپ کی دلجوئی کے لیے اتنا ضرور بتا دوں کہ دو ہزار
تیرہ کے الیکشن سے پہلے تحریک انصاف کی حمایت کرنے والا ایک ریٹائرڈ فوجی افسر اور اس کے بعد دو ہزار چودہ کے دھرنوں کا بندو بست کرنے والا سابق افسر‘ دونوں آج کل بھی اپنے کلائنٹ کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ یہ دونوں اپنے کلائنٹ کو اقتدار کے شارٹ کٹ سمجھاتے ہوئے پائے گئے ہیں مگر اس نے ان دونوں کو صاف صاف کہہ دیا ہے کہ اگر انتخابات جیتنے کی کوئی حکمت عملی ان کے پاس ہے تو بتائیں ورنہ اپنی راہ ناپیں۔ پہلے پہل تو یہ دونوں بھی مایوس ہو کر بیٹھ گئے تھے مگر پاناما لیکس نے انہیں نئی زندگی دے دی۔ انہیں کوشش کے باوجود پاک فوج میں تو اپنے ہمدرد نہیں مل سکے مگر کچھ قانون دان انہیں ضرور مل گئے ہیں جن کے زور پر انہوں نے ایک طوفان اٹھا دیا ہے‘ جو میرے لیے خاصی پریشانی کا باعث ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ امتحان کا یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ بظاہر جے آئی ٹی کی رپورٹ میرے خلاف ہے لیکن آپ کے جانشین غلام اسحٰق خان مرحوم نے میرے خلاف اپنی سازش ناکام ہونے پر جو فارسی شعرپڑھا تھا وہ آپ کی خدمت میں پیش ہے،
گماں مبر کہ بپایاں رسید کارِ مغاں
ہزارہا بادۂ ناخوردہ در رگِ تاک است
(یہ مت سمجھو کہ شراب ساز کا کام بند ہو گیا ہے، ابھی انگوروں کی رگوں میں بہت سی شراب باقی ہے)
جنرل صاحب! میں اس بات کا اعتراف کرتے کبھی نہیں جھجکا کہ سیاست میں میری چند ابتدائی کامیابیاں آپ کے مرہون منت ہیں۔ مجھے یہ بھی تسلیم ہے کہ آپ کے دوستوں نے انیس سو بانوے تک اپنی شرائط پر میری کچھ نہ کچھ مدد بھی کی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ کے دوستوں نے اس امداد کی جو قیمت طلب کی وہ میں نے ادا نہیں کی اور اس کا خمیازہ بھی بھگتا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے آپ کی عدالت میں قتل ہو کر جو قوم کو سمجھایا وہ مجھے بڑی حد تک پہلی دفعہ پاکستان کا وزیر اعظم بن کر سمجھ آ گیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا‘ اور جلا وطنی کے بعد میں اسی نتیجے پر پہنچا جس پر ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کی کال کوٹھڑی میں بیٹھ کر پہنچے تھے۔ اسے خیالات کا ارتقا کہیے یا تاریخ کا جبر کہ بھٹو کی طرح میری سیاست کا آغاز بھی فوجی دورِ حکومت میں ہوا تھا اور ہم دونوں ہی اس ملک میں آمریت کے پروردہ لوگوں کے لیے ناپسندیدہ ترین عناصر بن گئے۔ ان کا خاندان بھی آج تک آمریت کے ڈالے ہوئے جھمیلوں سے گزر رہا ہے اور میرے خاندان کی خطا بھی معاف ہونے میں نہیں آ رہی۔ عجیب اتفاق ہے کہ بھٹو کے والدین کے مسلمان ہونے پر سوال کھڑے کیے گئے تھے اور آج میرے والد کے کاروباری معاملات کی باریکیاں سامنے لا کر ان کی بھی کردار کُشی کی جا رہی ہے۔ اسے آپ جھکا نہیں سکے تھے تو کوئی مجھے بھی انشااللہ توڑ نہیں سکے گا۔ البتہ بھٹو اور مجھ میں یہ فرق ضرور ہے کہ وہ پہلی لڑائی میں ہی شہید ہو گیا اور میں تین بار کسی نہ کسی طرح بچ نکلا۔ میں اچھی طرح سمجھ رہا ہوں کہ سازشی ٹولا کسی نہ کسی طرح وقت سے پہلے اسمبلی تڑوا کر ایک بار پھر اپنی بادشاہ گری کا زمانہ واپس لانا چاہ رہا ہے۔ اس ٹولے نے کسی حد تک عمران خان کو اپنا ہمنوا کر لیا تھا، لیکن بعض مخلص دوستوں کے سمجھانے سے خان صاحب بھی سمجھ گئے کہ وقت سے پہلے انتخابات میں کامیابی کی صورت میں یہ سازشی ٹولا ان کے سر پر سوار ہو جائے گا۔ یہ نکتہ سمجھنے کے بعد خان صاحب بھی موجودہ اسمبلی کے اتنے ہی بڑے محافظ ہیں جتنا خود میں۔ رہی بات میری وزارت عظمٰی کی تو یہ معاملہ مجھے کبھی خوفزدہ نہیں کر سکا۔
جنرل صاحب محترم، آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں سازش کا جواب دینے کی پوری صلاحیت رکھتا ہوں۔ میری جماعت کی صفوں میں ایسا ایسا کاریگر موجود ہے جس کا کوئی توڑ کسی انسان کے پاس نہیں۔ یہ بڑا آسان کام تھا کہ پاناما کے مسائل کا حل میں انہیں سونپتا اور خود چین سے حکومت کرتا رہتا لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔ اب جب پانی سر سے گزرنے کے قریب ہے تو میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ سازش اب بھی نہیں کروں گا‘ مگر ہر میدان میں مقابلہ ضرور کیا جائے گا۔ سیاسی طور پر بھی اور قانونی طور پر بھی۔ میرے ذہن میں مستقبل کا نقشہ بڑا واضح ہے اور حالات کی تشکیلِ نو کے لیے کام کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ اگر آپ کے کچھ زمینی ذرائع ہیں تو ان سے رابطے میں رہیے گا‘ آپ کو دلچسپ خبریں ملتی رہیں گے۔ یہ میں آپ کو بتا دوں کہ میں استعفا دوں گا‘ نہ قبل از وقت انتخابات کی طرف جاؤں گا۔ یہ اسمبلی اللہ کے حکم سے اپنی میعاد پوری کرے گی اور سازشیوں کے سینے پر مونگ دلنے کے لیے عوام کی منتخب حکومت اپنے وقت پر اقتدار سنبھال لے گی۔
جہاں تک تعلق ہے آپ کے برخوردار اعجازالحق کے مستقبل کا‘ تو میں آپ کی فکر مندی کو جائز سمجھتے ہوئے یہ ضرور واضح کر دوں کہ آپ عالم بالا میں بیٹھ کر زمینی حقائق سے بالکل ہی بے خبر ہیں۔ مجھے خط لکھنے سے پہلے اس سے تو پوچھ لیتے کہ کیا وہ میری مدد کے بغیر اپنی اسمبلی کی نشست بھی جیت سکتا ہے یا نہیں۔
جنرل صاحب، یہاں زمین پر چند لوگ روحوں سے ملاقاتیں کرنے کا فن جانتے ہیں اور ہمارے سینیٹر مشاہداللہ خان روحوں کو بلا کر کوئی خیر خبر لیتے رہتے ہیں۔ انہوں نے ایک بار بتایا تھا کہ قائد اعظم ؒ صبح سے شام تک پاکستان کے مرحوم آمروں اور ان کے کارندوں کا کان پکڑوائے رکھتے ہیں۔ مشاہداللہ خان نے تو یہ بھی بتایا تھا کہ اس کارروائی کی مسلسل نگہبانی کا فریضہ مولوی تمیزالدین خان کے سپرد ہے جو کسی کی پشت بلند ترین مقام پر رکھنے کے لیے پُرتشدد ذرائع بھی استعمال کر گزرتے ہیں۔ براہ کرم اگلے خط میں کان پکڑنے اور مولوی تمیزالدین خان کے رویے کے بارے میں تفصیل سے لکھیے گا۔
دعا گو
نواز شریف
وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان