گزشتہ چند روز کے دوران پاکستانی سیاست کو بہت کچھ ایسا دیکھنے کو ملا، جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ایک سٹنگ (SITTING) وزیر اعظم کے خلاف سپریم کورٹ کے ایک فاضل بنچ کی نگرانی میں ایک ایسی ''جائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم‘‘ (JIT) بنائی گئی، جس میں ملٹری انٹیلی جنس (MI) اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (ISI) کے نمائندے بھی شامل تھے۔ کسی ایسے ملک میں جہاں پارلیمانی یا (غیر پارلیمانی) جمہوریت قائم ہے، اعلیٰ ترین عدالت کے زیر اہتمام شاید ہی اس طرح کا اقدام دیکھنے یا سننے میں آیا ہو۔ پاکستان کا دستوری نظام اداروں کے درمیان تقسیم اختیارات پر زور دیتا ہے، اسی تصور سے عدلیہ کی خود مختاری کا تصور جنم لیتا ہے، اور اسی کے تابع زیریں سطح پر بھی انتظامیہ کو عدلیہ سے یکسر الگ کر دیا گیا ہے۔ کوئی ایک ادارہ دوسرے ادارے کی ذمہ داری سنبھال سکتا ہے نہ اس کے اختیارات استعمال کر سکتا ہے۔ اسی بنیاد پر انتہائی غیر معمولی حالات میں بھی فوجی مداخلت کا نظریہ اب یکسر رد کر دیا گیا ہے، اور نظریۂ ضرورت کے تحت دستوری انتظام میں خلل ڈالنے کی اجازت موقوف کر دی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کا آخری فیصلہ یہی ہے...
جب دستور کی دفعہ (3)184 کے تحت وزیر اعظم کی نااہلی کی درخواست سماعت کے لیے منظور کی گئی تھی، تو اس پر وزیر اعظم کے وکلا نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ بعد میں عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف ایسی ہی درخواستیں دائر کر دی گئیں۔ وہ بھی ایک فل بنچ کے زیر سماعت ہیں۔ وہاں بھی مدعا علیہان نے اختیار سماعت کو چیلنج نہیں کیا کہ وزیر اعظم کے خلاف درخواست گزاروں میں تحریک انصاف بھی شامل تھی۔ جس ہتھیار سے ان پر نشانہ باندھا گیا تھا، اس کے اپنے خلاف استعمال پر دہائی کیسے دی جا سکتی تھی... کامن سینس کا تقاضا تو یہی نظر آتا تھا (اور آتا ہے) کہ (3)184 کے تحت وزیر اعظم (یا کسی بھی رکن اسمبلی) کی نااہلی کی کارروائی پر شدید اعتراض کیا جاتا، اور ''جوڈیشل کو‘‘ کا یہ دروازہ نہ کھلنے دیا جاتا... لیکن ایسا ہوا نہیں۔ اڑائی جانے والی گرد نے آنکھوں میں دھول یوں ڈالی کہ وہ سامنے کے حقائق سے بھی نظر چرا بیٹھیں۔ نہ عدالت کا حقِ سماعت چیلنج کیا گیا، نہ ہی بعد میں قائم کی جانے والی جے آئی ٹی کی تشکیل پر اعتراض اٹھانے کے لیے باقاعدہ درخواست دائر کی گئی۔ نہ ہی اس میں فوجی مداخلت کو روکنے کے لیے باقاعدہ استدعا کی گئی... اور تو اور جب جے آئی ٹی کے ارکان کے انتخاب کا معاملہ قومی میڈیا میں زیر بحث آیا، اور جے آئی ٹی کے جملہ امور وزارتِ دفاع کے ذیلی (؟) اداروں کے سپرد کرنے کی اطلاعات عام ہوئیں، تب بھی سپریم کورٹ میں اس حوالے سے کوئی درخواست دائر نہیں کی گئی۔ وزیر اعظم کے وکلا نے ایسا کیوں کیا، یا ان کے موکل نے انہیں ایسا کرنے کی اجازت (یا ہدایت) کیوں دی، اس پر تو وہی روشنی ڈال سکتے ہیں... لیکن وہ لوگ جو اس عدالتی کارروائی میں فریق نہیں ہیں، ایک شہری کے طور پر اپنے اضطراب کا اظہار کرنے میں آزاد ہیں، اور انہیں یہ کہنے سے روکا نہیں جا سکتا کہ دستوری سکیم کسی شخص یا اشخاص کے اعتراض یا عدم اعتراض پر بدلی نہیں جا سکتی۔ اگر حامد اپنے کسی ''ماتحت‘‘ کو حکم دے کہ وہ اس کے پائوں میں گولی مار دے، تو یہ تعمیل حکم اس کے جرم کو ختم نہیں کر سکتی۔ بہرحال جے آئی ٹی نے جس ماحول اور جس پس منظر میں کام شروع کیا، اس سے سوالات اٹھنا شروع ہو گئے، اور اب تک ان کا کوئی جواب نہیں مل پایا۔ یہ لطیفہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے والے 18 گواہوں میں سے (شائع شدہ دستاویزات کے مطابق) جس ایک شخص کو ''سر‘‘ (SIR) کہہ کر مخاطب کیا گیا، وہ ایک سابق جرنیل تھا۔ وزیر اعظم تک کو اس سلوک کا مستحق نہیں گردانا گیا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جے آئی ٹی کے جملہ کار پردازان کس ذہنیت کے ساتھ کارروائی جاری رکھے ہوئے تھے۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ اب منظر عام پر آ چکی۔ اس نے وزیر اعظم کے خاندان اور ان کے کاروبار پر کئی سوالات اور اعتراضات اٹھا دیئے ہیں۔ اگرچہ غیر ذمہ دارانہ الفاظ کے استعمال نے اس کے اعتبار کو متاثر کیا ہے، تاہم اس کے مختلف حصوں پر بحث جاری ہے۔ وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) نے اسے یکسر مسترد کر دیا ہے۔ ان کے خیال میں یہ مفروضوں، واہموں اور خواہشوں پر مبنی ناول ہے۔ کئی غیر جانبدار مبصرین البتہ کہتے ہیں کہ اس میں بہت کچھ ایسا ہے جس کا واضح اور شافی جواب مدعا علیہان کو دینا ہو گا۔ سوموار کو سپریم کورٹ کا فل بنچ اس رپورٹ پر اعتراضات کی سماعت کا آغاز کرے گا۔ درخواست گزار اور ان کے متحارب دونوں بحث میںحصہ لے سکیں گے۔ اس رپورٹ پر رائے زنی سے پہلے مناسب ہو گا کہ شریف خاندان کا موقف سامنے آ جائے، تاکہ کوئی نکتہ بیان (یا رد) کیا جا سکے۔
حزب اختلاف کی اکثر جماعتیں وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہیں، لیکن مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں پر مشتمل ارکان قومی اسمبلی نے اسے یکسر مسترد کر دیا ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ان کا دامن صاف ہے، اور ان کے خاندانی کاروباری امور کو زیر بحث لا کر الجھائو پیدا کر دیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی بھی الزام کا تعلق موجودہ دورِ حکومت سے نہیں ہے، نہ ہی کارِ سرکار کے ذریعے دولت سمیٹنے کا کوئی متعین الزام سامنے آیا ہے۔ برسوں پہلے جو ریفرنس دائر کئے گئے تھے، ان میں سے عدالتی فیصلوں کے مطابق کالعدم قرار پا جانے والوں میں سے بھی مواد لے کر اسے نئی زندگی بخشنے کی کوشش کی گئی ہے، گویا شریف خاندان کے لیے نئے قواعد و ضوابط ایجاد کئے گئے ہیں۔ اس بحث سے قطع نظر ہمیں سپریم کورٹ کے واضح اور قطعی فیصلے کا انتظار کرنا ہو گا، کہ سیاسی معاملات جو بھی ہوں، قانونی طور پر تو اس کی رائے ہی حرفِ آخر ہے۔
یہ بات باعث اطمینان ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے بھی دستوری نظام میں خلل اندازی کو یکسر مسترد کر دیا ہے، وقت مقررہ سے قبل انتخابات کا مطالبہ بھی نہیں کیا گیا، گویا اس حوالے سے حکومت کے ساتھ ان کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ فریقین کو اب اپنی نگاہیں سپریم کورٹ پر لگانی چاہئیں اور اس سے باہر کسی ایسی سرگرمی کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہئے جس سے امن و امان خطرے میں پڑے... نواز شریف کی سیاسی حیثیت مستحکم نظر آتی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کا حلقہ انتخاب پُرجوش ہے، اور ''ہتھیار‘‘ ڈالنے کو تیار نہیں۔ یہ ایک اچھا منظر ہے کہ پاکستانی ریاست کو سب سے زیادہ جس بات کی ضرورت ہے، وہ مستحکم سیاسی جماعتیں ہیں۔ جنوبی ایشیا میں افراد کو سیاست میں بنیادی اہمیت حاصل ہے... اپنی ملّت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر... مسلم لیگ(ن) شریف خاندان، پیپلز پارٹی بھٹو زرداری خاندان اور تحریک انصاف عمران خان کے بغیر اپنے وجود کا تصور کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اگر قبر میں لیٹ کر اپنی پارٹی کی قوت بنے رہے ہیں، تو نواز شریف کے بارے میں یہ تصور کیسے کیا جا سکتا ہے کہ ان کو جیتے جاگتے مسلم لیگ (ن) سے بے دخل کیا جا سکتا ہے۔ سیاست کا اپنا دھارا ہے، اس کھیل کے اپنے قواعد و ضوابط ہیں۔ پنجابی کبڈی کھیلنے والوں پر کرکٹ اور گالف کھیلنے والے اپنے ضوابط نافذ نہیں کر سکتے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)