اعمال بظاہر کتنے ہی خوش نما نظر کیوں نہ آئیں وہ اس وقت تک بارگاہ الٰہی میں مقبول نہیں ہو سکتے جب تک ان میں دو شرائط موجود نہ ہوں۔ اعمال کی قبولیت کی پہلی شرط یہ ہے کہ اعمال کو خالصتاً اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کے لیے کیا جائے۔ جب عمل کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضاکے لیے کرنے کی بجائے لوگوں کو دکھانے کے لیے کیا جائے تو اعمال خواہ کتنے ہی اعلیٰ کیوں نہ ہوں انسان کی فلاح و بہبود کی بجائے اخروی ناکامی پر منتج ہو جاتے ہیں۔ دکھلاوے کے نقصانات کے حوالے سے کتب احادیث میں نبی کریمﷺ کے بہت سے ارشادات منقول ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں شرک والوں کے شرک سے بے پرواہ ہوںجو آدمی میرے لیے کوئی ایسا کام کرے کہ جس میں میرے علاوہ میرا کوئی شریک ہو تو میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں۔ ‘‘سنن ابن ماجہ میں ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہﷺنے فرمایا : ''کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس کا خوف مجھے تم پر مسیح دجال سے بھی زیادہ ہے؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا : کیوں نہیں؟ (ضرور بتلائے) آپﷺنے فرمایا : وہ ہے ''شرک خفی‘‘ کہ کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہو اور وہ اپنی نماز کو محض اس لیے سنوار کر پڑھے کہ کوئی شخص اسے دیکھ رہا ہے۔‘‘ مسند احمد میں محمود بن لبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺنے فرمایا'' میں تمہاری بابت سب سے زیادہ جس چیز سے ڈرتا ہوں وہ چھوٹا شرک ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺچھوٹا شرک کیا ہے؟ اللہ کے رسولﷺنے فرمایا: ''ریاکاری، قیامت کے دن جب لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا تو ان ریاکاروں سے اللہ تعالیٰ کہے گا : ان لوگوں کے پاس جاؤ جن کو دکھانے کے لیے تم دنیا میں اعمال کرتے تھے۔ اور دیکھو کیا تم ان کے پاس کوئی صلہ پاتے ہو۔ ‘‘اسی صحیح مسلم اور سنن نسائی کی ایک حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ۔ حضورﷺنے فرمایا: ''قیامت کے دن تین بندے رب کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے ان میں سے پہلا شخص ایسا ہو گا جو کہ شہید ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ اس کو دنیا میں دی جانے والی نعمتیں گنوائے گا ۔ شہید نعمتوں کا اقرار کرے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا تو نے ان سب نعمتوں کے مقابل دنیا میں میرے لیے کیا ؟ تو وہ عرض کرے گا میں نے تیری راہ میں اپنی جان قربان کر دی۔ رب فرمائے گا تو جھوٹا ہے تو نے جان اس لیے قربان کی کہ لوگ تجھے بہادر اور شہید کہیں۔ تو شہید کہلا چکا۔ فرشتو! لے جاؤ اس کو اور ڈال دو جہنم میں۔ فرشتے اس کو گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے اور اسے جہنم میں ڈال دیں گے۔ پھر دوسرا شخص رب تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہو گا جو عالم وقاری ہو گا۔ رب اس کو بھی دنیا میں دی گئی نعمتیں گنوائے گا ۔ وہ ان نعمتوں کا اقرار کرے گا پھر اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ تو نے ان نعمتوں کے مقابل دنیا میں میرے لیے کیا کیا؟ وہ عرض کرے گا میں نے علم سیکھا اور سکھایا‘ قرآن پاک پڑھا اور پڑھایا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے علم سیکھا اور سکھایا کہ عالم کہلایا جائے۔قرآن پاک اس لیے پڑھا اور پڑھایا کہ قاری کہلایا جائے۔ تو دنیا میں تو کہلا چکا۔ فرشتو ! لے جاؤ اس کو اور ڈال دو جہنم میں۔ فرشتے اس کو گھسیٹتے ہوئے لے جائیںگے اور جہنم میں ڈال دیں گے۔ پھر ایک سخی رب تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہو گا ۔ اللہ تعالیٰ اس کو بھی دنیا میں دی جانے والی نعتیں یاد دلوائے گا وہ نعمتوں کا اقرار کرے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو نے ان نعمتوں کے مقابل دنیا میں میرے لیے کیا کیا ؟ وہ عرض کرے گا اے رب! میری ساری دولت تیری مخلوق میں لٹا دی۔ رب تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے۔ تو نے دولت اس لیے خرچ کی کہ لوگ تجھ کو سخی کہیں۔ تو دنیا میں سخی کہلا چکا۔ فرشتو! لے جاؤ اس سخی کو اور جہنم میں ڈال دو۔ فرشتے اس کو گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے اور جہنم میں ڈال دیں گے۔ (مسلم ونسائی)
اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا :''کچھ گھوڑے ایسے ہیں جو آدمی کے لیے اجروثواب کا باعث ہیںاور بعض گھوڑے ایسے ہیں جو آدمی کے لیے ستروحجاب کا ذریعہ ہیںـ اور بعض گھوڑے وہ ہیں جو آدمی پر بوجھ ہوتے ہیں۔ اب رہا وہ آدمی جس کے لیے گھوڑے اجروثواب کا باعث ہوتے ہیں وہ ایسا آدمی ہے جس نے گھوڑوں کو اللہ کی راہ میں کام آنے کے لیے باندھ کر پالا اور باغ وچراگاہ میں چرنے کے لیے ان کی رسی لمبی کی۔ تو اس رسی کی درازی کے سبب چراگاہ اور باغ میں جتنی دور بھی چریں گے (اسی اعتبار سے ) نیکیاں لکھی جائیں گی اور اگر وہ اپنی رسی توڑ کر آگے پیچھے دوڑنے لگیں اور (بقدر) ایک دو منزل بلندیوں پر چڑھ جائیں تو بھی ان کے ہر قدم اور(حارث کی روایت کے مطابق) حتیٰ کہ ان کی لید ( گوبر)پر بھی اسے اجروثواب ملے گا۔ اور اگر وہ کسی نہر پر پہنچ جائیں اور اس نہر سے وہ پانی پی لیں اور مالک کا انہیں پانی پلانے کا پہلے سے کوئی ارادہ بھی نہ رہا ہو تو بھی یہ اس کی نیکیوں میں شمار ہوں گی اور اسے اس کا بھی اجر ملے گا۔ اور (اب رہا دوسرا) وہ شخص جو گھوڑے پالے نعمت کے شکر اور دوسرے لوگوں سے مانگنے کی محتاجی سے بے نیازی کے اظہار کے لیے اور اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرے ان کی گردنوں اور پٹھوں کے ذریعے (یعنی ان کی زکوٰۃ دے اورجب اللہ کی راہ میں ان پر سواری کی ضرورت پیش آئے تو انہیں سواری کے لیے پیش کرے )تو ایسے شخص کے لیے یہ گھوڑے اس کے لیے (جہنم کے عذاب اور مار سے بچنے کے لیے ) ڈھال بن جائیں گے۔ اور (اب رہا تیسرا) وہ شخص جو فخر، ریا ونمود اور اہل اسلام سے دشمنی کی خاطر گھوڑے باندھے تو یہ گھوڑے اس کے لیے بوجھ (عذاب ومصیبت )ہیں۔
ریاکاری کے حوالے سے قرآن مجید کا پیغام بھی بالکل واضح ہے۔قرآن مجید میں ریاکاری کی انتہائی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے چنانچہ سورہ بقرہ آیت نمبر 264 میں ارشاد ہوا : ''اے ایمان والو! اپنے صدقات کو احسان جتلا کر اور دکھ دے کر اس شخص کی طرح خاک میں نہ ملا دو جو اپنا مال محض دکھاوے کے لیے خرچ کرتا ہے ۔ نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور نہ ہی آخرت پر۔‘‘ اسی طرح قرآن مجید کی سورہ زمر کی آیت نمبر2 اور 3 میں ارشاد ہوا:''(یہ) کتاب حق کے ساتھ عبادت کیجئے اللہ کی خالص کرتے ہوئے اس کے لیے بندگی کو ۔خبر اللہ کے لیے ہے خالص عبادت۔‘‘ اسی طرح سورہ نساء کی آیت نمبر37 اور 38 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں''بے شک اللہ تعالیٰ نہیں پسند کرتا جو مغرور اورفخر کرنے والا ہو ۔وہ لوگ جو بخل کرتے ہیں اور چھپاتے ہیں (اسے) جو دیا ان کو اللہ نے اپنے فضل سے اور ہم نے تیار کیا ہے کافروں کے لیے رسوا کن عذاب۔اور وہ لوگ جو خرچ کرتے ہیں اپنے مال لوگوں کو دکھانے کو اور نہیں ایمان لاتے اللہ پر نہ آخرت کے دن پر۔ ‘‘
اسی طرح اعمال کی قبولیت کی دوسری اہم شرط یہ ہے کہ وہ نبی کریمﷺ کے طریقے کے مطابق ہو ۔ سورہ احزاب کی آیت نمبر 21میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''پس تحقیق تمہارے لیے رسول اللہﷺمیں بہترین نمونہ ہے۔‘‘اسی طرح سورہ نساء کی آیت نمبر80 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''جو اطاعت کرتا ہے رسول اللہﷺکی درحقیقت اس نے اطاعت کی اللہ کی ۔ ‘‘ نبی کریم ﷺ نے زندگی گزارنے کا احسن اور مکمل طریقہ اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بتلا دیا ہے اور آپ ﷺ کے ارشادات، عبادات اور معمولات زندگی کو صحابہ کرام نے ہمیشہ کے لیے امت تک منتقل فرما دیا اور محدثین نے ان تمام روایات اور فرمودات بطریق احسن محفوظ فرمالیا۔ چنانچہ اگر کوئی بھی شخص کسی بھی عمل کے حوالے سے رہنمائی حاصل کرنا چاہتا ہو تو وہ کتب احادیث سے نبی کریم ﷺ کے اسوہ کے بارے میں معرفت حاصل کرسکتا ہے۔ خلوص نیت کے بعد کسی بھی شخص کا عمل آپﷺ کے عمل سے مطابقت رکھے گا تو قبول ہو گا۔ اس کے برعکس جوشخص نبی کریمﷺ کے اعمال کی پیروی نہیں کرے گا اس کا عمل اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ ہمارے عقائد،نمازیں، روزے، زکوٰۃ ، حج ، معیشت ، معاشرت ، سیاسیات اور دیگر معمولات نبی کریمﷺ کے اسوہ کے مطابق ہونے چاہئیں۔ اگر ہمارے اعمال میں اخلاص ہو گا اور ان کی بجا آوری کا اندازنبی کریمﷺ کے طریقے کے مطابق ہو گا تو ان شاء اللہ‘ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے اعمال کو قبولیت سے ضرور ہمکنار کرے گا۔ اس لیے کہ اس نے خود سورہ آل عمران کی آیت نمبر 195 میں ارشاد فرمایا کہ ''بے شک میں نہیں ضائع کروں گا کسی عمل کرنے والے کے عمل کو۔‘‘ آخر میں دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں ایسے اعمال بجا لانے کی توفیق دے جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہو جائیں اور ایسے اعمال سے بچائے جو مسترد کر دیے جائیں۔ آمین !