تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     18-07-2017

برہان مظفروانی کی جدوجہد

سبزہلالی پرچم زندہ باد
15جولائی کو تمام اضلاع میں کرفیو نافذ کردیا گیا اور کئی دنوں تک موبائل فون نیٹ ورک بھی معطل کردیا گیا۔ یہ کرفیو31 اگست 2016ء تک یعنی پورا ڈیڑھ مہینہ رہا۔ نوے سے زیادہ لوگ مسلح بھارتی فورسز کے ہاتھوں شہید کردیے گئے جبکہ ۱۵ہزار سے زیادہ شہری زخمی ہوئے۔ اس تصادم کے دوران چارہزار سکیورٹی اہلکار بھی زخمی ہوئے جبکہ ان میں سے متعدد جہنم واصل بھی ہوئے۔ برہان مظفروانی اپنی زندگی میں جس طرح کشمیری آبادی کو سوشل میڈیا پر آزادی کے لیے آمادہ کرتا تھا، اس کے مقابلے میں اس کی شہادت کے بعد کشمیری آبادی میں پہلے سے کہیں زیادہ تحرک اور بیداری پیدا ہوئی۔ اس شہادت کے نتیجے میں پورے مقبوضہ کشمیر میں ہر جگہ پاکستانی پرچم لہرائے جارہے ہیں اور بھارتی ترنگا نفرت کی علامت بن گیا ہے، جسے ہر کشمیری پاؤں تلے روند رہا ہے۔ بھارت ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہا ہے،مگر افسوس کہ پاکستان جو اس مسئلے کا قانونی وآئینی فریق ہے اپنا فرض ٹھیک طرح سے ادا نہیں کرپارہا۔ 
حریت پسند دہشت گرد نہیں ہوتا
کشمیر کی سیاسی جماعت پیپلزڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر مظفرحسین بیگ نے وانی شہید کی شہادت کے بعد میڈیا کے سامنے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ برہان وانی اور اس کے ساتھیوں کو جس بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا ہے اس نے بھارت کے تمام طے شدہ معیار جھوٹے ثابت کردیے ہیں۔ کسی بستی پر مسلح حملہ کرنے کے لیے جو اصول وضوابط مقرر ہیں ان میں سے کسی کی پابندی نہیں کی گئی۔ مسٹربیگ نے مطالبہ کیا کہ حریت پسندوں کے اس قتل پر تحقیقات کے لیے ایک عدالتی کمیشن مقرر کیا جائے۔ اس کے جواب میں مقبوضہ کشمیر کے ہندو ڈپٹی چیف منسٹرنرمل سنگھ نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ ''دہشت گردوں‘‘ کے قتل پر کسی کمیشن کی ضرورت نہیں ہے۔ 
میاں نواز شریف کا خراج تحسین
مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے بھی اس موقع پر اپنی خاموشی توڑی اور کہا کہ بھارتی فوجوں نے برہان وانی کو قتل کرکے بہت بڑی حماقت کی ہے۔ زندہ برہان وانی انڈیا کے لیے جتنا خطرناک تھا، شہید ہونے کے بعد وہ اس سے کئی گنا زیادہ طاقتور ہوگیا ہے۔ اب کسی کے بس میں نہیں ہے کہ وہ کشمیری نوجوانوں کو مسلح جدوجہد سے روک سکے۔ کشمیری آبادی اس وقت خوش ہوگئی تھی جب ۱۵؍جولائی کو پاکستان کے وزیراعظم میاں نوازشریف صاحب نے سرکاری سطح پر برہان مظفروانی کی شہادت پر مذمتی بیان جاری فرمایا اور برہان وانی کو شہیدقرار دیا۔ اس کے جواب میں بھارتی وزارتِ خارجہ اور وزیراعظم نریندرمودی نے پاکستان کے خلاف زہرآلود بیان جاری کیے۔ مودی نے ذرائع ابلاغ پر بھی کڑی تنقید کی کہ وہ ایک ''دہشت گرد‘‘ کو ہیرو بنا کر پیش کررہے ہیں۔ 
حکومتی استقامت کی ضرورت
برہان مظفروانی کی شہادت کے اس موقع پر یواین او میں پاکستان کی سفیرملیحہ لودھی نے بھی اپنے سفارتی فرائض ادا کیے۔ یواین او کے اعلیٰ افسران سے ملاقات کرکے کشمیری حریت پسندوں کے نوجوان لیڈر برہان وانی کی شہادت پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ ۲۱؍ستمبر۲۰۱۶ء کو یواین او کی جنرل اسمبلی میں بھی میاں نواز شریف صاحب نے اپنے خطاب میں برہان مظفروانی شہید کو شہیدقرار دیا جس پر بھارتی نمایندوں نے احتجاج تو کیا، مگر بے سود۔ اگر پاکستان اسی طرح جرأت مندی کے ساتھ اپنا مبنی برحق موقف ہرپلیٹ فارم پر دلائل اور جرأت کے ساتھ پیش کرتا رہتا تو آج کشمیر غلامی کی زنجیروں سے نکل چکا ہوتا۔ المیہ یہ ہے کہ اوپر بیان کردہ مثبت اقدامات کے بعد پاکستانی حکمرانوں نے جو یوٹرن لیا اس نے ان اقدامات کو بے اثر اور بے وقعت کرکے رکھ دیا۔ پاکستانی حکومت کی پالیسیوں میں کبھی تسلسل اور استقامت نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ جائز موقف ہونے کے باوجود ہمارا کیس اپنی اہمیت کھو بیٹھا ہے۔ 
خطرات کا ادراک؟
بھارت اس واقعہ کے بعد سے مسلسل لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحد پر ہرروز بلااشتعال حملے کررہا ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستانی فوج بھارتی حملوں کا منہ توڑ جواب دے رہی ہے، لیکن کشمیر کی جنگ سفارتی، قانونی اور اخلاقی سطح پر جس طرح لڑی جانی چاہیے اس کی کوئی تیاری اور ارادہ نظر نہیں آتا۔ جس ملک کا نہ مستقل وزیردفاع ہو اور نہ وزیرخارجہ، جبکہ وہ ایسے حالات میں گھرا ہوا ہو جن سے پاکستان دوچار ہے تو اس کے حکمرانوں کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے۔ آج خطے کی صورت حال کس قدر خطرناک ہوچکی ہے، اس کا اندازہ ہمسایہ ممالک کے طرز عمل سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ افغانستان پر ہم نے ہمیشہ احسانات کیے، مگر آج یہاں کی حکومت بھارت کی بولی بول رہی ہے۔ ایران کے ساتھ ہم نے ہردور میں دوستانہ ہمسائیگی کا حق ادا کیا، مگر اس کی سرزمین کلبھوشن یادیو جیسے بدترین بھارتی تخریب کاروں کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ اس صورت حال پر حکمرانوں کو جس سنجیدگی کے ساتھ غور کرکے حالات بدلنے چاہییں تھے وہ سنجیدگی اور تحرّک کہیں نظر نہیں آتا۔ 
منزلِ ما دور نیست
برہان وانی شہید کے والدین اور پورا خاندان خراجِ تحسین کا مستحق ہے کہ اتنی بڑی قربانیاں دینے کے باوجود نہ کمزوری دکھائی ہے، نہ ذرّہ برابر مایوس ہوئے ہیں۔ ان کو شکایت ہے تو محض یہ کہ ان کے بیٹوں کی شہادت نے وادی کشمیر میں ہر جگہ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگوائے اور وادی کے چپے چپے پر پاکستان کا سبزہلالی پرچم لہرانے کا ایمان پرور ماحول پیدا کیا، مگر پاکستان نے اس سے کوئی سبق حاصل کرکے مسئلۂ کشمیر کو حل کرنے کے لیے پیش رفت نہیں کی۔ شہدا کا قافلہ رواں دواں رہے گا اور آزادی کی منزل ان شاء اللہ حریت پسند کشمیری قوم کے قدم چومے گی۔ برہان وانی کا تذکرہ کشمیر کے ہر گلی کوچے میں، ہر جھونپڑی اور محل میں، ہرمدرسے اور مسجد میں، ہرکالج اور یونی ورسٹی میں، ہربازار اور وکلا کی بار میں، ہر شخص کی زبان پر سنا جاتا ہے۔ اس شہید نے ہر دل میں ایک جوت جگادی ہے۔ برہان مظفر وانی شہید کے جانشین سبزاربھٹ نے ایک سال سے بھی کم عرصے کی مہلت پائی اور اپنے عظیم پیش رو کی جانشینی کا حق ادا کیا۔ سبزاربھٹ بھی اپنے دیگر ۱۱ ساتھیوں سمیت ۲۷؍مئی ۲۰۱۷ء کو بھارتی فوجیوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں شہادت کے مقام پر فائز ہوگیا۔ ان شہادتوں سے نہ حریت پسند کشمیریوںکا یہ قافلہ رکے گا، نہ حوصلے پست ہوں گے۔ 
اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو!
مکافاتِ عمل اللہ تعالیٰ کا اٹل قانون ہے۔ ہر شخص اور ہر قوت اپنے کیے کی جزا وسزا ضرور پائے گی۔ اس روزِ جزا سے قبل بھی قربانیاں یقینا رنگ لاتی ہیں۔ ان قربانیوں کی حقیقی قدروقیمت البتہ روزِمحشر ہی میں متعین ہوگی۔ جسے اللہ پر ایمان ہو اور آخرت کا یقین، اسے کبھی بددل اور مایوس نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ جانا چاہیے۔ کشمیری حریت پسند آج اسی جذبے سے سرشار ہیں۔ ایک برہان مظفر اور سبزار بھٹ دنیا سے اٹھ جاتا ہے تو اس کی جگہ ہزاروں جانفروش سرہتھیلی پہ لیے میدان عمل میں کود پڑتے ہیں۔ فیض احمد فیض نے اسی حقیقت کو اپنے اشعار میں بڑی خوب صورتی سے سمودیا تھا۔ 
دربارِ وطن میں جب اک دن سب جانے والے جائیں گے
کچھ اپنی سزا کو پہنچیں گے ، کچھ اپنی جزا لے جائیں گے
اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو ، وہ وقت قریب آپہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے ، جب تاج اچھالے جائیں گے
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں ، تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
کٹتے بھی چلو ، بڑھتے بھی چلو ، بازو بھی بہت ہیں ، سر بھی بہت
چلتے بھی چلو ، کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے
اے ظلم کے ماتو لب کھولو ، چپ رہنے والو چپ کب تک
کچھ حشر توان سے اٹھے گا ، کچھ دور تو نالے جائیں گے !
جنت میں استقبال
برہان وانی کی تصویر اور خوب صورت داڑھی سے مزین حسین وجمیل چہرہ دیکھ کر دل گواہی دیتا ہے کہ اس بے داغ جوانی کے حامل کشمیری نوجوان کا اللہ کے ہاں رحمت کے فرشتوں اور جنت کی حوروں نے استقبال کیا ہوگا۔
مرے ہم صفیر اسے بھی اثرِ بہار سمجھے!
انھیں کیا خبر کہ کیا ہے یہ نواے عاشقانہ!
مرے خاک و خوں سے تو نے یہ جہاں کیا ہے پیدا
صلۂ شہید کیا ہے؟ تب و تابِ جاودانہ!
برہان مظفروانی شہید کے والدین وورثا سے ہمارا کوئی رابطہ نہیں، مگر روحانی طور پر ہم ان کو اپنے بہت قریب سمجھتے ہیں۔ یہ تحریر اگر کسی طرح ان تک پہنچ پائے تو ہمارے لیے سعادت ہوگی۔ ہم ان کے انمول ہیرے کو واپس تو نہیں لاسکتے، مگر انھیں یہ مبارک باد دیتے ہیں کہ ان کے آنگن میں جنت کا پھول غنچے کی صورت میں چند بہاریں دکھلا کر ہمیشہ کے لیے گلستانِ بہشت میں بہارِ جاں فزا کا سماں پیدا کررہا ہے۔ اس سے بڑی اور کیا خوش نصیبی ہوگی کہ دوشہدا کے والدین اور خاندان جب روزِ محشر دربارِ عالیہ میں پہنچیں گے تو ان کے نونہال لختِ جگر بازو پھیلائے ان کا استقبال کررہے ہوں گے۔ 
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved