تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     16-07-2017

استعداد، تعداد پر بھاری

انسانی تاریخ‘ بھرپور غورکرنے پر ایک بہت ہی دلچسپ امر سے آگاہ کرتی ہے کہ ابتداء میں حکمرانوں کے لئے رقبہ سے زیادہ لوگ اہم تھے۔ انسان نے جب کھیتی باڑی شروع کی تو ریاست کا تصور سامنے آیا۔ اس دور میں سیاست کا نظام لامحالہ ایک بادشاہت کا نظام تھا جس میں مختلف قبیلے مل کر کسی قریبی زرخیز علاقے پر لشکر کشی کرتے اور وہاں کی رعایا کو اپنا محکوم بنا کر اپنی ریاست اور حکومت کا اعلان کر دیتے۔ آج سے دس ہزار سال پہلے جب دنیا میں زرعی انقلاب آیا تو پوری دنیا کی آبادی تقریبا بیس کروڑ تھی۔ جی ہاں! کل کرّہ ارض پر جہاں آج ساڑھے سات ارب سے زیادہ نفوس رہائش پذیر ہیں‘ وہاں آبادی کبھی 20 کروڑ سے زیادہ نہیں تھی۔ ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت کی کل آبادی آج کے امریکہ کی آبادی سے کم تھی یا ایک فرد کے مقابلے میں آج 40 افراد ہو چکے ہیں۔
شروع میں ذکر ہوا اس دلچسپ اَمر کا کہ اُس وقت کی ایک ریاست میں بادشاہت قائم کرنے کے لئے رقبے سے زیادہ لوگوں کی اہمیت تھی۔ یعنی یہ دیکھا جاتا تھا کہ کوئی بادشاہ کتنے لوگوں پر حکومت کرتا ہے نہ یہ کہ وہ کتنے رقبے پر حکومت کر رہا ہے۔ گویا ریاست قائم کرنے کے لئے رعایا یعنی محکوم لوگوں کی تعداد زیادہ اہمیت کی حامل تھی۔ اگر ہم فی مربع کلومیٹر افراد کی تعداد شمار کریں تو پتہ چلتا ہے کہ پوری دنیا میں 1.3 فی مربع کلومیٹر لوگ آتے تھے۔ یعنی آبادی اور رقبہ (مربع کلومیٹر) تقریباً برابر تھے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ یہی انسانی آبادی اس قدر بے تحاشا بڑھے گی کہ دنیا کی ان ریاستوں اور حکومتوں کو مضبوط اور صحت مند تصور کیا جائے گا جہاں
آبادی کم ہو گی۔ 11 جولائی کو یوم عالمی آبادی اس ارادے کے ساتھ منایا گیا کہ بالخصوص ترقی پذیر ممالک میں آبادی پر قابو پانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔ آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک تاحال چین ہے۔ مگر 2022ء میں بھارت آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن جائے گا۔ واضح رہے کہ چین نے 1979ء میں 'ایک جوڑا ایک بچہ‘ کی پالیسی کے تحت قانون لاگو کیا اور خلاف ورزی کی شکل یعنی دوسرے بچے کی پیدائش پر باقاعدہ سزائیں دی جاتیں۔ چین نے یہ قانون 2016ء تک یعنی 37 سال تک لاگو رکھا اور انسانی تاریخ کے سب سے سخت گیر قانون کے نتیجے میں اپنی آبادی 40 سے 45 کروڑ کم کر لی‘ یعنی چین کی آبادی جو کہ اس وقت ایک ارب 38 کروڑ ہے تو یہ تخمینہ ایک ارب 80 کروڑ سے تجاوز کر چکا ہوتا اور مزید 10,8 سال میں 2 ارب کی آبادی کا ملک ہو چکا ہوتا۔ چین کی آزادی کے بعد جب مائوزئے تنگ کو مغربی ممالک نے یہ کہا کہ وہ اپنے ملک چین میں آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے پاپولیشن پلاننگ متعارف کروائیں تو انہوں نے اسے کمیونزم کے خلاف سازش سمجھا۔ مگر پھر وقت نے دیکھا کہ اسی ملک نے انسانی تاریخ کا سب سے سخت قانون متعارف کروا کر آبادی کو کنٹرول کیا۔
معاشیات کا پہلا نظریہ یہی کہتا تھا کہ ترقی کے لئے زرعی رقبہ اور لیبر یعنی آبادی کی ضرورت ہوتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ نظریہ مشین کی ایجاد کے ساتھ بالخصوص کمزور پڑ گیا اور ترقی کے لئے ٹیکنالوجی کی برتری ایک واحد حقیقت کے طور پر اُبھری اور آبادی میں اضافہ ترقی کے لئے معاون کی بجائے رکاوٹ تصور ہونے لگا۔ دنیا میں سائنسی ایجادات ہوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ذکر آئے، دنیا کے بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز کا تذکرہ ہو، جنگی ساز و سامان کا ذکر آئے تو دنیا کے لبوں پر فوراً یہودی کا لفظ آتا ہے۔ اسرائیل کی ریاست کا طاقت کے بل پر قیام عمل میں لایا جانا ہو، امریکی معیشت پر قبضہ کا ذکر آئے، مسلم دنیا میں سازشیں پھیلانے والے لوگوں کا ذکر ہو تو سب کی زبان پر یہودیوں کا ذکر ہی آتا ہے لیکن قارئین آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ پوری دنیا کے یہودیوں کی کل آبادی صرف ڈیڑھ کروڑ ہے جبکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ ارب سے زیادہ ہے اس کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک یہودی کے مقابلے میں دنیا میں ایک سو مسلمان ہیں۔ مگر وہ سو گُنا کم ہونے کے باوجود مسلمانوں پر غالب ہیں۔ اس کی واحد وجہ سائنسی تعلیم اور ریسرچ ہے۔ اس سے دوبارہ ثابت ہوتا ہے کہ استعداد تعداد پر بھاری ہوتی ہے۔
مغربی دنیا بالخصوص یورپ میں آبادی میں اضافہ صفر بلکہ بعض جگہوں پر منفی میں ہے یعنی وہاں پر ایک سال میں پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد وہاں کی سالانہ اموات سے کم ہوتی ہیں کیونکہ مغربی دنیا اس بات کا مکمل ادراک رکھتی ہے کہ صرف عددی اضافہ ترقی کے لئے ضروری نہیں بلکہ ترقی کے اَمر میں رکاوٹ ہے۔ دنیا میں مصنوعی کھادوں کا استعمال، برائلر مرغی کی پیداوار، ڈالڈا گھی کا استعمال اور زراعت میں مصنوعی بیجوں سے زیادہ فصلوں کا حصول صرف اس لئے اپنایا گیا کہ 1930 تا1975 یعنی 45 سالوںکے عرصے میں دنیا کی آبادی دو سے چار ارب ہونے جا رہی تھی تو سائنس دانوں کو خیال آیا کہ قدرتی اور خالص طریقے سے فصلوں کی پیداوار، گوشت کا حصول، دودھ کی پیداوار ناکافی ہو گی۔ اس لئے مصنوعی طریقوں سے پیداوار میں اضافے کا سوچا گیا۔ روایتی طور پر صرف روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا جاتا تھا، مگر آج کی دنیا میں صاف پانی، صاف ہوا اور صاف زمین کو فوقیت حاصل ہو چکی ہے۔ اس لئے کہ آج کی دنیا میں ان ریاستوں کو مضبوط، خوشحال گِنا جاتا ہے جہاں رقبہ زیادہ ہو تا ہے نہ کہ آبادی اور آبادی جتنی بھی کم ہو اس کی استعداد یعنی قابلیت زیادہ ہونی چاہئے۔
رقبہ اور آبادی کا تناسب ترقی میں کیا کردار ادا کرتا ہے اور اس میں صنعتی ترقی کا کتنا حصہ ہے‘ اس کا اندازہ بعض ممالک کے رقبہ اور آبادی میں تناسب سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً چین اور آسٹریلیا کا رقبہ تقریباً برابر ہے‘ لیکن آبادی میں زمین آسمان کا تناسب ہے۔ اس کے باوجود‘ آسٹریلیا کا شمار دنیا کے سات انتہائی ترقی یافتہ ممالک میں کیا جاتا ہے‘ لیکن پھر بھی چین صنعتی ترقی کے لحاظ سے آسٹریلیا سے بہت آگے ہے۔ یہی صورت حال بھارت اور بنگلہ دیش یا بھارت اور پاکستان کا تقابل کرنے سے سامنے آتی ہے۔ جہاں تک خوشحالی کا تعلق ہے وسیع رقبہ ریگستان پر مشتمل ہونے کے باوجود سعودی باشندے نسبتاً زیادہ خوشحال ہیں۔ اس کلیے اور تجزیے کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمیں بھی آبادی کے کنٹرول کے ساتھ ساتھ صنعتی و زرعی ترقی پر بھرپور توجہ دینا ہو گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved