تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     13-07-2017

بھارتی فورسز کارگل کے بعد

پانچ جولائی کو کارگل میں داد شجاعت دیتے ہوئے دشمن کو ناکوں چنے چبوانے والے کیپٹن کرنل شیر خان شہیدکو نشان حیدر ملنے کا دن خاموشی سے گزر گیا۔ سرکارکے زیر انتظام چینل کو اس کا ذکر کرنے کی توفیق نہ ہوئی شائد اس لئے کہ وہاں بیٹھے ہوئے صاحبان کو سوائے عمران خان کو کھینچنے کے کوئی اور حکم ہی نہیں ملتا ۔۔۔سرکار جو چاہے کرے لیکن پاکستانی قوم اپنے شہیدوں کو کبھی نہیں بھول سکتی۔ کیپٹن کرنل شیر خان شہید نشان حیدر کی پاک روح کو کروڑوں سلام۔۔۔۔ ہمارے حکمران بلند لہجے میں یہ تو کہہ دیتے ہیں کہ جنرل مشرف نے واجپائی کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تو حضور والا بتایا جائے کہ کیا سیا چن میں بھارت نے ہماری پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپا؟۔۔ جنرل مشرف اور جنرل عزیز کے تیار کردہ کا رگل آپریشن کی ٹیسیں آج بھی مودی جیسوں کے سینوں سے اٹھ رہی ہیں۔ کارگل آپریشن کو اٹھارہ برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور بھارت کے ریٹائر جنرل آج بھی تسلیم کرتے ہیں کہ کہ بھارت مشرف کے وار کی قیمت ان الفاظ میں ابھی تک چکا رہا ہے A Battle of sorts is on within kashmir"s security apparatus...And blame is the Kargil Conflict ان الفاظ کا پس منظر سمجھنے اور لائن آف کنٹرو ل پر تعینات BSF اور بھارتی فوج کی اٹھارہ برسوں سے پنپنے والی اندرونی چپقلش کی تہہ تک پہنچنے کیلئے بی ایس ایف ہیڈ کوارٹر کا وزارت دفاع اور داخلہ کو لکھا گیا وہ خفیہ خط سامنے رکھنا ہوگا جس میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ 10 جون کو آرمی کی آپریشنل یونٹس نے اپنا ہدف حاصل کرنے کیلئے بی اسی ایف کی خدمات حاصل کی تھیں۔ مذکورہ آپریشن کی کامیابی کیلئے ہماری ان یونٹس نے فوج کے جوانوں سے آگے بڑھ کر فرنٹ پر حصہ لیا لیکن نئی دہلی اورفوج کے زیر انتظام میڈیا میں اس کا تمام کریڈٹ بھارتی فوج نے اپنے نام کرا لیا اور بی ایس ایف اور اس کے ہلاک ہونے والے کسی ایک جوان کا نام تک سامنے نہیں آنے دیا گیا۔اس کی کیا وجہ ہے اور ایسا کیوں نہیں کیا گیا؟۔ 
اس نا انصافی پر BSF اتھارٹی نے نئی دہلی سے سخت احتجاج کیا ہے کہ کسی بھی مشن یا FDL '' فارورڈ ڈیپینڈنٹ لوکیشن‘‘ پر بی ایس ایف کی تعیناتی کیلئے فوج کے مقامی کمانڈر ہم سے اجا زت لینے کی بجائے BSF کے مقامی کمانڈرز کو خود ہی لائن آف کنٹرول پر اپنی کسی مخصوص کی گئی جگہ رپورٹ کرنے کے احکامات دے رہے ہیں اور ہمارے کمانڈرز اور سیکٹرز ڈی آئی جی کو علم ہی نہیں ہوتا کہ اس وقت ان کی فورس کے جوان اور جونیئر افسران کہاں کہاں ہیں ۔ اس لئے بی ایس ایف ہیڈ کوارٹر اپنے تمام کمانڈرز کو سٹینڈنگ آرڈرز جاری کر رہا ہے کہ فوج کے کسی بھی افسر کے براہ راست دیئے جانے والے حکم کو ماننے سے پہلے آپ کو بی ایس ایف ہیڈ کوارٹر سے اس کی باقاعدہ اجا زت لینا ہو گی۔
فوج کی جانب سے ملنے والے کسی بھی حکم پر عمل کرنے سے پہلے بی اسی ایف کے ہر سیکٹرز DIG کو میرٹ اور تجزیئے پر مبنی رپورٹ اپنی رائے کے ساتھ ہیڈ کوارٹر بھیجنی ہو گی کہ ہمارے ٹروپس کو فوج کے مقامی کمانڈر کے اس حکم پر عمل کرناچاہئے یا نہیں ۔ چونکا دینے والے خفیہ سگنل کی اہم بات وہ ہے جس میں 21 جون کو بارڈر سکیورٹی فورس کے ڈائریکٹر جنرل نے حکم دیتے ہوئے تمام سیکٹر کمانڈرز اور ڈی آئی جیز کو لکھا ہے کہ جنوری2016 سے اب تک ان تمام آپریشنز کی تفصیلات 
ہیڈکوارٹررسال کرتے ہوئے بتا یا جائے کہ یہ مشن کس حد تک کامیاب رہے، ان کی نوعیت کیا تھی اور ان میں بی ایس ایف کے کن کن افسروں اور جوانوں نے حصہ لیا؟۔ ان میں سے کتنے مارے گئے اور کتنے زخمی اور معذور ہوئے؟۔ بی ایس ایف ہیڈ کوارٹر سے جاری ہونے والے انتہائی خفیہ سگنل میں یہاں تک بھی پوچھا گیا ہے کہ بتایا جائے کہ ان آپریشنز میں کون کون سا اور کتنا اسلحہ اور ایمونیشن استعمال ہوا ؟۔ 
انڈین آرمی اور بی ایس ایف کے درمیان پہلا سنگین جھگڑا1999 میں اس وقت شروع ہوا جب پاکستان نے کارگل میں بھارت کو اچانک دبوچ لیا اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے جس کے دوران دونوں فورسز کے کئی لوگ ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔ کارگل میں اپنی نا کامی پر پردہ ڈالنے کیلئے انڈین فوج کی جانب سے اس کی ذمہ داری بی ایس ایف پر ڈالتے ہوئے کہا جانے لگا کہ جب سب کو معلوم تھا کہ فوج کارگل کی چوٹیوں پر نہیں تھی تو لائن آف کنٹرول کی ذمہ دار BSF کہاں تھی؟۔جس پر '' کے سبرا مینیم‘‘ کی سربراہی میں قائم کمیشن کے سامنے جواب دیتے ہوئے بی ایس ایف نے کہا '' فوج اگر برف باری کی وجہ سے کارگل کی چوٹیوں سے واپس آگئی تھی تو اس نے ان پوسٹوں کا ''فضائی جائزہ‘‘ لینے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی؟۔
بی ایس ایف نے فوج کے ان تمام الزامات پر اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے کہا کہ جموں کشمیر کے ساتھ لائن آف کنٹرول778 کلو میٹر طویل ہے، اس میں سے489.05 کلو میٹر فوج کے پاس جبکہ بقیہ288.95 کی ذمہ داری بی ایس اف کے پاس ہے جس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بی ایس ایف کے سابق ڈائریکٹر جنرل پرکاش سنگھ Paramilitary is not peripheral کے نام سے اپنے مضمون میں بہت سی پوشیدہ کہانیوں کو سامنے لے لائے ۔۔۔پرکاش سنگھ لکھتے ہیں کہ جنرل مشرف کا تیار کیا گیا کارگل بھارت کی تمام خفیہ ایجنسیوں اور فوج کی ناکامیوںکے سوا کچھ نہیں ہے ،بی ایس ایف کے ڈائریکٹر جنرل نے مکمل ثبوتوں کے ساتھ فوج کو جھٹلاتے ہوئے بتایا کہ اس کی8th بٹالین '' چور باٹلہ، کاکسر اور چھانی گنڈ سیکٹرز‘‘ کے فارورڈ ڈیفیبڈڈ لوکیشنز میں موجود تھی اور ان سیکٹرز سے ایک بھی پاکستانی فوجی یا مجاہد داخل نہیں ہو سکا جبکہ کارگل کے مقابلے میں یہ سیکٹرز اٹھارہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہیں۔ بی ایس ایف کی بد قسمتی یہ ہے کہ فوج نے میڈیا میں اپنے دوستوں کے ذریعے یہ سچائی سامنے ہی نہیں آنے دی تاکہ سارا ملبہ بی ایس ایف پر ڈال کر وہ سرخرو ہو سکیں۔
سردار پرکاش سنگھ نے بانڈی پورہ میںBSF کے کیمپ پر فوج کے حملے کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے پہلے آزاد کشمیر سے داخل ہونے والے کشمیری مجاہدین جو پانچ اور چھ چھ کے گروپ میں ہوتے تھے، بانڈی پورہ واقعہ کے بعد تیس اور چالیس کے گروپوں میں بے دھڑک داخل ہونا شروع ہو ئے اور انہوں نے پورے کشمیر میں بھارتی فوج اور پیرا ملٹری فورسز کو نشانہ بنایا شروع کر دیا جس سے بی ایس ایف کے529 سپاہی اور افسر ہلاک اور 2886 شدید زخمی ہو کر معذور ہوئے۔۔۔!!
پاکستانی قوم اپنے شہیدوں کو کبھی نہیں بھول سکتی۔ کیپٹن کرنل شیر خان شہید نشان حیدر کی پاک روح کو کروڑوں سلام۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved