تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     19-07-2017

نااہلی

اٹھارہ برس ہوتے ہیں ، کراچی یونیورسٹی کے رہائشی حصے کے ایک سبزہ زار میں چند صحافی بیٹھے خوش گپیاں کررہے تھے۔ بات ملکی سیاست سے ہوتی ہوئی عالمی سیاست کی طرف مڑ گئی اور کسی نے پاکستان کے خلاف عالمی سازشوں کا ذکر کردیا۔ بس پھر کیا تھا بے شمار عالمی سازشوں کے تانے بانے ادھیڑ ڈالے گئے ، کوئی امتِ مسلمہ کی نااتفاقی کو سازشوں کا ایندھن قرار دے رہا تھا تو کوئی کراچی کے آئندہ بلدیاتی انتخابات سے دشمنوں کے ارادوں کا سراغ لگا رہا تھا۔ میں اپنی افتادِ طبع کے مطابق جنرل مشرف کے اقتدار پر تازہ قبضے کودنیا کے سلسلہء سازشیہ سے جوڑنے کے لیے دلائل کا طومار باندھے ہوئے تھا۔ اس مجلس کے میزبان عامر اشرف تھے ؛ منجھے ہوئے صحافی اور اپنے پسندیدہ صحافیوں کی میزبانی کے رسیا۔ بولتے کم اور سنتے زیادہ تھے، ان کا قول تھا ، ''صحافی نہیں بولتے ، خبر بولتی ہیــ‘‘۔ خیر ، اس دن جب ہم عالمی سازشوں پر بات کرتے ہوئے ہانپنے لگے تھے تو عامر اشرف نے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی اٹھائی اور کہا ، بھائیو پاکستان میں صرف ایک ہی سازش ہے جو مسلسل جاری ہے۔ ہم سب متوجہ ہوئے تو کہا ''نا اہلی کی سازش‘‘۔ ان کی چند لفظی بات ختم ہوئی مجلس پر ایک گمبھیر خاموشی چھا گئی۔ ہم سب صحافیوں نے اپنے گریبان سے لے کر اسلام آباد کے ایوان ہائے اقتدار تک چند لمحوں میں چھان لیے ۔ عامر اشرف کی بات سولہ آنے ٹھیک تھی۔ ہم دنیا بھر میں سازشیں تلاش کررہے تھے اور عامر اشرف نے ہمیں بتا دیا تھا کہ سازش کہیں باہر نہیں اندر ہے، سازشی کوئی اور نہیں ہم خود ہیں۔ وہ دن اور آج کا دن بیرونی ہاتھ، اغیار کی سازش، غیر ملکی سازش، امریکی سازش، برطانوی سازش حتیٰ کہ یہودی سازش جیسے الفاظ بے معنی لگتے ہیں۔
اٹھارہ برس پہلے کی بات یاد آنے کی وجہ وہ پیغام ہے جو مجھے ابھی سرگودھا سے موبائل فون پر موصول ہوا ہے۔ پیغام بھیجنے والے نے بتایا کہ سرگودھا یونیورسٹی کے وائس چانسلرنے ڈاکٹر طارق کلیم کو یونیورسٹی میں داخلے سے روک دیا ہے۔ میرے لیے یہ ناقابل یقین بات تھی۔ طارق کلیم کو یونیورسٹی میں داخلے سے روکنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی نادان ہدایت جاری کردے کہ پوپ کو ویٹیکن میں نہ جانے دیا جائے۔ طارق کلیم کہنے کو ایک شخص ہے ، حقیقت میں خود سرگودھا ہے ، اس کو یونیورسٹی میں داخلے سے روک دینا اس شہر کو روکنے کے مترادف ہے جس کے سینے پر اس یونیورسٹی کے درو دیوار قائم ہیں۔ میں طارق کو پچیس برس سے جانتا ہوں۔ اس وقت سے جب وہ ڈاکٹر بھی نہیں تھے بلکہ محض طارق کلیم تھے اور ایک ہائی سکول میں سائنس ٹیچر تھے۔ اس زمانے میں جب زندگی کی جولان گاہ میں دوڑنے اور آگے نکل جانے پر انسان سب کچھ کرگزرنے کے لیے تیار ہوتا ہے، تب بھی طارق کلیم نے خود کواستاد کے علاوہ کچھ نہ دیکھا۔ اپنی اسی صلاحیت کو انہوں نے مسلسل بڑھایا ، ایم فل کیا ، ڈاکٹریٹ کیا ، تعلیم وتعلم کے جدید ترین تقاضوں سے آشنائی پیدا کی، سکول چھوڑ کر کالج میں درس دینے لگے پھر یونیورسٹی کے طلبہ ان سے مستفید ہونے لگے۔ ہم جیسے دوستوں نے درجنوں بار لاہور، اسلام آباد یا کراچی کے کسی تعلیمی ادارے میں ان کے لیے پرکشش مواقع پیدا کیے مگر انہوں نے ہر بار صرف یہ کہا کہ سرگودھا کے بچے بھی میرے ہی بچے ہیں، اگر میں کسی قابل ہوں تو پھرمجھ پر سب سے زیادہ حق انہیں بچوں کا ہے۔ ایک بار بیرونِ ملک تقرری کا بہت ہی نشاط انگیزامکان پیدا ہوا۔ طارق کلیم صاحب نے پھر سرگودھا کے بچوں کے نام پر اسے ٹھکرا دیا۔ تعلیم کے علاوہ کسی چیز کی انہوں نے پروا کی تو وہ اردو ادب تھا۔ ان کی صحبت میں بیٹھ کر وصی شاہ ، وصی شاہ بنا۔ انہی کی ادارت میں قاسم شاہ جیسے باکمال نے اپنی شاعری کا انتخاب چھاپنا پسند کیا۔ انہی سے ملکر جواد حسن جواد کو یہ اعتماد ملا کہ وہ پاکستان کے بڑے مزاحیہ شاعروں جتنی صلاحیت ہی رکھتا ہے اور آج اردومزاحیہ شاعری کا ذکر اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ دور کیوں جائیے مجھے انہوں نے اس وقت صحافت میں آنے کا مشورہ دیا جب میں پوری سنجیدگی سے اپنے خاندانی کاروبار کا حصہ بننے کا سوچ رہا تھا۔ اس نے پہلی بار مجھے واقعات کا تناظر سمجھایا اور ہاتھ میں قلم پکڑا کر لکھنے کی طرف مائل کیا۔ میں نے طارق کلیم کو ایک ایسے نوجوان کی دل و جان سے سرپرستی کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے جو بالکل ان پڑھ تھا مگر اس کے پاس بغیر بجلی کے مقناطیسی قوت سے مسلسل حرکت پیدا کرنے کا کوئی نظریہ تھا، جس کا وہ بے چارا اظہار بھی نہیں کرپاتا تھا۔ طارق کلیم اسے لیے لیے فزکس کے اساتذہ کے پاس پھرے تاکہ اس کی بات کو سائنسی انداز میں سمجھا اور سمجھایا جاسکے۔ کوئی شخص آدمی کو انسان بنانے میں اتنی دلچسپی لینے کا دعوٰی کر سکتا ہے؟ 
ایسے شخص کو یونیورسٹی میں داخلے سے کیونکر روکا جاسکتا ہے؟ ایک صحافی فطری طور پر تجسس کا مارا ہوا ہوتا ہے سو میں نے اپنے تجسس کی تسکین کے لیے ادھر ادھر فون گھمانا شروع کیے تو معلوم ہوا ہے کہ اس قصے میں بھی نااہلی کی وہی سازش کارفرما ہے جس کا سراغ اٹھارہ برس پہلے عامر اشرف نے دیا تھا۔ معاملہ کچھ اس طرح ہے کہ چند ہفتے پہلے سرگودھا کی تحصیل کوٹ مومن کی عفت نامی اسسٹنٹ کمشنر نے اپنی قوت و جبروت کے اظہار کے لیے مقامی سرکاری کالج کو منتخب کیا۔ اپنے چند ایک سرکاری قسم کے حواریوں کے ساتھ ان کے دھاوے کی ابتدا پرنسپل کے دفتر سے ہوئی جہاں جا کر وہ اس کی کرسی پر بیٹھ گئیں اور سینئر اساتذہ کو اپنے سامنے حاضر ہونے کا حکم دیا۔ جب اساتذہ ہاتھ باندھ کر اس تازہ وارد ڈی ایم جی افسر کی شان بڑھانے کے لیے حاضر ہوئے تو اس خاتون کی زبان درازیوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ آخر ایک استاد نے کہا کہ ایک تو آپ کے بیان کردہ حقائق درست نہیں اور دوسرے یہ کہ آپ نے پرنسپل کی کرسی پر بیٹھ کر اچھا نہیں کیا۔ اسسٹنٹ کمشنر خاتون نے ایک استاد کی اس بات کو ریاست کے خلاف بغاوت سمجھا اور متعلقہ استاد کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ طارق کلیم کا قصور یہ تھا کہ وہ اساتذہ کی عزت کے لیے متاثرہ استاد کی رہائی کے سرگرم ہوگئے اور اسے رہاکرا کر دم لیا۔ استاد تو رہا ہوگیا مگرغلامانہ روایات کی امین بیوروکریسی کی کینہ پروری حرکت میں آگئی۔ ضلعے میں بیٹھے چھوٹے چھوٹے ڈی ایم جی اس اسسٹنٹ کمشنر کی مدد کو آگئے اور انہوں نے مل ملا کر وائس چانسلر کو راضی کیا کہ وہ طارق کلیم کو یونیورسٹی سے نکال دے ۔ اس شیخ الجامعہ کا حال بھی دیکھیں کہ اس نے چند علم کی قدر سے ناآشنا قسم کے بیوروکریٹس کے حکم پر ایک استاد کے بارے میں آگے بڑھ کر حکم جاری کر دیا کہ یونیورسٹی کی حدود میں اس کا داخلہ بند کردیا جائے۔ میں نے اس وائس چانسلرکے بارے میں معلوم کرنا چاہا تو پتا چلا کہ پاکستان بھر میں سوائے گوگل (google) کے اسے کوئی نہیں جانتا ۔ گوگل نے بتایا کہ اس نے اپنے نام سے ایک ویب سائٹ بنا رکھی ہے جس پر اس نے اپنے وہ کارنامے گنوا رکھے ہیں جن سے کوئی دوسرا شخص واقف نہیں۔ 
میں طارق کلیم کے لیے کچھ نہیں کرسکتا کیونکہ میں اس نظامِ ریاست کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ اس میں ایک نااہل دوسرے نااہل کی حمایت کرتا ہے ۔ ان لوگوں کا وتیرہ ہے کہ اگر یہ کسی ادارے کے سربراہ بن جائیں تو قابلیت رکھنے والا ہر شخص اس ادارے سے نکل جائے۔ یہ لوگ ہر باصلاحیت کے خلاف ہیں۔ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ اس کے سرکاری اداروں میں صرف نااہلی وہ معیار ہے جس کے ذریعے آپ ترقی کرسکتے ہیں۔ اہلیت اور صلاحیت آپ کی دشمن ہیں۔ سو طارق کلیم کو چاہیے وہ بے صلاحیت، خوشامدی اور بے شرم شخص نہیں ہو سکتے تو کم ازکم اس طرح کا سوانگ بھر لیں۔ ورنہ آپ کے درپے لوگ آپ کو زندہ نہیں رہنے دیں گے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved