شریف خاندان کی بساط الٹنے والی ہے۔ عمران خان اس پر جشن کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بات سمجھ میں نہیں آئی۔ جشن کی نہیں‘ یہ سبق سیکھنے کی ساعت ہے۔ ع
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
جناب ایس ایم ظفر سے پوچھا گیا کہ وکالت میں ان کی مسلسل کامیابیوں کا سبب کیا ہے۔ کہا کہ بنیادی نکتے کو وہ پکڑ رکھتے اور دہراتے رہتے ہیں۔ یاد دلاتے رہتے ہیں۔
پاناما کیس میں بنیادی نکتہ کیا ہے؟ یہ کہ پاکستان سے روپیہ دبئی کیسے پہنچا۔ دبئی سے قطر کیسے گیا۔ قطر سے جدّہ کے ذریعے یا براہ راست لندن کیسے پہنچا۔ روپے کے اسی سفر کو Money Trail کہا جاتا ہے۔
دبئی کو سرمایے کی منتقلی غیرقانونی تھی۔ دبئی سے پیسہ بھیجا ہی نہیں۔ امارات کی وزارت انصاف نے تحریری طور پر اس کی تصدیق کردی ہے؛ چنانچہ شارجہ‘جدّہ یا لندن پہنچنے کا کیا سوال ۔
پھر بیانات کا تضاد‘ محترمہ مریم نواز نے دعویٰ کیا کہ لندن تو کیا‘ پاکستان میں بھی ان کی کوئی جائیداد نہیں۔ ورجن آئی لینڈ کے حکام نے تحریری شہادت مہیا کردی ہے۔ دوسرے بے شمار تضادات بھی ہیں‘ شکار کی گئی مرغابیوں کی طرح جو جھیل کی سطح پر تیرتے دکھائی دیتے ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ بہت سی جنگیں گرد اڑا کر جیتی گئیں۔ میدان جنگ نہیں‘ یہ عدالت ہے۔ متحارب لشکروں کو نہیںفیصلہ ججوں کو کرنا ہے۔ گرد اڑی تو بٹھائی بھی جا سکے گی۔ ہر طرح کے اعتراضات وہ کریں گے۔ عدالت کو الجھانے کی وہ کوشش کریں گے۔ موقعہ اور مہلت انہیں ملے گی۔ ایک آدھ دن نہیں‘ ہفتہ بھر یا شاید اس سے بھی زیادہ۔ شریف خاندان کے وکلاء کو اجازت ہونی چاہئے کہ اپنا مؤقف تفصیل سے وہ بیان کر سکیں۔ اندازہ ہے کہ عدالت کا وقت ضائع کرنے کی وہ کوشش کریں گے۔
جمہوریت کے خلاف سازش؟ جمہوریت زیرِبحث ہی نہیں۔ پوری قوم جمہوری نظام برقرار رکھنے اور فروغ دینے پر متفق ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ لوٹ مار ہوئی یا نہیں‘قانون پامال ہوا یا نہیں۔
تفتیش کاروں نے دو ماہ میں برسوں کا کام کیسے مکمل کر لیا؟ پوچھ گچھ کے لیے جے آئی ٹی کو سپریم کورٹ کے اختیارات حاصل تھے۔ہر سرکاری محکمہ تعمیل اور تعاون کا پابند تھا۔ نیشنل بینک اور ایس ای سی پی نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی۔ ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی نے فرض شناسی سے کام لیا۔ برسوں کا ریکارڈ ان کے پاس موجود ہوتا ہے۔ آپس کی بات یہ ہے کہ جے آئی ٹی کے تحریر کردہ صفحات 40‘ 50 ہی ہوں گے‘ باقی دستاویزات کی نقول ہیں اور حوالہ جات۔
لندن کے راجہ صاحب کا نام اوّل واجد ضیاء کو نہیں سوجھا تھاجو ایک اجلے اور ایثار کیش آدمی ہیں۔ گوانتاناموبے کے بعض پاکستانی قیدیوں کا مقدمہ انہوں نے لڑا تھا‘ فیس کے بغیر۔ وہ برطانیہ کے ممتاز وکلاء میں سے ایک ہیں۔ وہیں پلے بڑھے۔ واجد ضیاء سے ان کا واحد تعلق رشتہ داری کا نہیں بلکہ وہ ایک ہی استاد کے شاگرد ہیں‘ یہ خاکسار بھی۔
استاد مکرم کے ہاں پاناما گیٹ زیر بحث تھا۔ ان کے رائے پوچھی تو بولے: ایماندار ہے‘ اخلاقی طور پر مضبوط اور ڈرتا کسی سے نہیں۔ کسی نے لقمہ دیا ''سوائے بیگم صاحبہ کے‘‘ قہقہہ بلند ہوا اور استاد بولے: ہر شریف آدمی بیوی سے ڈرتا ہے۔
ڈاکٹر شعیب سڈل سے دریافت کیا جن کے وہ ماتحت رہ چکے‘ انہوں نے کہا: بالکل ٹھیک آدمی ہے‘ دبائو قبول کرنے والا‘گھبرانے والا نہیں‘ باصلاحیت بھی ہے۔ میں نے کہا: ایک بار پھر سوچ لیجئے‘ آپ کی گواہی معتبر ہے۔ وہ ہنسے اور کہا: اپنی گواہی پر میں قائم ہوں۔ یہ حیران کن تھا کہ ڈاکٹر صاحب کم ہی کسی کی توثیق کرتے ہیں۔
جنرل آصف غفور نے جیسا کہ وضاحت کی ہے‘ فوجی افسروں کو ہدایت تھی کہ زیادتی کا ارتکاب کریں اور نہ رعایت کا۔آغاز کار چیف آف آرمی سٹاف نے تفتیش سے لاتعلق ہونے کا ارادہ کیا۔ اپنے رفقا سے انہوںبات کی۔ ان کا کہنا تھا: عدالت عظمیٰ کا احترام ملحوظ رکھتے چیف جسٹس سے درخواست کی جا سکتی ہے کہ ہمیں شامل نہ کیا جائے۔کئی دنوں کی مشاورت کے بعد ارادہ انہوں نے تبدیل کرلیا۔
ٹیم کے سربراہ کی طرح‘ باقی ارکان کا انتخاب ججوں نے کیا۔ ظاہر ہے کہ ان کا نہیں جو کمزور ہوتے اور کسی کے اشارئہ ِابرو پہ حرکت میں آتے بلکہ سچائی کو اجاگر کرنے میں عدالت کے مددگار۔فوجی افسروں کو فوجی قیادت نے چنا۔
پہلے دن سے تفتیشی ٹیم اور ججوں پر دبائو ڈالنے کی کوشش تھی۔ حکومت کے حلیف میڈیا گروپ کو اس مہم کی قیادت سوپنی گئی۔ جو بھی اعتراض ممکن تھا‘ انہوں نے اٹھایا۔ عدالت نے مگر یہ واضح کردیا کہ ٹیم پر اسے اعتماد ہے۔ whatsapp پر ہونے والی گفتگو‘ حسین نواز کی تصویر‘ طارق شفیع کی شان میں گستاخی‘ مقدس محترمہ کی طلبی۔ کوئی چیز ایسی نہیں کہ جس پر ہنگامہ اٹھانے اور سکینڈل تراشنے کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ حتیٰ کہ جے آئی ٹی سے منسوب‘ جعلی رپورٹ چھاپ دی گئی۔ بعد میں جواز یہ پیش کیا گیاکہ ایسا ہو جایا کرتا ہے۔ اخبار کے رپورٹروں کی ٹیم جسے مہم سونپی گئی‘ باہمت اور ہنرمند ہے۔ کارنامے اس کے بہت ہیں‘ حکومت اور ادارے کی پشت پناہی سے سرخاب کا ایک اور پر‘ اپنی ٹوپی میں لگانے پر وہ تلے تھے۔ ضرورت سے زیادہ اعتماد انہیں لے ڈوبا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ان میں سے ایک نے سپریم کورٹ کے ایک جج کو براہ راست فون کیا۔
عسکری قیادت پر کیچڑ اچھالنے کا سلسلہ بھی اوّل دن ہی سے شروع کردیا گیا۔ شہ پا کر وہ آگے سے آگے بڑھتے گئے۔ عدالت اور عسکری قیادت نے جواب میں وہ ہتھیار برتا جو کبھی ناکام نہیں ہوتا۔ صبر اور صبر بھی قیامت کا۔ فرمایا‘ ان اللہ مع الصابرین۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘ فقط اجروانعام نہیں بلکہ متاثرہ کے حق میں وہ فریق بن جاتا ہے۔
بار بار ایک سوال پوچھا گیا ہے۔ وزیراعظم ہی کا احتساب کیوں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جس کا اختیار زیادہ اور منصب بلند ہو‘ اس کی ذمہ داری بھی زیادہ ہوتی ہے۔ سرکارؐ کا فرمان ہے: سیدالقوم خادمہم‘ قوم کا سردار ان کا خادم ہوتا ہے۔مغرب میں تو ایک کے بعد دوسرے حکمران کی باری آتی رہتی ہے۔نریندر مودی ‘حسینہ واجداور اشرف غنی تک بیرون ملک کاروبار کی جرأت نہیں کر سکتے۔
اصحابؓ سے آپؐ نے ارشاد کیا تھا: دس میں سے ایک بھی تم چھوڑ دو گے تو پکڑے جائو گے۔ بعد میں آنے والے دس میں سے ایک بھی اختیار کرلیں گے تو بچ نکلیں گے۔
امہات المومنین نے ظاہر ہے کہ کوئی ناروا مطالبہ نہ کیا تھا مگر آیات نازل ہوئیں کہ ایثار انہیں کرنا ہوگا‘ وگرنہ اللہ اپنے پیغمبرؐ کو دوسری شریک ہائے حیات بخش دے گا۔ نمونۂِ عمل ممتاز ترین کو بننا ہوتا ہے‘ چہ جائیکہ اس پر کذب بیانی‘ لوٹ مار اور قانون شکنی کا الزام ہو۔
وزیراعظم ہی نہیں‘ سبھی کا احتساب ہوگا۔ عمران خان عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ دنیا بھر میں پھیلی زرداری صاحب کی جائیداد کا سبھی کو علم ہے۔ انہیںبھی جواب دینا ہے اور خیال ہے کہ بہت جلد۔
صلاح الدین ایوبی قاہرہ کے باہر کھلے میدان میں پڑے تھے۔ کمانڈر بے تاب کہ شہر میں داخل ہوں۔ اصرار بڑھا تو انہوں نے کہا: فیصلہ فقط یہ نہیں کرنا کہ شہر فتح کیا جائے یا نہ کیا جائے۔ مجھے یہ طے کرنا ہے کہ مسلمانوں پر حکومت کے تقاضے پورے کر سکوں گا یا نہیں۔ ہیرالڈلیم نے لکھا ہے کہ اس شب تاریخ کے اساطیری کردار نے کچھ معمولات ہمیشہ کے لیے ترک کرڈالے۔
شریف خاندان کی بساط اُلٹنے والی ہے۔ عمران خان اس پر جشن کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بات سمجھ میں نہیں آئی۔ جشن کی نہیں‘ یہ سبق سیکھنے کی ساعت ہے۔ ع
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے