تیسرے دھرنے کی تیاری جاری‘ مقابلہ کروں گا : نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''تیسرے دھرنے کی تیاری کی جا رہی ہے لیکن میں مقابلہ کروں گا‘‘ اگرچہ پچھلے دھرنے سے مجھے پیپلز پارٹی نے بچایا تھا لیکن اب اکیلا ہی لڑنا پڑے گا‘ پتا نہیں پیپلز پارٹی والوں کو کیاہو گیا ہے کہ انہوں نے میثاق جمہوریت کو بھی طاق پر رکھ دیا ہے حالانکہ طاق اور چیزیں رکھنے کے لئے ہوتا ہے‘ افسوس کہ انہیں یہ بھی نہیں پتا کہ کونسی چیز کہاں رکھنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پہلے بھی نااہل کیا گیا لیکن ہمت نہیں ہاری‘‘ اور اب بھی یقینی طور پر نااہل ہونے جا رہا ہوں بلکہ اگر نااہلی پر ہی جان چھوٹ گئی تو یہ بھی غنیمت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہمارے اوپر ایک اور حملہ ہو رہا ہے‘‘ حالانکہ ایک ہی حملہ کافی ہوتا ہے جیسا کہ ہم نے سپریم کورٹ پر ایک ہی حملہ کیا تھا لیکن اس کا مقابلہ ذرا مختلف طریقے سے کر رہے ہیں‘ اللہ تعالی کامیابی عطا فرمائے‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز نواز لیگ کی پارلیمانی پارٹی سے خطاب کر رہے تھے۔
قرآن پاک پر نوازشریف کی امانت اور
دیانت کی قسم کھا سکتا ہوں : شہبازشریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''قرآن پاک پر نوازشریف کی دیانت اور امانت کی قسم کھا سکتا ہوں‘‘ اگرچہ قرآن پاک پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کے لئے ہے لیکن اگر یہ دونوں کام نہ ہو سکیں تو اس پر قسم کھانے میں کیا ہرج ہے کیونکہ اس سے کچھ تو استفادہ کرنا ہی چاہئے جبکہ جے آئی ٹی کی وجہ سے نوازشریف کی یادداشت پر بھی بہت برا اثر پڑا تھا اور رپورٹ سے پہلے ہی یہ عمل شروع ہو چکا تھا جیسا کہ تفتیش کے دوران تین گھنٹے تک انکار کرنے کے بعد انہیں یاد آیا کہ واقعی کوئی محمد حسین نامی آدمی ہے جو ان کا خالو ہے۔ خالہ جان سے اس کی معذرت! انہوں نے کہا کہ ''نوازشریف میرے بھائی نہیں‘ قائد ہیں‘‘ جبکہ بعد میں رفتہ رفتہ وہ قائداعظم ثانی بھی ہو گئے اور ان کے بعد اب میری باری ہے کیونکہ یہ بے فیض قوم قائداعظم کو بھولتی ہی جا رہی تھی۔ آپ اگلے روز لاہور میں کابینہ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
پاناما دیگ ٹھنڈی ہو رہی ہے‘ وزیراعظم استعفیٰ نہ دیں : فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''پاناما دیگ ٹھنڈی ہو رہی ہے وزیراعظم استعفیٰ نہ دیں‘‘ اور یہ دیگ ماشاء اللہ ان دیگوں ہی جیسی ہے جو عزیزی شہبازشریف پکوا کر اسلام آباد لے گئے تھے تاکہ سپریم کورٹ پر حملہ کرنے والے بھوکے نہ رہ جائیں‘ تاہم اس دیگ کے ٹھنڈی ہونے کے انتظار میں ہم جیسے نیاز مندوں نے اپنے اپنے برتن نکال لئے ہیں تاکہ پیٹ پوجا سے بھی مستفید ہو سکیں‘ جبکہ وزیراعظم کو استعفیٰ اس لئے بھی نہیں دینا چاہیے کہ پھر میرا کیا بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''وزیراعظم ڈٹ جائیں‘‘ اور سپریم کورٹ سے باعزت سزایاب ہو کر عدالتی شہید کے طور پر اپنا نام تاریخ میں رقم کر جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ''یہ مہم سی پیک کے خلاف بھارتی سازش ہے‘‘ حالانکہ یہ سراسر وزیراعظم کا بوریا بستر لپیٹنے جا رہی ہے‘ اس لئے ان کے جگری دوست کو چاہئے کہ اس کا نوٹس لیں کیونکہ یہ صرف سی پیک کے خلاف ہوتی تو اور بات تھی۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
مدت ختم ہونے کے بعد بھی جے آئی ٹی
کے اجلاس جاری ہیں : مریم اورنگزیب
وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''مدت ختم ہونے کے بعد بھی جے آئی ٹی کے اجلاس جاری ہیں‘‘ حالانکہ اس کی قطعاً ضرورت نہیں تھی کیونکہ جتنی رپورٹ پہلے وہ دے چکی ہے وزیراعظم کا گھونٹ بھرنے کے لئے وہی کافی سے زیادہ ہے اس لئے جے آئی ٹی خواہ مخواہ اپنے درد سر میں اضافہ نہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ ''جے آئی ٹی کا کام جاری رکھنا تشویشناک ہے‘‘ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہمارے خاندان کو نااہل قرار دلوانے کے علاوہ کچھ اور بھی چاہتی ہے حالانکہ اسے اسی پر اکتفا کر لینا چاہئے تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''چوہدری نثار وزیراعظم سے ناراض نہیں‘‘ بلکہ وہ خوشی خوشی ان کی رخصتی کی تیاریوں میں مصروف ہیں کیونکہ وزیراعظم کو باوقار طریقے سے رخصت ہونا چاہئے بلکہ وہ تو وزیراعظم کی کوئی یادگار بھی بنوانے کا سوچ رہے ہیں‘ آپ اگلے روز میڈیا سے بات کر رہی تھیں۔
اور اب خانہ پری کے طور پر یہ تازہ غزل:
اب چاہتا ہوں بات میں کوئی اثر بھی آئے
بویا تھا پیڑ جو کبھی اُس پر ثمر بھی آئے
انکار ہے تو وجہ بھی اُس کی بتائی جائے
انصاف ہے تو ہوتا ہوا کچھ نظر بھی آئے
کیسا ہے‘ کس طرح سے گزرتے ہیں اُس کے دن
اُس کا خیال ہی نہیں‘ اُس کی خبر بھی آئے
خالی خلا کو پُر تو کرے آ کے ایک دن
پہلو میں آئے تو سہی وہ‘ جس قدر بھی آئے
ہم اُس کی قدرتوں سے تو مُنکر نہیں‘ مگر
وہ آسمان سے کبھی نیچے اُتر بھی آئے
پایا نہ اس اندھیرے اُجالے کا بھید کچھ
ہم زندگی کے شام و سحر سے گزر بھی آئے
یوں تو مسافرت میں رہے عمر بھر مگر
موقعہ کبھی ملا ہے تو ہم اپنے گھر بھی آئے
ایک آدھ عیب ہو تو نکلتا ہے پھر بھی کام
لازم نہیں کہ آپ کو کوئی ہنر بھی آئے
اس بار کارگاہ محبت میں ہم ظفرؔ
بیکار بھی رہے ہیں تو کچھ کام کر بھی آئے
آج کا مقطع
ظفر، کِس کِس کو دکھلاتے پھرو گے اور پھر کب تک
کِہ یہ زخم تماشا کوئی دن میں بھرنے والا ہے