تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     14-07-2017

واہگہ کے راستے بھارت افغان تجارت کا معاملہ

تاجکستان کے حالیہ دورے سے واپسی پر وزیر اعظم محمد نواز شریف نے اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ دوشنبے میں ملاقات کے دوران میں افغان صدر اشرف غنی نے مطالبہ کیا تھا کہ جس طرح افغانستان کو پاکستان کے راستے بھارت کے ساتھ تجارت کی سہولت حاصل ہے اسی طرح بھارت کو بھی واہگہ کے راستے افغانستان کے ساتھ تجارت کی رعایت دی جائے۔ وزیر اعظم نے فرمایا کہ انہوں نے افغان صدر کی یہ تجویز تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور واضح کر دیا کہ پاکستان نے افغانستان کو اپنی سرزمین کے راستے بھارت سے تجارت کی اجازت دے رکھی ہے اور یہ رعایت قائم رہے گی لیکن بھارت کو پاکستان کے راستے یہ رعایت نہیں دی جا سکتی۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس سوال کا جواب مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے فراہم کیا ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ پاکستان اور تاجکستان کے درمیان ایک ہزار میگاواٹ بجلی خریدنے کا جو معاہدہ طے ہے‘ اس کے لئے افغانستان کے صدر نے حال ہی میں افغانستان کے راستے ٹرنس مشن لائن تعمیر کرنے کی اس بنا پر اجازت دینے سے انکار کر دیا کہ جب تک پاکستان بھارت کو اپنی سرزمین سے افغانستان کے ساتھ تجارت کی اجازت نہیں دیتا افغانستان اس ٹرانس مشن لائن کو بچھانے کی اجازت نہیں دے گا۔ سرتاج عزیز نے بتایا کہ پاکستان نے افغانستان پر اپنے موقف کو واضح کر دیا ہے کہ جب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان باہمی تنازعات موجود ہیں بھارت کو اس قسم کی رعایت نہیں دی جا سکتی اور خصوصاً کشمیر کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر جس میں گزشتہ سال جولائی سے اب تک سو سے زائد نہتے کشمیری بھارتی افواج کے ہاتھوں جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں‘ پاکستان بھارت کو اس قسم کی رعایت فراہم کرنے پر راضی نہیں ہو سکتا۔
پاکستان کے راستے افغانستان بلکہ اس سے بھی آگے وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارت اور اقتصادی روابط کو فروغ دینے کی بھارتی خواہش بڑی دیرینہ ہے۔ 1978میں بھارت کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی جب جنتا حکومت کے سربراہ وزیر اعظم مرار جی ڈیسائی کی کابینہ میں وزیر خارجہ تھے تو انہوں نے پاکستان کے دورے کے دوران میں اس خواہش کا اظہار کیا تھا ‘ لیکن پاکستان نے اس سے اتفاق نہیں کیا تھا۔ اس وقت بھی پاکستان کا موقف یہی تھا ‘ جو آج ہے یعنی جب تک دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی تنازعات خصوصاً کشمیر کا مسئلہ موجود ہے‘ پاکستان اس تجویز کو منظور نہیں کر سکتا ‘ تاہم 1991میں سابقہ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے اور وسط ایشیائی ریاستوں کی بطور آزاد اور خود مختار ممالک ابھرنے کے بعد صورتحال مختلف ہو گئی ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ روس سے علیحدگی کے بعد وسطی ایشیا کی ریاستیں بھی خود افغانستان اور پاکستان کے راستے بھارت کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کی خواہش مند تھیں۔ وسطی ایشیا کی یہ نو آزاد ریاستیں چونکہ قدرتی اور معدنی دولت مثلاً تیل اور گیس سے مالامال ہیں اور پاکستان کے علاوہ بھارت کو بھی اپنی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت کے لئے توانائی کی ضرورت ہے۔ اس لئے پاکستان کے لئے بھارت اور وسطی ایشیا کے درمیان پاکستان کے راستے روابط کو مکمل طور پر بلاک کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال ترکمانستان سے افغانستان کے راستے پاکستان اور اس سے آگے بھارت تک گیس پائپ لائن بچھانے کا منصوبہ ہے۔ ابتدا میں پاکستان اس گیس پائپ لائن کو پاکستان سے آگے بھارت تک توسیع دینے کا مخالف تھا‘ لیکن ترکمانستان کی طرف سے دبائو کے پیش نظر پاکستان کو اس پر راضی ہونا پڑا اور اس کے لئے اب اس منصوبے کو ''تاپی‘‘(TAPI)یعنی ترکمانستان‘ افغانستان‘ پاکستان اور انڈیا کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک زمانہ تھا جب پاکستان کے راستے بھارت کو ایران کی گیس درآمد کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا‘ لیکن پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کے دور میں ایران کی گیس کو پاکستان کے راستے بھارت تک لے جانے پر سمجھوتہ ہو گیا۔ اس کی وجہ بھی ایران کی طرف سے پاکستان پر دبائو تھا‘ کیونکہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی گیس کی ضروریات کم ہیں اور اسی کے پیش نظر 2775کلومیٹر لمبی گیس پائپ لائن کی تعمیر پر اٹھنے والے اخراجات بہت زیادہ تھے۔ اس لئے پاکستان کو ایران کے اس موقف سے متفق ہونا پڑا کہ پائپ لائن کی تعمیر کے اخراجات اور ایران کی گیس برآمد کرنے کی طویل المیعاد حکمت عملی کے پیش نظر ایران پاکستان گیس پائپ لائن کو بھارت تک توسیع دی جائے۔ اس طرح اس منصوبے کو آئی پی آئی (IPI)کا نام دیا گیا۔لیکن تجارت کا معاملہ الگ ہے۔ اصولی طور پر تو پاکستان کے راستے بھارت اور افغانستان کے مابین دو طرفہ تجارت کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے‘ کیونکہ پاکستان اور بھارت کی طرح افغانستان بھی ''سارک‘‘ کے تحت ہونے والے سائوتھ ایشیا فری ٹریڈ ایریا (SAFTA)کا رکن ہے اور پاکستان کے راستے بھارت اور افغانستان کے درمیان تجارت پر کسی قسم کی پابندی نہیں‘ لیکن اس مسئلہ سے بڑے اہم سیاسی اور سلامتی سے متعلقہ ایشوزوابستہ ہیں۔ اس وقت بھارت کی ایران‘ افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کے علاوہ روس کے ساتھ تجارت ایک ایسے تجارتی راستے سے ہو رہی ہے جسے ناردرن کوریڈور(Northern Corridor)کہتے ہیں، لیکن یہ ایک طویل راستہ ہے اور اس ناردرن کوریڈور کو درآمد ی اور برآمدی تجارت کے لئے استعمال کرنے پر بہت زیادہ اخراجات اٹھتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اگر بھارت کو واہگہ کے راستے پشاور طورخم اور چمن تک اپنا تجارتی سامان افغانستان اور اس سے آگے وسطی ایشیا تک بھیجنے کی سہولت حاصل ہو جاتی ہے تو بھارت کے لئے یہ بہت سود مند ثابت ہو گا‘ کیونکہ اس طرح بھارت اور افغانستان کے درمیان فاصلہ ایک تہائی رہ جاتا ہے۔ اس طرح پاکستان کے مغرب میں واقع وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے ممالک کے ساتھ بھارت کی تجارتی حجم میں کئی گنا اضافہ ہو سکتاہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ کشیدگی ‘ خصوصاً کشمیر کی صورتحال اور بھارت کی طرف سے پاکستان کے ساتھ باہمی تنازعات‘ بشمول کشمیر کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے سے اجتناب کے پیش نظر پاکستان بھارت کو اپنی سرزمین کے راستے ایسا موقعہ فراہم نہیں کرنا چاہتا‘ لیکن یہ صورتحال زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکتی۔ سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد عالمی سیاست خصوصاً ہمسایہ ممالک کے آپس کے تعلقات میں بڑی ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال چین کی خارجہ پالیسی اور علاقائی حکمت عملی میں گزشتہ 25برسوں میں ہونے والی تبدیلی ہے۔ اب قوموں کا رجحان محاذ آرائی کے بجائے تعاون اور تجارت کو فروغ دینے کی طرف زیادہ ہے۔ اس سلسلے میں چین کے ون بیلٹ ون روڈ کے عظیم منصوبے کی مثال دی جا سکتی ہے۔ اس منصوبے کا مقصد ایشیا‘ یورپ اور افریقہ کے درمیان تجارت اور اقتصادی تعاون کو فروغ دینے کے لئے چینی سرمایہ کاری اور مقامی ممالک کی شراکت سے سڑکوں‘ ریلوے لائنوں‘ توانائی کے منصوبوں اور دیگر صنعتی منصوبوں کا جال بچھانا ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان طے پانے والا اکنامک کوریڈدور (سی پیک) اس بڑے منصوبے کا ایک حصہ ہے۔ سی پیک پر عمل درآمد اور اس کی کامیابی کا انحصار نہ صرف جنوبی ایشیا کے ممالک کے درمیان بلکہ ایشیا کے تین بڑے خطوں یعنی جنوبی ایشیا‘ وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے ممالک کے درمیان روابط‘ تجارت اور اقتصادی تعاون کے فروغ پر ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) میں پاکستان اور بھارت کی شمولیت کے بعد نہ صرف ان دونوں ملکوں میں امن اور تعاون کی اہمیت اور ضرورت بڑھ گئی ہے بلکہ وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے درمیان تجارت‘ توانائی اور لوگوں کی آمد و رفت جیسے شعبوں میں قریبی تعاون بھی ناگزیر ہو جائے گا۔ پاکستان کی ہر حکومت نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ ان کا ملک اس سلسلے میں ایک پل کا کردار ادا کرنے کو تیار ہے‘ لیکن بھارت کی جانب سے پاکستان کے ساتھ اہم دو طرفہ تنازعات کے حل میں لیت و لعل ایک مسلسل رکاوٹ ثابت ہو رہی ہے۔ اگر ان تینوں خطوں کے عوام کی ترقی اور خوش حالی کے لئے ناگزیر ون بیلٹ ون روڈ اور سی پیک منصوبوں پر عمل درآمد میں کوئی رکاوٹ پیش آتی ہے یا تاخیر واقع ہوتی ہے تو اس کی ذمہ داری بھارت کی ہٹ دھرمی پر مبنی علاقائی حکمت عملی پر عائد ہو گی۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved