مولانا فضل الرحمن، اچکزئی اور سرحدی گاندھی خان غفار خان کی جماعت سمیت وفاقی وزرا کوئی وقفہ لئے بغیر سب یہی کہے جا رہے ہیں کہ'' پانامہ ایک بین الاقوامی سازش ہے سی پیک کو روکنے کیلئے پاناما کا ڈرامہ رچایا جا رہا ہے‘‘پاناما لیکس کی سماعت اور اس کی تحقیق و تفتیش کی نگرانی اس ملک کی سب سے قابل احترام سپریم کورٹ کر رہی ہے تو کیا مولانا سمیت وفاقی وزرا عوام کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ خدا نخواستہ سپریم کورٹ جیسا ملک کا سب سے مقدم اور قابل ا حترام ادارہ ملک کی ترقی اور سی پیک کے خلاف سازشوں میں ملوث ہے؟۔ آج سپریم کورٹ پرلازم ہوجاتا ہے کہ وہ جے آئی ٹی کے ارکان کی طرح جان ہتھیلی پر لے کرقوم کو سچ بتائیں اور قومی خزانے سے مراعات حاصل کرنے والے خواجہ سعد رفیق جیسے لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں لے کر آئیں جو توہین عدالت نہیں بلکہ سپریم کورٹ پر پانامہ سازش جیسے گھنائونے الزامات لگانا شروع ہو چکے ہیں سپریم کورٹ کی جانب سے ان کے بیانات کی ریکارڈنگ مانگنے پر مضحکہ خیز انداز میں میڈیا سے کہتے ہیں کہ ہمیں کوئی نوٹس نہیں ملا اور اگر ملا بھی ہے تو '' جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں وہ ہمارا حق ہے‘‘۔ اگر معزز سپریم کورٹ کو یاد رہ گیا ہو تو انہیں یاد کرائے دیتا ہوں کہ سابق وزیر قانون بابر اعوان نے بھی سعد رفیق جیسے ہی الفاظ ادا کرتے ہوئے کہا تھا '' نوٹس ملیا تے ککھ نہ ہلیا‘‘جس پر ان کا ایک سال تک وکالت کا لائسنس معطل کر دیا گیا تھا۔۔۔۔تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ وزیر اعظم کے نزدیک ترین یہ سات آٹھ لوگوں کے شتر بے مہار گروہ کا شمار مقدس گائے میں ہوتا ہے۔بات اگر صرف نوازشریف کے
استعفیٰ کی ہوتی تو بہت پہلے لیکن وہ جانتے ہیں کہ انہیں پورے خاندان سمیت اپنے کئے گئے معاملات کی وجہ سے مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا۔وزیراعظم جانتے ہیں کہ انہیں فیملی سمیت کم ازکم تیرہ مقدمات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس سے کم از کم 5 ممالک میں موجود ان کی کھربوں روپے کی جائدادیں ضبط ہوسکتی ہیں۔اس لئے ان سے استعفیٰ کی امید رکھنا اتنا آسان نہیں جس قدر سمجھا جا رہا ہے ؟۔ تمام تر اندونی اور بیرونی کوششوں کے با وجود ان کیلئے کوئی نیا این آر او ہوتا نظر نہیں آ رہا کیونکہ جے آئی ٹی کے حاصل کر دہ ثبوتوں نے ان کو ایک طرح سے جکڑ کر رکھ دیا ہے‘جس سے ان کے اندرونی اور بیرونی دوست کھل کر ان کی مدد کو آ گئے ہیں '' ٹائمز آف انڈیا نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ اگر نواز شریف کی حکومت ختم ہوئی تو پھر پاکستان کی فوج مضبوط ہو جائے گی جس سے بھارت اور کشمیر میں ہمیں پریشانی کا سامنا ہو گا۔جب بات یہاں تک چلی جائے کہ نوازشریف کے حکومت میں رہنے سے پاک فوج کمزور ہوجاتی ہے توپوری قوم سے سوال ہے کہ کیا آپ بھی بھارت کے مقابلے میں اپنی فوج کو کمزور دیکھنے کے خواہش مند ہیں؟۔ بھارت اور افغانستان کے بعد اتحادیوں پر نظر ڈالیں تو ہمیںمحمود خان اچکزئی نظر آرہے ہیں جنہوں نے اسلام آباد میں بیٹھ کر پشتونوں کیلئے افغانیہ کے نام سے میانوالی اور اٹک کو ساتھ ملاتے ہوئے ایک نئی آزاد ریا ست کا پیغام دے دیا اور وزیر اعظم کی جانب سے اس پر کسی قسم کی ناراضگی ظاہر کرنے کی بجائے اس کو گلے لگاتے ہوئے اور قریب کر لینا بہت سے شکوک و شبہات کو تقویت دے رہا ہے۔اچکزئی کے بعد میاں نواز
شریف کے اتحادیوں میں قاسم خان مسجد کے مولانا پوپلزئی کے سر پرست اعلیٰ ولی خان اور بلور خاندان ہے اور تیسری شخصیت مولانا فضل الرحمن کی ہے جو فوج سے اس لئے نا راض ہیں کہ فاٹا کی آزاد حیثیت ختم کرکے اسے کے پی کے میں کیوں شامل کیا جا رہا ہے ؟۔
اگر پاکستان نہیں تو کم از کم پشاور کے میڈیا اور با خبر عوام کو 2006-7 میں مسلم لیگ نواز کے اقبال ظفر جھگڑا کی پشاور والی رہائش گاہ کا وہ منظر ضرور یاد آ جائے گا جب ملک کی تمام اپوزیشن جماعتیں کوشش کر رہی تھیں کہ ایم ایم اے سرحد حکومت کی اسمبلی کو تحلیل کر نے کے علا وہ قومی اسمبلی کی نشستوں سے بھی استعفیٰ دے دے تاکہ جنرل مشرف کے صدارتی انتخاب کیلئے ایک طرف ایک صوبے کی نمائندگی ہی نہ ہو اور دوسرا ایم ایم اے کے چالیس سے زائد اراکین قومی اسمبلی کے ووٹ بھی نہ ہوں۔ موجو دہ گورنر کے پی کے اقبال ظفر جھگڑا کی پشاور والی رہائش گاہ پر صبح سے شام تک دو نشستوں میں جاری رہنے والے اپوزیشن جماعتوں کے اس اجلاس میں مولانا فضل الرحمن نے آج نواز شریف کی طرح اس وقت جنرل مشرف کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ایک صاحب نے ان کے بارے میں2006 میں کہا تھا کہ۔۔۔وہ اقتدار سے جانے والے کی مطلقہ، اقتدار پر بیٹھے ہوئے کی منکوحہ اور اقتدار میں آنے والے کی منگیتر ہیں۔!!
پندرہ جولائی کو کراچی میں ایک پریس کانفرنس میں مولانا فضل الرحمن نے اپنے سب سے پرانے محسن آصف علی زرداری کو بڑا چور کہہ کر پکارتے ہوئے عمران خان سے پوچھا ہے کہ وہ پی پی پی سے مل کر میاں نواز شریف کااستعفیٰٰ لینے سے پہلے بتائیں کہ '' آصف علی زرداری بڑا چور ہے یا نواز شریف؟۔۔۔۔جس پر دوبئی میں بیٹھے ہوئے آصف علی زرداری یقیناََ بول اٹھے ہوں گے '' بروٹس یو ٹو‘‘۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے سے پہلے اور اب تک اگر تمام چینلوںپر کی جانے والی گفتگو کو سامنے رکھیں تو میاں محمد نواز شریف کے استعفیٰ کے ایک نکتے پر اتفاق کے علا وہ پی پی پی اور پی ٹی آئی کے لوگ ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے کرتے نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں پی ٹی آئی اگر سابق صدر اور پی پی پی کے چیئر پرسن آصف علی زرادری کی کرپشن کی بات کرتی ہے تو وہ حق بجانب ہے۔تحریک انصاف نے مولانا کی طرح ان سے کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ حاصل کرتے ہوئے پانچ سال تک موج میلے نہیں کئے۔ اب بھی پی پی پی کے عہدیدار روزانہ تحریک انصاف میں شامل کئے جارہے ہیں لیکن مولانا آپ تو 1993-96 تک اور پھر2008-13 تک آصف علی زرداری کے کار خاص کے طور پر کام کرتے رہے۔۔۔اس وقت جب سارا ملک ان کی بد دیانتی اور کرپشن کے قصے سنا رہا تھا اس وقت آپ نے بڑھ کر آصف علی زرداری سے کیوں نہیں پوچھا '' سائیں یہ تو بتا دیں کہ '' آپ زیا دہ بڑے چور ہیںیا نواز شریف‘‘۔ مولانا اس وقت سے ڈریں جب کسی وقت آصف علی زرداری وطن کی محبت اور سلامتی کو تجارتی تعلقات پر مقدم سمجھتے ہوئے '' شکار پور‘‘ میں وقفے وقفے سے برپا ہونے والی ہر قیا مت کے تانے بانے کھول کر نہ رکھ دیں؟۔۔۔!!