تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     14-07-2017

قوم کے چھ بیٹے اور ہلالِ پاکستان

جے آئی ٹی رپورٹ سے قبل حکومتی وزراء کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ جب تک قطری شہزادے کے پاس جا کر اس کابیان نہیں لیا جاتا ہم جے آئی ٹی کی رپورٹ کو تسلیم نہیں کریں گے اور دوسری بات جسے وہ تواتر سے کہہ رہے تھے کہ جہاں سے پانامہ لیکس کی یہ کہانی شروع کی گئی ہے اس کیلئے لندن اور برٹش ورجن آئی لینڈ جو اس مقدمے کی بنیاد ہے وہاں تو ٹیم کا کوئی رکن گیا ہی نہیں تو پھر یہ تحقیقات کیسی ؟ جب حکومتی وزراء یہ سب کچھ کہہ رہے تھے تو اس وقت وہ جانتے تھے کہ قابل احترام شہزادہ حمد بن جا سم کا بیان لینے کیلئے جے آئی ٹی کے اراکین دوحا میں پاکستانی سفارت خانے میں بیٹھے ان کا انتظار کررہے ہیں لیکن انہوں نے یہ کہتے ہوئے پاکستانی سفارت خانے میں آنے سے انکار کر دیا کہ وہ قطری شہری ہونے کی بنا پر پاکستان کے قانون اور اختیار کے پابند نہیں اگر کسی کو مجھ سے کوئی بیان لینا ہے تو اسے میرے دفتر آنا ہوگا ۔محترم قطری پرنس کے اس استدلال کو مسلم لیگ نواز نے آگے بڑھاتے ہوئے کہنا شروع کر دیا کہ اگر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے قتل کی انکوائری کیلئے مارک سیگل کا بیان امریکہ جا کر لیا جا سکتا ہے تو انتہائی معزز قطری پرنس کا کیوں نہیں؟۔ یہ بھول گئے کہ مارک سیگل کا بیان لینے کیلئے ہماری ایف آئی اے کی ٹیم ان کے گھر یا دفتر نہیں گئی تھی بلکہ مارک سیگل کوواشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کی عمارت میں بلایا گیا تھا۔
مسلم لیگ نواز کی جانب سے سپریم کورٹ یا کسی بھی قسم کی اسٹیبلشمنٹ سے دوسرا سوال کرتے ہوئے با ر بار کہا جا رہا تھا کہ جہاں سے یہ ''پانامہ کی کہانی اور ڈرامہ‘‘ شروع ہوا ہے تو کیا وجہ ہے کہ جے آئی ٹی کے کسی رکن کو وہاں تک جانے کی توفیق ہی نہیں ہو رہی؟ یہ ایک ایسا
سوال تھا جو اپنے اندر انتہائی وزن رکھتا تھا لیکن شاید کسی نے انہیں نہیں بتایا تھا کہ نواز لیگ کے داغے جانے والے ان گولوں سے بہت پہلے ہی جے آئی ٹی یہ کام کرچکی تھی۔۔۔ پاکستان کے موقر اور با خبر دنیا اخبار کے ذریعے19 مئی کو اپنے لکھے جانے والے مضمون‘‘ پانامہ اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم‘‘ میں یہ خبر دیتے ہوئے میں نے لکھا تھا کہ پانامہ لیکس پر سپریم کورٹ کی جانب سے تشکیل دی جانے والی جائنٹ انٹیرو گیشن ٹیم نے لندن میں ریکارڈ کی چھان بین شروع کر دی ہے۔یہ خبر دیتے ہوئے میں نے لکھاتھا '' جے آئی ٹی نے پانامہ لیکس پر شریف فیملی کی جانب سے سپریم کورٹ میں مہیا کی جانے والی دستاویزات کی جانچ پڑتال کیلئے برطانیہ کی ایک پرائیویٹ آڈٹ فرم کی خدمات حاصل کرنے کا ارادہ کر لیا ہے جو اس سلسلے میں سپریم کورٹ کی معاونت کرے گی اور ممکن ہے کہ یہ مشن سکیورٹی ایکسچینج کارپوریشن سے جے آئی ٹی کیلئے منتخب کئے جانے والے بلال رسول انجام دیں۔ ہو سکتا ہے نا پسندیدہ یا عام قسم کے لکھنے والوں کے مضامین کو حکومت یا ان کی ایجنسیاں اس قابل ہی نہ سمجھتی ہوں کہ ان پر ایک نظر ڈال لی جائے اور اسی وجہ سے میرے یہ الفاظ ان تک پہنچے ہی نہ ہوں اور اسی لاعلمی کی بنیاد پر وہ اپنے اعتراضات کو ایک کے بعد دوسرے اور پھر تیسرے ترجمان کے ذریعے بار بار پیش کر رہے ہوں۔
یاد رکھئے سچ کو کوئی بھی شکست نہیں دے سکتا۔۔۔یہ سچ چاہے جے آئی ٹی کے لوگوں کی جانب سے بولا جا رہا ہو یا مسلم لیگ نواز کی جانب سے !! سچائی اور حق اﷲ کی شان سے منسوب ہے اور اگر جھوٹ یہ سمجھتا ہے کہ وہ سچ کو مات دے دے گا یا اپنے خزانوں سے سچ کو جھٹلا کر رکھ دے گا تو وہ ایک خاص مدت کیلئے جسے اﷲ ڈھیل دینے کی صورت میں بڑھا ئے چلے جاتا ہے تاکہ اس کا نا فرمان اپنے جھوٹ کی شان پر اکڑنے کیلئے اپنے جھوٹ کے بہتان پر ذاتی فائدے اٹھانے کیلئے جس حد تک جا سکتا ہے چلا جائے کیونکہ شکست اور ذلت ازل سے ابد تک جھوٹ کی شکست سے منسوب ہے اور سچ اور ہر قسم کے جھوٹ پر غالب آ تا رہاہے۔
جیسے کہا جاتا ہے کہ ہر نئے بچے کی پیدائش کی صور ت میں دنیا میں آمد خدا کا یہ پیغام ہوتا ہے کہ وہ ابھی مایوس نہیں ہوا اسی طرح جائنٹ انٹیرو گیشن ٹیم کے چھ اراکین نے دنیا جہاں کے ہر لالچ اور خاندان سمیت خود کو ملنے والی خوفناک قسم کی دھمکیوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے رہ کر ثابت کر دیا ہے کہ خدا ابھی پاکستان سے مایوس نہیں ہوا۔۔۔اور اگر جے آئی ٹی کی طرح ملک کے تمام ادارے ان چھ پاکستانیوں کی طرح دنیاوی خوف اور لالچ کو اپنے فرائض پر غالب نہ آنے دیں ۔۔۔ پاکستان کے پرچم سے سجی ہوئی وردی پہن کر حکمرانوں اور ان کے خاندان کے بچوں کے پائوں میں بیٹھنے کی بجائے دنیا بھر کے تمام لالچ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے اس فرمان پر قربان کر دیں کہ سرکاری ملازمین کسی کے غلام نہ بنیں کسی بھی حکمران اس کے وزیروں ، مشیروں اور حواری سیا ستدانوں کی چاپلوسی اور خوشامد کرنے کی بجائے صرف پاکستان اور اس کے عوام سے وفا داری نبھائیں تو یہ ملک کسی کا محتاج نہیں ہو گا ۔
سبز ہلالی پرچم کی شناخت سے دنیا بھر میں پہچانے جانے والے میرے وطن پاکستان کا ہر سرکاری اہلکار ہر تاجر اور کاروباری فرد سپاہی سے انسپکٹر جنرل تک نائب قاصد اور چوکیدار سے چیف سیکرٹری تک سب جائنٹ انٹیرو گیشن ٹیم کے ان6 ارکان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انہیں اپنی زندگی کی منزل بنا لیں‘ انہیں اپنا رہبر بناتے ہوئے تمام لالچ اور ذاتی مفاد سچ اور انصاف پر قربان کر دیں کیونکہ سچ اور انصاف اﷲ کی شان سے منسوب ہے اور اﷲ کی شان کو مضبوط کرنے والے کا اجر اﷲ کے پاس ہے اور اگر آپ بڑی بڑی کرسیوں اور دولت کے انباروں کے نشے میں آ کر اﷲ کی صفاتی شان سچائی اور انصاف کے مقابلے میں ظلم ، نا انصافی اور جھوٹ کا ساتھ دیں گے تو پھر۔۔۔قہر کی صورت میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رہنے والے عذاب الٰہی کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہنا ہو گا۔ 
قوم کے بچے بچے کی خواہش ہے کہ اس چودہ اگست کو جے آئی ٹی کے ان چھ اراکین کیلئے پاکستان کے سب سے بڑے سول ایوارڈ ہلال پاکستان کا اعلان کیا جائے۔۔۔کیونکہ ان چھ ارکان نے قوم کو یہ امید دلادی ہے کہ'' ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘۔ پاکستانی پاسپورٹ کا دنیا بھر میں وقار قائم ہو سکتا ہے دنیا بھر کا ایک بار پھر سے پاکستان پر اعتماد بحال ہو سکتا ہے، جب وہ واجد ضیاء کی طرح اور پھر ایس ای سی پی کی انکوائری کرنے والے ڈائریکٹر ایف آئی اے مقصود الحسن کی طرح تفتیش کرنا شروع ہو جائیں گے۔۔ بے خوف ہو کر دنیاوی لالچ سے بھری ہوئی بوریاں ٹھکرا کر۔۔!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved