سطحی عقل کے غلام جو نہیں جانتے کہ انسانی تگ و تاز قدرتِ کاملہ کے قوانین بدل نہیں سکتی۔ ھُوَ اللّٰہُ الَّـذِیْ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ھُوَ الْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُھَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَـبِّـرُ (الحشر)۔ وہی اللہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ بادشاہ، پاک ذات، سلامتی والا، امن دینے والا، نگہبان، غالب، زبردست، بے پناہ عظمت والا۔
سید صدیق الحسن گیلانی نے جب یہ کہا کہ عملاً مشرقی پاکستان الگ ہو چکا تو یقین ہی نہ آیا۔ سنجیدہ آدمی‘ یقین اور اعتماد سے سرشار‘ پختہ لہجے میں رائے دینے اور اس پہ قائم رہنے والے۔ مخلص اور بے ریا لوگ کسی بھی معاشرے میں جو آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں۔ ایک راستے کا انتخاب کرتے اور عمر بھر اس پہ چلتے رہتے ہیں۔ ؎
ہم چٹانیں ہیں کوئی ریت کے ساحل تو نہیں
شوق سے شہر پناہوں میں لگا دو ہم کو
1970 اور 1971 عیسوی‘ ذیلدار پارک اچھرہ میں واقع‘ جماعت اسلامی کے صدر دفتر جانے کا اکثر اتفاق ہوتا۔ نمازِ عصر کے بعد سید ابوالاعلیٰ مودودی کی محفل‘ کبھی خبر کی تلاش‘ کبھی کسی سے ملاقات۔
زندگی اب کیسی بے ہنگم ہو گئی۔ اوّل تو فرصت کہاں، ہو تو یکسوئی کہاں۔ موبائل فون کی گھنٹی‘ اس پر بارش کی طرح برستے پیغامات، ٹیلی ویژن اور اس کی لغویات۔ شہر میں کتنے ٹھکانے تھے۔ میکلوڈ روڈ پہ آغا شورش کاشمیری‘ بوہڑ والے چوک میں نوابزادہ نصراللہ خاں اور مال روڈ کے ایک سے زیادہ ریستوران۔ چائنیز ‘ پاک ٹی ہائوس‘ وغیرہ وغیرہ۔ اور‘ اور.... !
صدیق الحسن گیلانی کی مگر بات ہی دوسری تھی۔ ناٹا سا قد‘ بھاری بھرکم گرج دار آواز‘ تلافی سے زیادہ جس کی تلافی کرتی۔ وہ آواز‘ جس میں کبھی ناراضی جھلکتی اور نہ کبھی کسی گنوار کی سی بے معنی مسرت۔ پھر شاہ صاحب کی شاندار حسِ مزاح‘ جو اچانک بروئے کار آتی اور برق کی طرح چمکتی۔ میاں طفیل محمد نے پوچھا: میرے ساتھ سندھ جائیے گا؟ بولے: جون میں ٹھنڈے ٹھار سوات کو جایا کرتے ہیں‘ میاں صاحب! تپتے ہوئے سندھ کو نہیں۔
خلیل ملک کو ایک تجزیہ لکھنا تھا۔ حسب معمول شاہ جی نے ہاف سیٹ چائے لانے کا حکم دیا اور حسب معمول دراز سے کے ٹو سگریٹ کی ڈبیا نکالی۔ جماعت اسلامی کے دوسرے متشرع بزرگوں کے برعکس‘ جن کی متانت خوفزدہ کرتی‘ شاہ جی میں عجیب کشش تھی۔ ایک بے ریا مسکراہٹ سے وہ خیر مقدم کرتے۔ چائے کی پیالی اور تمباکو کا دھواں۔ پھر ایسی روانی سے سوالوں کے جواب دیتے‘ میوہ فروش جیسے میوہ پھیلا دے۔
بات کرنے کا ڈھنگ خلیل ملک کو خوب آتا تھا۔ سوال پر سوال کرتا چلا جاتا۔ نوٹس لکھتا اور دفتر پہنچ کر‘ ایسی خوش خط عبارت کہ پروف پڑھنے میں ذرا سی دقّت بھی نہ ہوتی۔
دوپہر کا کھانا ہم اپنے گرامی قدر استاد عالی رضوی کے ساتھ کھایا کرتے۔ ان کے گھر سے لایا جاتا۔ آج تک خوشبو اس کی باقی ہے‘ یاد باقی ہے۔ ایک دوسرے اخبار سے جب وہ وابستہ ہو گئے تو کڑا وقت آن پڑا۔ تنخواہ مبلغ دو سو روپے ماہوار۔ وہ بھی اب ٹوٹ ٹوٹ کر ملتی۔
دو آدمیوں کے دوپہر کے کھانے پہ پورے دو روپے صرف ہوتے۔ شمال میں پرلی طرف ایک ہوٹل ایسا بھی تھا‘ جہاں اٹھنی سے کام چل جاتا ہے‘ مگر اٹھنی ہو بھی۔ خیر‘ یہ تو بعد کے واقعات ہیں‘ جن دنوں کا یہ ذکر ہے‘ تنخواہ بروقت ملا کرتی اور مطبخِ شاہی کا کھانا۔
سید صاحب پارلیمانی بورڈ کے سربراہ تھے۔ بہت دکھ سے کہا کہ ملک کو متحد رکھنے کا وقت گنوا دیا گیا۔ انکشاف یہ کیا ''پروفیسر غلام اعظم کو مشورہ دیا تھا کہ شیخ مجیب الرحمن اور دوسرے بنگالی قوم پرستوں سے زیادہ بگاڑ وہ پیدا نہ کریں۔ کل شاید ایک نئے ملک میں انہیں سیاست کرنا ہو گی۔ آنے والا وقت شاید ان کے لئے کٹھن ہو۔‘‘
عام انتخابات کے انعقاد سے تین ماہ قبل یکم اکتوبر 1970ء کو موچی دروازے کے جلسہ عام میں ببانگ دہل سید ابوالاعلیٰ مودودی کہہ چکے تھے: علاقائی پارٹیاں یعنی شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ اور بھٹو کی پیپلز پارٹی اگر جیت گئیں تو فوج بھی ملک کو متحد نہ رکھ سکے گی۔ اب مگر بدلے ہوئے وقت سے نبرد آزما تھے۔ جھاگ اڑاتے دریا سے کون تیراک لڑ سکتا ہے؟
سچائی کڑوی تھی اور حلق سے اترتی نہ تھی۔ مگرخلیل ملک حقیقت پسند آدمی تھا۔ اس نے کہا: شاہ جی ٹھیک کہتے ہیں۔ میں نے پوچھا‘ کیا تم یہ بات اسی طرح لکھ دو گے؟ برہمی سے اس نے میری طرف دیکھا اور یہ کہا: گھامڑ‘ ناگوار سچائی سلیقے سے بیان کی جاتی ہے، نازک حالات میں صحافت کے آداب مختلف ہوتے ہیں‘ تو ایسا احمق ہے کہ سردار عبدالقیوم خان کی تقریر من و عن نقل کر دی ''پاکستان اور بھارت میں ایک اور جنگ ناگزیر ہے‘‘۔ جلتی آگ پر پڑنے والے تیل کی طرح میں بھڑک اٹھا ''کیا بکواس تم کر رہے ہو۔ کیا یہ پیش گوئی درست ثابت نہ ہوئی‘‘۔ مشتعل پا کر اب اس کی آواز دھیمی ہو گئی اور مجھے سمجھایا: 1947ء کے فسادات کی طرح‘ عالمی جنگوں کی طرح‘ تاریخ کے یہ فیصلہ کن لمحات ہیں۔ احتیاط کا دامن تھام رکھنا چاہیے۔ ؎
ہر صدا پہ لگے ہیں کان یہاں
دل سنبھالے رہو زباں کی طرح
باقی تاریخ ہے... جماعتِ اسلامی مشرقی پاکستان کے مخلص مگر جذباتی لیڈر پروفیسر غلام اعظم نے‘ پوری قیادت ہی نے اپنے کھرے آدمی کی بات اگر مان لی ہوتی؟ بازاری ہم نفسوں سے نہیں‘ جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے اگر کسی خیرخواہ نقاد سے مشورہ کیا ہوتا؟ وہ فطین آدمی ذوالفقار علی بھٹو‘ ہوس اقتدار میں اگر اندھا نہ ہو جاتا؟ پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکومتوں پہ اگر اکتفا کرتا؟ زیادہ صوبائی خود مختاری پہ سمجھوتہ کرکے‘ شیخ مجیب جس کا قائل تھا‘ دونوں سیاست دان حریص جنرل پہ اگر دبائو ڈالتے؟... کس طرح یہ ملک جگمگا رہا ہوتا‘ ترکی‘ ملائیشیا‘ سنگاپور اور کوریا کی طرح۔ کس طرح تاریخ کے اوراق میں دونوں لیڈر چمک رہے ہوتے؟ آئزن ہاور‘ ڈیگال‘ چرچل اور نیلسن منڈیلا کی طرح۔
من مانی کا آدمی جب مرتکب ہوتا ہے۔ غلبے کی خواہش دانش کو جب ہڑپ کر جاتی ہے۔ ہیجان میںجب عقلِ سلیم کا چراغ بجھتا ہے۔
اللہ ان کی مدد کرے‘ قرائن اور شواہد یہ کہتے ہیں کہ بہت تھوڑا سا وقت میاں محمد نواز شریف کے پاس باقی ہے۔ آج کچھ سودے بازی وہ کر سکتے ہیں‘ جس طرح مشرف سے کر لی تھی‘ کل نہ کر سکیں گے۔ کون ان کی مدد کرے گا۔ ڈیزل کے پرمٹ بیچنے والے مولانا فضل الرحمن؟ رشتہ داروں میں عہدے بانٹنے والے محمود اچکزئی؟ ملائیشیا اور دبئی میں جائیدادوں کے خریدار اسفند یار ولی؟... اور وہ اخبار نویس‘ جن میں سے بعض بھاڑے کے ٹٹو ہیں اور بعض ہوش و خرد سے بیگانہ۔ ؎
کس سے پیمانِ وفا باندھ رہی ہے بلبل
کل نہ پہچان سکے گی گلِ تر کی صورت
ٹی وی پروگراموں کی بھیک مانگنے والے دانشور؟ جاوید ہاشمی کو فارورڈ بلاک بنانے کا مشورہ دینے والے خواجہ سعد رفیق؟ پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے نواز شریف کو لٹیرا ثابت کرنے والے جاوید ہاشمی؟ ''روک سکتے ہو تو روک لو...‘‘ خوشنودی حاصل کرنے کے لیے تکبّر لہراتی تقریر لکھنے والا منشی؟
کیا کیجئے‘ مگر کیا کیجئے۔ بدقسمتی جب آ لیتی ہے۔ مکافاتِ عمل کا وقت جب آ پہنچتا ہے‘ رسان سے بہتی اچھی بھلی گاڑی لڑھکتی ہوئی کھائی میں جا گرتی ہے۔
سطحی عقل کے غلام جو نہیں جانتے کہ انسانی تگ و تاز قدرتِ کاملہ کے قوانین بدل نہیں سکتی۔ ھُوَ اللّٰہُ الَّـذِیْ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ھُوَ الْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُھَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَـبِّـرُ (الحشر)۔ وہی اللہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ بادشاہ، پاک ذات، سلامتی والا، امن دینے والا، نگہبان، غالب، زبردست، بے پناہ عظمت والا۔