ہماری کشتیاں دریا کے پار کیسے اتریں؟ ساحل سے ہم کنار کیسے ہوں؟
گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر
بھنور ہے تقدیر کا بہانہ
اور پھر آئن سٹائن یاد آتا ہے: دیکھنا یہ چاہئے کہ وہ ذاتِ قدیم کیا چاہتی ہے‘ باقی تفصیلات ہیں۔ بعض نے یہ لطیفہ سن لیا ہو گا مگر دہرانے میں حرج کیا ہے: جمہوریت کا ٹرالر الٹ گیا ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں لوٹنے کی کوشش میں جل نہ مریں۔
سوال وہی ایک ہے اور بہت دن گونجتا رہے گا: اب کیا ہو گا؟ کچے دھاگے سے بندھی‘ نااہلی کی تلوار وزیر اعظم کے سر پہ لٹک رہی ہے۔ اونٹ اب کس کروٹ بیٹھے گا۔ کسی تمہید کے بغیر عرض ہے کہ ذہنی طور پر‘ کپتان وزیر اعظم بننے کے لئے تیار ہے۔ پارٹی کے ایک ممتاز لیڈر سے‘ ایک ہموار صورت حال میں‘ قرعہ فال‘ جس کے نام نکل سکتا ہے‘ عرض کیا گیا: اگر تحریک انصاف قومی اسمبلی کی نسبتاً زیادہ نشستیں جیت لے‘ تب بھی عمران خان شاید وزیر اعظم نہ بن سکیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس رائے سے اتفاق کی طرف مائل ہیں۔
یہ تو خیر ایک زیادہ بڑی چھلانگ ہو گی۔ Cup اور Lips کے درمیان ابھی بہت سے مراحل طے ہونا باقی ہیں۔ یہاں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا پسندیدہ جملہ دہرایا نہیں جا سکتا ''جب ہم پل کے پاس پہنچیں گے تو اسے عبور کرنے کی تدبیر بھی سوچ لیں گے‘‘۔ جنرل محمد ضیاء الحق کا تکیہ کلام بھی برمحل نہ ہو گا کہ Let us sleep on it فی الحال اس معاملے کو بھلا دیجئے۔ جو یہ بھی کہا کرتے : I am reluctant ruler میں ایک متامّل حکمران ہوں۔
اگلے وزیر اعظم کے لئے بھاگ دوڑ ابھی سے شروع ہو جائے گی۔ اقتدار پرستوں پہ آسودگی حرام ہوتی ہے۔ وزیر اعظم‘ ان کی صاحبزادی اور ان کے برادر خورد اگر نہیں تو کون۔ بشرطیکہ ان کی پارٹی جمی جڑی رہے اور بشرطیکہ معجزانہ طور پر وہ جیت جائے۔ دوسری طرف کپتان یا ان کا کوئی نمائندہ۔ زرداری صاحب کا امکان تو ظاہر ہے کہ کم ہے‘ بہت ہی کم۔ سندھ کے سوا ان کی برتری کہیں نہیں۔ زیادہ گہرائی میں غور کرنے والے بعض مبصر تو یہ بھی کہتے ہیں کہ الیکشن سے پہلے یا بعد میں اپوزیشن اگر متحد ہو گئی تو پیپلز پارٹی سندھ میں صوبائی حکومت بھی بنا نہ سکے گی۔ لگ بھگ چھ ماہ قبل پلڈاٹ کے سروے میں 62 فیصد سندھیوں نے یہ کہا تھا کہ سیاسی پر وہ فوجی حکومت کو ترجیح دیں گے۔ باقی تین صوبوں میں یہ شرح 15 سے 18 فیصد تک تھی۔ ماہِ گزشتہ‘ کراچی میں ایک فوجی افسر نے مجھے بتایا‘ رینجرز کے افسروں کا ستر فیصد وقت عوامی شکایات سننے میں صرف ہوتا ہے۔ اپنے ارکان اسمبلی سے کوئی امید وہ نہیں رکھتے۔ وہ سب سے زیادہ شکایات اپنے وڈیروں ہی سے رکھتے ہیں۔ تازہ ترین سروے کے مطابق‘ گزشتہ چار برس کے دوران سندھ اور پنجاب میں غربت بڑھی ہے۔ بلوچستان اور پختونخوا میں کم ہوئی۔ سندھ کو یہ حیرت انگیز امتیاز بھی حاصل ہے کہ کراچی سمیت‘ اس کی تمام بڑی جیلوں میں عملی طور پر‘ ان میں براجمان دہشت گردوں کا حکم چلتا ہے۔ خدانخواستہ کسی وقت بھی کوئی بڑا حادثہ رونما ہو سکتا ہے۔
بے یقینی بڑھ رہی ہے‘ جس کی کوکھ سے طوائف الملوکی پھوٹنے کا خطرہ ہے۔ کراچی کے بازار حصص کو 14 ملین ڈالر کا زخم لگ چکا۔ اب تک نو ہزار پوائنٹ کی کمی ہو چکی۔ صرف بدھ کے روز 600 پوائنٹ گرے۔ چیف آف آرمی سٹاف کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ ملک کے اقتصادی دارالحکومت کا دورہ کریں تاکہ کچھ استحکام پیدا ہو۔ وزیر اعظم تشریف لے گئے تو بے یقینی اور بڑھے گی۔
بگلے کی طرح‘ تالاب میں مچھلیوں کی بہتات نے‘ جسے بوکھلا دیا ہو‘ اخبار نویس ابھی تک‘ سپریم کورٹ میں پیش کی جانے والی جے آئی ٹی کی رپورٹ میں گردنیں ڈالے پڑے ہیں۔ خبریں اس کے سوا بھی ہیں‘ ہر صبح نئی خبر اگرچہ شام تک پرانی ہوتی ہے اور شام کی سویر تک۔
دس جولائی کو حکومت کے حلیف میڈیا گروپ میں پیش آنے والا واقعہ‘ اس جہت کو آشکار کرتا ہے‘ آنے والے دنوں میں‘ جس پر مباحثہ شاید بڑھتا جائے۔ اس گروپ کے چینل پر‘ جے آئی ٹی کی رپورٹ زیر بحث تھی۔ محترمہ مریم نواز نے اس کے سربراہ کو فون کیا کہ چند ماہ قبل حکومت سے ناراض ہونے والے اس اینکر کو براہِ کرم روکا جائے‘ کسی بھی طرح سے۔ اس وقت تو خیر کچھ نہ ہو سکا۔ شام آٹھ بجے اسے اور دوسرے ''شرپسندوں‘‘ کو محدود کرنے کے لئے‘ چار عدد وزرا کرام کی پریس کانفرنس کا آغاز ٹھیک اسی وقت ہوا۔ اتفاق سے یہ ناچیز کامران شاہد کے پروگرام میں مدعو تھا۔ آٹھ بج کر پچیس منٹ تک ہم وہ گفتگو سنتے رہے‘ جس میں اکتا دینے والی تکرار غالب تھی۔ ہم حیران کہ ایک ہی بات بار بار وہ کیوں دہراتے ہیں۔ ایک دوسرے چینل میں‘ ایک مشہور اینکر کو‘ جو وزیر اعظم کو مستعفی ہونے کا مشورہ دے رہا تھا‘ چار منٹ پہلے اپنا پروگرام ختم کرنا پڑا۔ ایک سرکاری اشتہار‘ اچانک آن ٹپکا تھا۔
کچھ ہی دن پہلے عالی مرتبت نریندر مودی واشنگٹن پہنچے تھے۔ خارجہ سیکرٹری اجے شنکر ان کے ہمراہ تھے۔ Dick Durban سمیت چار سینیٹروں اور ٹرمپ انتظامیہ کے Chief Strategist سٹیو بینن سے ملاقات کے ہنگام انہوں نے تجویز کیا کہ امریکی حکومت کو پاکستانی وزیر اعظم کی مدد کرنی چاہئے۔ ان میں سے ایک نے‘ بعد ازاں اپنے پاکستانی دوست سے پوچھا: کیا پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے مخالف نہیں۔ اس نے اثبات میں جواب دیا تو حیرت کے ساتھ امریکی سیاستدان نے سوال کیا کہ پھر اجے شنکر پاکستانی وزیر اعظم کی مدد کے آرزومند کیوں تھے؟ بیچارہ پاکستانی تاجر‘ اس سوال کا کیا جواب دیتا۔ ان میں ایسے بہت ہیں‘ براعظم امریکہ ہی جن کے لئے کل کائنات ہے‘ حالانکہ چین چڑھا چلا آتا ہے۔ کیا نریندر مودی نے‘ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی یہی فرمائش کی ہو گی؟ اس پر قیاس ہی کیا جا سکتا ہے۔ جس آدمی نے یہ خبر مجھے سنائی‘ سنگدلی کے ساتھ وزیر اعظم کی بجائے اس نے گاڈ فادر کہا۔
تمام تجزیے اس بنیاد پر ہیں کہ وزیر اعظم بچیں گے اور نہ ان کی صاحبزادی۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر تجزیہ کار یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا شریف خاندان کا عہد تمام ہوا؟
برف دھوپ میں رکھ دی جائے‘ تب بھی دفعتاً نہیں پگھلتی۔ شریف خاندان برف سے بہرحال زیادہ ہے۔ لوہے کا کاروبار وہ کرتے رہے ہیں۔ جناب شیخ رشید نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ نواز شریف آہنی اعصاب کے آدمی ہیں۔ سرکاری اخبار نویس بھی یہی کہتے ہیں۔ ان میں سے‘ ایک تو پیہم یہ گانا گا رہا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ مرد آہن کب اور کس طرح جدّہ جا پہنچا تھا۔ مخالفین بہرحال بغلیں بجانے میں لگے ہیں۔ کیا یہ کچھ قبل از وقت نہیں؟
کون کہہ سکتا ہے کہ آنے والا کل کیا لائے گا۔ اسلام آباد کے ایک مرحوم بزرگ یہ کہا کرتے: اخبار نویس اور سیاستدان عجیب لوگ ہیں۔ سب عوامل تجزیے میں ملحوظ رکھتے ہیں‘ بس انسانوں کے خالق و مالک ہی کو بھول جاتے ہیں۔
آج میں نے انہیں یاد کیا اور قرآن کریم کی آیت مبارکہ ذہن کے آفاق پر دمکتی رہی۔ والی اللہ ترجع الامور۔ معاملات اللہ کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں۔
عقل انسانی اور اس کی حیران کن تدابیر۔ قوانین قدرت کا ادراک کیے بغیر کیونکر ثمربار ہوں؟ فرمایا: ملک اس کا ہے‘ جسے وہ چاہتا ہے‘ عطا کرتا ہے۔ پنجابی کی کہاوت یہ ہے: ٹٹیری نام کا پرندہ ٹانگیں آسمان کی طرف اُٹھائے رکھتا ہے کہ گرے تو تھام لے۔
اور پھر آئن سٹائن یاد آتا ہے: دیکھنا یہ چاہئے کہ وہ ذاتِ قدیم کیا چاہتی ہے‘ باقی تفصیلات ہیں۔ کیسی عجیب بات کہ باقی سب یاد رہتا ہے اس حیّ و قیوم کو ہم بھول جاتے ہیں۔
ہماری کشتیاں دریا کے پار کیسے اتریں؟ ساحل سے ہم کنار کیسے ہوں؟
گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر
بھنور ہے تقدیر کا بہانہ