ڈاکٹر صاحب میں سگریٹ نوشی کے ہاتھوں بہت تنگ ہوں، گلا بھی خراب رہتا ہے اور پھیپھڑوں کی بھی فکر رہتی ہے۔ روزانہ دو ڈبیاں یعنی پورے چالیس سگریٹ پی جاتا ہوں۔ اب تو سگریٹ اور بھی مہنگے ہو گئے ہیں اس لیے خرچہ بھی بڑھ گیا ہے۔ اگر ان سے جان نہیں چھوٹ سکتی تو کوئی تجویز بتائیں جس سے یہ کم ہی ہو جائیں۔ لوگ چین سموکرکہہ کر مذاق اُڑاتے ہیں‘ مجھے کیا کرنا چاہیے؟
بلانوش خاں‘ پرانی انارکلی لاہور
سگریٹ چھوڑنے کا پہلا نسخہ تو یہ ہے کہ ماچس یا لائٹر اپنے پاس نہ رکھیں۔ نہ بانس ہو گا اور نہ بجے گی بانسری‘ اسی مضمون پر ایک محاورہ اور بھی ہے کہ نہ نو من تیل ہو گا‘ نہ رادھا ناچے گی۔ گھر سے باہر بھی نکلیں تو قمیص پر یہ لکھ کر پرچہ چپکا دیں کہ براہ کرم مجھے ماچس یا لائٹر نہ دیں۔ کافی افاقہ ہو گا اور اگر کم کرنا چاہتے ہوں تو پکا سگریٹ ٹرائی کریں۔ صبح شام چرس کے دو سگریٹ کافی ہیں جس سے آپ کو 18 سگریٹوں کی سیدھی سیدھی بچت ہو گی۔ یہ نعمت غیر مترقبہ اول تو بازار سے عام مل جاتی ہے؟‘ بصورت دیگر کسی پلسیے سے راہ و رسم پیدا کر لیں۔ آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا کیونکہ یہ لوگ خود بھی یہ کاروبار کرواتے ہیں۔ مزید بچت مطلوب ہو تو افیون کی ایک گولی روزانہ کافی ہے۔ شیشہ بھی ٹرائی کر سکتے ہیں جس کے لیے کسی طالب علم سے رہنمائی حاصل کی سکتی ہے۔
نیند نہیں آتی
ڈاکٹر صاحب‘ ساری ساری رات نیند نہیں آتی۔ کچھ کرنے کو بھی جی نہیں چاہتا۔ بھلے زمانوں میں محبوبہ سے کم از کم خواب میں تو ملاقات ہو جاتی تھی‘ وہ سلسلہ بھی بند ہے۔ کام پر بھی جانا چھوڑ دیا ہے اور بیکاری کی وجہ سے معاشی مشکلات کا بھی سامنا ہے۔ رات بھر تارے گنتا ہوں۔ حتی کہ وہ بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر کے پاس بھی گیا ہوں جبکہ میری بیوی بھی ساتھ تھی‘ اس نے مجھے بولنے کا موقعہ ہی نہ دیا اور کافی دیر تک خود ہی میری حقیقت بیان کرتی رہی۔ ڈاکٹر نے ایک گولی دی اور کہا کہ رات کو کھا کر لیٹ جائیں۔ میری بیوی نے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب انہیں یہ گولی کتنے دن تک دینی ہے جس پر ڈاکٹر بولا کہ بی بی‘ یہ گولی ان کے لیے نہیں‘ تمہارے لیے ہے تاکہ یہ آرام سے سو سکیں۔ چنانچہ میری بیوی ہر روز یہ گولی استعمال کرتی ہے لیکن اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔ بتائیے میں کیا کروں؟
مرزا اختر شمار‘ شاہ جمال کالونی‘ لاہور
اس سلسلے میں پہلا مشورہ تو یہ ہے کہ تارے اگر ختم ہو جائیں تو دوبارہ گننا شروع کر دیں۔ رات کے وقت اگر کرنے کو کچھ نہ ہو تو چوری کا شغل اختیار کیا جا سکتا ہے جس کا محفوظ ترین طریقہ ہے کہ کسی کوٹھی کے چوکیدار سے راہ و رسم پیدا کریں‘ اس کے تعاون سے مفید نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اس سے آپ کی بیروزگاری پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور اگرچہ بیروزگاری کا کسی طرح بھی خاتمہ نہ ہو تو کسی جگہ چوکیدارہ اختیار کر لیں‘ لینا ایک نہ دینا دو۔ اس کے لیے خصوصی طور پر جاگنے کی کوشش بھی نہیں کرنی پڑے گی۔ نیز اس مقولے پر عمل کرنے سے کافی فرق پڑ سکتا ہے کہ ؎
بیکار مباش کُچھ کیا کر
کپڑے ہی اُدھیڑ کر سیا کر
اس سے زیادہ مفید مصروفیت اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ اپنے کپڑے کم پڑ جائیں تو دیگر اہل خانہ کے کپڑوں پر یہی مشق کر سکتے ہیں یعنی آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔ اُمید ہے یہ محاورہ آپ کو پسند آیا ہو گا۔
بھُوک نہیں لگتی
ڈاکٹر صاحب! مجھے عرصہ دراز سے بھوک نہیں لگتی۔ کچھ کھانے کو جی نہیں چاہتا۔ اسی لیے اس بار پُورا رمضان روزے رکھے ہیں۔ حتی کہ سحری کے بغیر رکھتا اور افطاری بھی نہیں کرتا تھا۔ اب رمضان تو ختم ہو گیا ہے‘ کیا آئندہ کے لیے بھی جاری رکھ سکتا ہوں؟ حالت یہ ہے کہ بیوی کھانا سامنے رکھ کر تاکید بھی کرتی ہے کہ اسے کھانا بھی ہے لیکن ناکام رہتا ہوں۔ میں بھی اور وہ بھی۔ آخر تنگ آ کر بیوی کھانا اٹھا لیتی ہے اور ایک طرف رکھ دیتی ہے جو بلیاں چٹ کر جاتی ہیں۔ سخت مشکل میں ہوں‘ کوئی مشورہ دیجئے۔
خوش خوراک خاں‘ جوہر ٹائون لاہور
بھُوک نہ لگنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کھانا بھی نہ کھائیں۔ جس کے لیے صرف مُنہ میں لقمہ ڈالنا‘ اسے چبانا اور نگل لینا ہے۔ چنانچہ بھوک کے بغیر ہی کھانا شروع کر دیا کریں اور اُس وقت تک کھاتے جائیں جب تک کہ بھوک نہ لگ جائے بلکہ بیوی کے ساتھ مقابلہ کر کے کھائیں کہ وہ زیادہ کھاتی ہے یا آپ۔ اگر یہ نسخہ بھی کارگر نہ ہو تو کسی ریستوران میں جا کر لوگوں کو کھاتے ہوئے ندیدوں کی طرح دیکھیں۔ زود یا بدیر بھُوک ضرور لگ جائے گی۔ چنانچہ اپنے لیے بھی کھانے کا آرڈر دے دیں‘ یہ فرض کرتے ہوئے کہ آپ کو بھوک لگ چکی ہے۔ پھر بھی نہ کھا سکیں تو ان سے پوچھ لیں کہ ان کے ہاں کوئی بلّی ہے یا نہیں۔ اسے معمول بھی بنا سکتے ہیں۔
غُصّہ بہت آتا ہے
ڈاکٹر صاحب مجھے غصہ بہت آتا ہے۔ شادی کے بعد تو کچھ زیادہ ہی آنے لگا ہے جو ظاہر ہے کہ بیوی پر ہی نکالنا پڑتا ہے۔ لیکن اس پر بھی آخر کب تک نکالوں۔ میری کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں۔
حلیم الطبع خاں‘ قصور
واقعی بیوی کے علاوہ کسی اور پر غصہ نکالنا پرلے درجے کی حماقت ہے اور اگر اس غصے کو تقسیم ہی کرنا چاہتے ہو تو ایک شادی اور کر لیں پہلے بھی آپ نے یہ مصیبت پال ہی رکھی ہے تو ایک اور سہی۔ تاہم اس میں ایک خطرہ ضرور موجود ہے کہ دونوں بیویاں مل کر اپنا سارا غصہ آپ پر نکال دیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ اس تکلف میں پڑنے کی بجائے ایک ہینڈ بیگ خرید لیں اور اس پر اس قدر مکے بازی کیا کریں کہ آپ کا سارا غصہ رفوچکر ہو جائے۔ اگرچہ جو مزہ بیوی پر غصہ اُتارنے میں ہے وہ اور کہاں سے حاصل ہو سکتا ہے۔
آج کا مطلع
شاعر وہی شاعروں میں اچھا
کھا جائے جو شاعری کو کچاّ