فیصل آباد سے دوست‘ سابق سینیٹر طارق چوہدری اور طارق پیرزادہ سے گپ شپ ہو رہی تھی۔ سیاسی بیک گراونڈ رکھتے ہیں۔ انیس سو نوے کی دہائی میں ان کا سیاست میں بڑا نام تھا۔ سینیٹ میں کی گئی ان کی کئی تقریریں آج بھی یاد کی جاتی ہیں۔
طارق پیرزادہ نے پوچھ لیا: جو کچھ جے آئی ٹی نے کچا چٹھا کھولا ہے اس کا عوام پر کیا اثر ہو گا؟ مطلب نواز لیگ کے ووٹ بنک پر بھی کوئی اثر پڑے گا یا پھر یہ سب کچھ میڈیا کی حد تک ہی رہے گا؟
ان کے سوال سے یاد آیا‘ پچھلے دنوں ہمارے دوست میجر عامر صوابی اپنے فارم ہائوس پر لے گئے‘ جہاں سلیم صافی، ارشاد بھٹی، عقیل یوسف زئی، پشاور کے مشہور شاعر ناصر علی سید اور دیگر صحافی موجود تھے۔ میجر عامر کا حلقہ احباب وسیع ہے۔ وہ دوستوں کو کھلا پلا کر خوش ہوتے ہیں۔ میرے مرحوم دوست ڈاکٹر ظفر الطاف کی طرح میجر عامر کے دستر خوان پر بھی درجن بھر لوگ نہ ہوں تو انہیں کھانا ہضم نہیں ہوتا۔
میرا میجر عامر سے لڑائی جھگڑا چلتا رہتا ہے۔ میری ون سائیڈڈ ناراضی زیادہ دن چل جائے تو ان کا فون آ جائے گا: کمبخت! تم کچھ زیادہ ہی سنجیدہ نہیں ہو گئے ہو۔ دوستوں میں دو کو دیکھا ہے جو لڑائی میں انا کو درمیان میں نہیں آنے دیتے۔ ایک میرے ملتانی دوست خالد مسعود ہیں‘ جن سے میری کئی لڑائیاں ہوئیں لیکن تعلق ختم نہیں ہوا‘ جس کا کریڈٹ خالد مسعود کو جاتا ہے۔ میں نے دوستی خراب کرنے کی بہت کوشش کی‘ لیکن خالد نے کامیاب نہیں ہونے دیا۔ ایک دفعہ پوچھا تو خالد بولا: اب نئے دوست نہیں بنائے جاتے‘ جیسے تیسے ہیں، اچھے یا برے‘ پرانے ہی ٹھیک ہیں‘ میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ کچھ بھی ہو اب دوستوں سے ناراض نہیں ہونا۔ خالد مسعود کی اس فلاسفی کا سب سے زیادہ فائدہ میں اٹھاتا ہوں اور وہ مجھے کبھی مایوس نہیں کرتا۔
دوسرے میجر عامر ہیں۔ وہ بھی دوستوں کو منانے میں انا کو درمیان میں حائل نہیں ہونے دیتے۔ ہمارے دوست سلیم صافی اور میری اکثر بحث ہوجاتی ہے‘ جو بعض اوقات تلخی کی حدوں کو چھونے لگے‘ تو میں پیچھے ہٹ جاتا ہوں یا پھر میجر عامر کوئی اور ٹاپک چھیڑ دیتے ہیں۔ صوابی میں فارم ہائوس پر بھی یہ بحث چھڑی رہی۔ میجر عامر بولے: کم بختو! میں تم لوگوں کو یہاں لایا کہ اسلام آباد کی گرمی سے دور دریا سندھ کے کنارے بیٹھ کر کچھ گپ شپ کرو‘ کچھ کشتی کی سیر کر لو‘ کچھ فریش ہو لو کیونکہ تم لوگ دبائو میں کام کرتے ہو لیکن یہاں بھی آپ لوگ پاناما اور سیاست سے باز نہیں آتے۔
اب طارق پیرزادہ نے پوچھ لیا کہ عوام پاناما پر کیا کریں گے؟
میں نے کہا: پیرزادہ صاحب اس بات کو چھوڑیں کہ میرے جیسے دیہاتی‘ جو اس ملک کی آبادی کا ساٹھ فیصد سے زیادہ ہیں‘ کیا سوچتے اور کیا کرتے ہیں، یہ دیکھیں اس ملک کا خود ساختہ باشعور اور پڑھا لکھا طبقہ کیا کر رہا ہے؟ جن کا کام لوگوں کو رائے قائم کرنے میں مدد دینا ہے‘ وہ پاناما پر کیا کر رہے ہیں؟ ان کا ردعمل کیا ہے؟ اس سے آپ کو پتہ چل جائے گا کہ ہم دیہاتیوں کا ردعمل کیا ہو گا۔ جب پڑھے لکھے لوگ بھی ٹی وی پر بیٹھ کر آپ کو ڈرانے لگ جائیں کہ اگر کسی کرپٹ حکمران کو گھر بھیجا گیا تو آسمان گر پڑے گا‘ اور خدانخواستہ پاکستان خطرات میں گھر جائے گا‘ تو پھر دیہاتیوں سے گلہ کیوں؟ جب بیرون ملک سے پڑھے لکھے اور این جی او میں بیٹھ کر مال بنانے والے لبرلز بھی آپ کو شفافیت اور احتساب سے ڈرانے لگ جائیں‘ کیونکہ ان کو کرپٹ سسٹم سوٹ کرتا ہے‘ تو پھر دیہاتیوں سے کیا گلہ؟ جب سے پاناما شروع ہوا‘ آپ کو ہر طرف سے یہ سننا پڑتا ہے کہ جناب جمہوری نظام تباہ ہو جائے گا۔ تو کیا جمہوریت کے لیے کرپٹ حکمران اور ان کی کرپشن ضروری ہے؟ ان حکمرانوں کو یہ لبرلز یہ نہیں سمجھائیں گے کہ کرپشن نہ کرو۔ سسٹم اور جمہوریت کو بدنام اور تباہ نہ کرو۔ سارا زور اس پر ہے کہ تم لوگ ان بے چاروں کو کچھ نہ کہو، انہیں لوٹنے دو۔ دکھ ہوتا ہے کہ پڑھی لکھی کلاس کیسے دلوالیہ پن کا شکار ہوئی ہے اور یہ کیسے کیسے جواز ڈھونڈ لاتے ہیں کہ کرپٹ لوگ اس جمہوری سسٹم کے لیے کتنے اہم ہیں۔ کوئی بھی ان خود ساختہ لبرلز کو کرائے پر لے سکتا ہے۔
جب یہ لوگ کرپشن پر پکڑ ے جائیں تو فوراً سازش قرار دے دیں گے۔ پہلے مقامی سازش کا الزام لگا رہے تھے۔ جب سے دوبئی سے نواز شریف صاحب کی مارکیٹنگ منیجرکی نوکری اور دس ہزار درہم تنخواہ کی مبینہ دستاویزات منظر عام پر آئی ہیں، اسے عالمی سازش قرار دیا جا رہا ہے۔ بہادر اتنے ہیں کہ یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کے اندر کون سے ادارے ان کے خلاف سازش کر رہے ہیں اور نہ ہی یہ بتانے کو تیار ہیں کہ عالمی سازش میں کون کون شریک ہے۔ اگر دوبئی کے حکمرانوں نے نواز شریف صاحب کی ملازمت کی دستاویز نکال کر جے آئی ٹی کو بھجوا کر سازش کی ہے‘ تو پھر اسحاق ڈار کے برخوردار اور نواز شریف کے داماد علی ڈار کو چاہیے کہ اس ملک کو چھوڑ دیں‘ جو سسر اور باپ کے خلاف سازشوں میں شریک ہے۔ اِن پڑھے لکھے لوگوں کو بہت سارے طریقے آتے ہیں کہ کس سوال کا جواب دینا ہے اور کس کا نہیں دینا۔ وزیر اعظم بھی جب جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے تو انہوں نے یہی کہا کہ وزیر اعظم پاکستان سے سوال نہیں ہو سکتا۔ ان کا استحقاق ہے کہ وہ کسی سوال کا جواب نہ دیں۔ اسحاق ڈار نے بھی یہی جواب جے آئی ٹی کو دیا۔ یہ استحقاق ایک عام پاکستانی کسی دن تھانے میں لینے کی کوشش کرے تو دیکھیے کہ تھانیدار کیا حشر کرتا ہے۔
سوال یہ ہے اگر ہمارے حکمران قانون کو جواب دہ نہیں ہیں تو پھر عام انسان کو قانون کیوں پھانسی لگا دیتا ہے؟ جو کاروباری اربوں کی کرپشن کرتے ہیں اور انہیں ایف آئی اے یا ایس ای سی پی یا نیب والے اٹھا لیتے ہیں‘ تو پھر وہ بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ جناب انہوں نے کسی پروجیکٹ میں کوئی کرپشن نہیں کی‘ اگر وہ انکم ٹیکس چوری کر رہے تھے تو ان کا اپنا پیسہ تھا۔ ایف بی آر کون ہوتا ہے ان سے پوچھنے والا۔ ملک کے سربراہ کو تو زیادہ جواب دہ ہونا چاہیے تاکہ وہ دیگر اداروں اور ان کے سربراہوں کو بتا سکے کہ اگر اس سے سوال و جواب اور اس کا احتساب ہو سکتا ہے تو ان سب کا ہو سکتا ہے۔ جب وزیر اعظم کہے گا اس کا احتساب نہیں ہو سکتا تو پھر کل کو دوسرے بھی یہی بات کہیں گے۔ اگر ایسے قانون ہیں جو ان کے احتساب کی راہ میں رکاوٹ ہیں تو پھر ان قوانین کو تبدیل وزیر اعظم اور پارلیمنٹ ہی کر سکتے ہیں۔
جو کہانیاں جے آئی ٹی کو اس خاندان نے سنائی ہیں وہ مذاق بن گیا ہے۔ لگتا تھا جے آئی ٹی کے سامنے پہنچ کر سب بھولے بن گئے ہیں۔ کسی کو کچھ یاد نہیں تھا۔ کسی کو لندن فلیٹس یاد نہیں‘ تو کوئی کہہ رہا تھا: مجھے تو یہ بھی پتہ نہیں کہ ماڈل ٹائون کا گھر ان کا اپنا ہے یا نہیں۔ کسی کو لندن فلیٹس کا علم نہ تھا‘ تو کوئی بھول گیا کہ کب گلف سٹیل ملز کی فروخت پر دستخط کیے گئے تھے یا کوئی یہ بھول گیا کہ اس کا باپ کب لندن گیا تھا اور وہ باپ سے کب ملنے گئی۔ کوئی بولا: اس نے پاکٹ منی سے کئی مربع زمین خرید لی تھی۔ کسی کو یاد نہیں تھا کہ قطری شہزادے سے کب ڈیل ہوئی تھی‘ کب پیسے دیے گئے اور کب خط آیا‘ تو کسی کو یاد نہ تھا کہ بھائی بہن کا معاہدہ کب ہوا۔ کوئی بھول گیا کہ گلف سٹیل ملز کے خلاف دوبئی میں کب ڈگری جاری ہوئی۔
میں نے کہا: پیرزادہ صاحب! اس قوم کی یادداشت بھی شریف خاندان کی طرح بہت کمزور ہے لہٰذا زیادہ امید نہ رکھیں!
ہم سب گجنی ہیں!