بعض لوگ اقتدار کے لیے کُچھ بھی کرنے کو تیار ہیں : نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''بعض لوگ اقتدار کیلئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں‘‘ کیونکہ اقتدار چیز ہی ایسی ہے کہ اس کے لیے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے جیسا کہ خاکسار نے اس کے لئے کیا کچھ نہیں کیا جبکہ اقتدار میں داخل ہونا ہی مشکل ہوتا ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ کسی ملٹری ڈکٹیٹر کو کوئی بڑا لالچ دے کر اس کی اچھی کتابوں میں آیا جائے اور اس کے بعد اقتدار حاصل کر کے اتنا پیسہ کمایا جائے کہ پھر اس پیسے سے اقتدار کو خریدا بھی جا سکے جبکہ خریدوفروخت سے ہی سرمایہ گردش میں رہتا اور ملکی معیشت پر اچھا اثر پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کہ ''سازشیں کرنے والے ناکام ہونگے‘‘ حالانکہ سازشیں کرنے والے جب چاہیں ہماری چھٹی کرا سکتے تھے‘ انہیں سازش کا تکلف کرنے کی کیا ضرورت تھی جبکہ یہ آپشن اب بھی ان کے پاس موجود ہے‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
سی پیک کامیاب بنانے کیلئے حکومت
کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا : فضل الرحمن
جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''سی پیک کامیاب بنانے کے لئے حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا‘‘ اگرچہ سی پیک کے کامیاب ہونے سے خاکسار کا دور دور تک کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے‘ تاہم کوئی معقول بہانہ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے کہہ دیا ہے ورنہ کون نہیں جانتا کہ وزیراعظم اگر میری ضروریات کا خیال رکھتے تھے تو میں کم از کم بیان تو ان کے حق میں دے ہی دوں کیونکہ جب تک وہ اقتدار سے فارغ نہیں ہوتے‘ وضع داری کا تقاضا بھی ہے کہ اُن کا ساتھ دیا جائے البتہ بعد میں صورتِ حال دیکھ کر کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''پاک ماحول میں تعلیم و تربیت آج کے دور کی سب سے بڑی ضرورت ہے‘‘ جبکہ خاکسار نے اپنی کوششوں اور وزیراعظم کے ساتھ ملاقاتوں کی وجہ سے ماحول کو خاصی حد تک پاک بنا رکھا ہے اور زیادہ پاک بنانا مطلوب ہو تو ملاقاتوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
جے آئی ٹی کے خفیہ والیم 10 میں سے
بھی کچھ نہیں نکلے گا : عاصمہ جہانگیر
ماہر قانون عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی کی ''خفیہ والیم 10 میں سے بھی کچھ نہیں نکلے گا‘‘ اور اس طرح حامد خاں اور ان کی پارٹی کو مُنہ کی کھانی پڑے گی اور انہیں بار کے الیکشن میں میرے دھڑے کی مخالفت کرنے اور شکست دینے کا مزہ مل جائے گا‘ ہور چُوپو! انہوں نے کہا کہ ''یہ پورا کیس ہی عجیب و غریب ہے‘‘ کیونکہ ملک کے منتخب وزیراعظم کی تفتیش کی جا رہی ہے‘ بیشک وہ جس طرح بھی منتخب ہوئے ہوں اور وزیراعظم کے منتخب ہونے کے بعد تو اتنا پیسہ جمع ہو ہی جاتا ہے کہ اُسے کسی نہ کسی طرح ملک سے باہر بھی بھیجا جائے کیونکہ ملکی معیشت کو اتنے پیسے سے بدہضمی بھی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''خواہ مخواہ کا ہیجان پیدا کیا گیا ہے‘‘ حالانکہ یہ وزیراعظم کی دولت دیکھ کر حسد کیا جا رہا ہے جبکہ حسد کرنے والے اپنے لئے بھی اللہ میاں سے چھپر پھاڑنے کی درخواست کر سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
مشرف‘ عمران خاں‘ شیخ رشید جلد ماضی بن جائیں گے : عابد شیر علی
وزیر مملکت پانی و بجلی اور وزیراعظم کے بھانجے عابد شیر علی نے کہا ہے کہ ''مشرف‘ عمران خان اور شیخ رشید جلد ماضی بن جائیں گے‘‘ جبکہ وزیراعظم مستقبل میں بھی یاد رکھے جائیں گے کہ کس طرح انہوں نے مختلف مقامات پر ایک ہی بیان کو کس کس طرح بدل بدل کر پیش کیا اور منی ٹریل پیش نہ کر کے کس طرح ڈٹے رہے اور شہید عدالت کہلائے اور ہمیشہ کے لئے اپنا نام روشن کر گئے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
فیصلہ خلاف آیا تو عملدرآمد کرینگے ‘ تسلیم نہیں : رانا ثناء
وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''فیصلہ خلاف آیا تو عملدرآمد کریں گے‘ تسلیم نہیں‘‘ اور اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب اسے تسلیم ہی نہیں کریں گے تو اس پر عملدرآمد کیا ہو گا‘ چنانچہ اگر عدالت چاہتی ہے کہ فیصلے کو تسلیم بھی کیا جائے تو اُسے فیصلہ بھی ویسا ہی دینا چاہیے ورنہ جہاں تک عملدرآمد کا تعلق ہے تو ہمارے کارکن ہی اسے سرانجام دیں گے جبکہ کیپٹن (ر) صفدر نے تو پہلے ہی جہاد کی کال دے رکھی ہے‘ اور مجاہدین کا قافلہ پوری طرح تیار ہے‘ یہ رہا گھوڑا اور یہ رہا اس کا میدان‘ بلکہ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''عدالت جے آئی ٹی کو گٹر میں پھینک دے‘‘ اور اگر وہ خود ایسا نہیں کر سکتی تو ہمیں خدمت کا موقعہ دے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور اب اقتدار جاوید کی یہ خوبصورت نظم :
زردشت کی نسل
بھٹیا رنوں کا اُبھرتا ہے بھٹی سے دن ؍ اور وہیں گرم بھٹی کے پاتال میں ڈوب جاتا ہے ؍ بھٹیا رنوں کا اُفق ؍ گرم بھٹی کے چوگرد خیمہ فگن ہے ؍ مچلتی ہے جب آگ ؍بھٹیا رنوں کی محبت بھری آرزوئیں دہکتی ہیں ؍ جب لکڑیاں جلتی ہیں ؍ اونچ ؍ مٹی کے تختوں پہ بیٹھی ہوئی ؍ لکڑیوں کی معیت میں جلتی ہیں ؍ ہُرمز کی کیسی تمنائیں اُن کو ستاتی ہیں ؍ آتش بڑھاتی ہیں ؍ لیکن زمانہ نہیں جانتا ہے ؍ کہ اُٹھتے ہیں بھٹی سے جو تیز شعلے ؍ وہ دل ٹھارتے ہیں ؍ وہ ؍ اُن کے شب و روز رنگین کرتے ہیں ؍ اور دل کے نادیدہ کُنجوں تلک ؍ اپنے رستے بناتے ہیں ؍ رستوں پہ پھلدار پودے لگاتے ہیں ؍ بھٹیا رنیں جن پہ چلتی ہیں ؍ سی مرغ کے بھید کو جاننے والیاں ؍ راکھ سے پیدا ہو کر؍ دہکتے ہوئے کوئلوں پر ؍ جوانی کے دن کاٹتی ہیں ؍ اُلٹتی ہیں روشن ستاروں بھرا چھاج ؍ بھٹیا رنوں نے طلا کار چھلی کے دانوں کو ؍ گن گن کے ؍ اپنی دُعائوں کا مرکز بنایا ہوا ہے ؍ زمانوں سے زرتشت کی نسل کا؍ کیسے آتشکدہ جگمگایا ہوا ہے۔
آج کا مطلع
شور ہے زیر زمیں‘ چشمہ اُبلتا کیوں نہیں
بول اے خاکِ وطن! پانی نکلتا کیوں نہیں