تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     19-07-2017

کائنات ، زندگی اور انسان

کائنات ، زندگی اور انسان کے بارے میں کچھ دلچسپ حقائق پیشِ خدمت ہیں ۔ مذہب اور سائنس کو پڑھتے ہوئے ذہن میں پیدا ہونے والے کچھ سوالات بھی ۔ 
آج سے 60کروڑ سال پہلے کرّہ ء ارض کے سمندر جاندارانواع سے بھرچکے تھے لیکن ان سادہ اور نرم جسم کی مخلوقات کو آج کے تقریباً تمام جانوروں کے آبائو اجداد کی حیثیت سے شناخت کرنا بہت مشکل تھا۔ فاسلز کا مشاہدہ بتاتا ہے پھر کوئی واقعہ پیش آیا۔ دسیوں ملین سال تک ارتقا ایک دھماکے کی طرح جاندار انواع میں تیز رفتاری تبدیلی کی صورت میں سامنے آیا۔ اس میں کثیر خلوی جانداروں کا پھیلنا اور ڈھانچے اور شیل والے پہلے جانداروں کاوجود میں آنا بھی شامل ہے ۔ اس واقعے کو کیمبرین دھماکہ (cambrian explosion) کہتے ہیں۔ اس کے نتائج فاسلز کے ریکارڈ میں پوری طرح محفوظ ہیں ۔ کچھ وجوہات سامنے آئی ہیں لیکن مکمل طور پر نہیں ۔یہ بھی معلوم نہیں کہ دوبارہ ایسا کیوں نہ ہوا۔ 
54کروڑ سال پہلے ہونے والا یہ کیمبرین دھماکہ تھا کیا؟ اس دوران پر fossil recordمیں انتہائی تیزی سے نئے جانداروں کا اضافہ ہوتاہے ۔ جانداروں کی نئی انواع بہت تیزی سے پیدا ہوئیں ۔اسے کرّہ ء ارض کی تاریخ میں انتہائی اہم واقعات میں سے ایک کہا جاتاہے ۔ آج جو بھی جاندار کرّہ ء ارض پہ نظر آتے ہیں ، وہ اسی دور میں منظرِ عام پر آئے۔ کیمبرین دھماکہ (Cambrian Explosion) کو ڈارون مخمصہ Darwin dilemma بھی کہا جاتاہے ۔ کیونکہ چارلس ڈارون کے نظریے gradual evolution by natural selectionسے یہ متصادم دکھائی دیتا تھا ۔کرّہ ء ارض پہ زندگی کے آغاز کے بعد cambrian explosionکو اس کی تاریخ کا سب سے اہم واقعہ کہا جاتاہے ۔ اسے ارتقا کا بگ بینگ (evolution's big bang)بھی کہا جاتاہے ۔ cambrian explosion میں ارتقا کی شرح آج کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ تھی ۔ ڈارون نے اس کے بارے میں سوچا تھا کہ انسان کے پاس موجود فاسل ریکارڈ نا مکمل ہونے کی وجہ سے یہ صورتِ حال سامنے آرہی ہے ۔ 
54کروڑ سال پہلے رونما ہونے والے اس واقعے کے بعد اگلا اہم ترین واقعہ ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے ایک دمدار ستارے کا زمین سے ٹکرانا تھا۔ زیادہ تر سائنسدانوں کے خیال میں ڈائنا سار اسی کے نتیجے میںہونے والی تباہی، عالمگیر آتش فشانی اور بڑے پیمانے پر سونامی کی وجہ سے ختم ہوئے ۔ ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے جب ڈائنا سار ختم ہوئے تو پھر جلد ہی زمین میملز سے بھر گئی ۔ میملز میں سب مادائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں ۔یہ دودھ ان کے میمری غدود (Mammary Glands)سے پیدا ہوتاہے ۔ میملز میں کرّ ہ ء ارض کی تاریخ کا سب سے بڑا جاندار وہیل شامل ہے۔ میملز میں سے کچھ سمندر ، ہوا اور درختوں میں بھی زندگی گزارنے کے قابل ہیں ۔ان میں دو ٹانگوں والے جاندار بھی شامل ہیں ۔ میملز میں ڈیڑھ انچ حجم والے جانداروں سے لے کر 98فٹ تک کی نیلی وہیلز شامل ہیں ۔ میملز میں صرف پانچ سپیشیز انڈے دیتی ہیں ۔ باقی سب مادائیں بچے جنتی ہیں ۔ 
1974ء میں برٹش ماہرِ فلکیات سر مارٹن ریس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ کچھ کہکشائوں کے مرکز میں کئی ملین حتیٰ کہ بلین سورجوں کے برابر کمیت رکھنے والے بلیک ہول موجود ہیں ۔اس وقت اس کے ذہن میں وہ کہکشائیں تھیں ، جن کے مرکز متاثر کن حد تک active تھے ۔ مرکز کے لیے یہاں نیوکلیئس کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ یہ مرکز اتنے روشن تھے کہ جیسے ہمارے سورج جیسے تیس ارب سورج جمع کر لیے جائیں ۔ آج ہم جانتے ہیں کہ تقریبا تمام کہکشائوں کے مرکز میں کروڑوں اور اربوں سورج کے برابر قوت اور کشش رکھنے والے عظیم الشان بلیک ہول موجود ہیں ۔ یہ اس قدر طاقتور ہوتے ہیں کہ سینکڑوں ارب ستاروں والی کہکشاں اسی کے گرد آہستگی سے گھوم رہی ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہکشائوں کو ان کی موجودہ شکل وصورت اختیار کرنے میں مدد دی ہے ۔ یہ پوری کہکشاں کو یکجا رکھنے والی قوت ہیں ۔
star clusterکا مطلب ہے ستاروں کا جھرمٹ۔ لاکھوں ستارے جو کہ بہت قریب ہوتے ہیں ایک دوسرے کے ۔ Nebula: یہ گرد ، ہائیڈروجن، ہیلیم، اور دوسری آئیو نائزڈ گیسز کے بادل ہوتے ہیں ۔ اکثر یہ ستاروں کی پیدائش کی جگہ ثابت ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ایگل نیبیولا جسے ناسا کی طرف سے جاری کی گئی ایک تصویر میں pillars of creationقرار دیا گیا تھا۔ یہاں یہ گیسز اور گرد اکھٹے ہوتے رہتے ہیں ۔ان سے پھر ستارے اور ان کی زمینیں بنتی ہیں ۔ 
ہم جانتے ہیں کہ انسانی شکل و صورت، بیماریاں اور دوسری ہر چیز ہمارے جینز میں درج ہوتی ہے ۔ انسان اس بات پر تحقیق کرتا رہا ہے کہ غیر معمولی انسانی ذہانت کا سبب کون سے جینز ہیں ۔رابرٹ پلومن ایک behavioural geneticistہے کنگز کالج لندن میں ۔ اس نے جڑواں بچوں میں ذہانت کا مطالعہ کیا۔ اس کا کہنا ہے کہ انسانی ذہانت سے متعلق جینز ڈھونڈنا بے حد مشکل کام ہے ۔ وہ کہتاہے کہ پندرہ سال سے ہم ذہانت سے متعلقہ جینز ڈھونڈنے کی کوشش کرر ہے ہیں لیکن اس میں ہمیں خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی ۔ سینکڑوں جینز ایسے ہیں ،جنہیں ذہانت کے جینز ثابت ہونے کا امیدوار سمجھا جا سکتاہے ۔ لیکن لگتا ایسا ہے کہ ان میں سے ہر ایک ذہانت میں ایک مختصر سا کردار ادا کرتاہے ۔ اگر چمپینزی کو دیکھیں تو وہ geneticallyانسانوں سے زیادہ diversifiedہیں ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ذہانت کے جینز کو ڈھونڈنا اور بھی مشکل ہوگا۔ 
homo sapiens(انسانوں) کو کرّہ ء ارض پر تین لاکھ سال ہو چکے ہیں ۔ (قدیم ترین انسانی فاسل تین لاکھ سال پرانا ہے ) ۔ اس کے باوجود صرف سو سال پہلے یعنی 1920ء تک یہ سمجھاجاتا اور پڑھایا جاتا تھا کہ کائنات کے سب ستارے ہماری کہکشاں ملکی وے کے اندر ہی پائے جاتے ہیں ۔ اب آج ہم جانتے ہیں کہ ملکی وے سینکڑوں ارب کہکشائوں میں سے صرف ایک چھوٹی سی کہکشاں ہے ۔ 1920ء میں دوماہرینِ فلکیات Harlow Shapleyاور Heber Curtisمیں بڑے بحث مباحثے کے بعد Edwin Hubbleنے اپنی observationsپیش کیں ۔ ان سے حتمی طور پر معلوم ہو گیا کہ ملکی وے کہکشانوں میں سے صرف ایک کہکشاں ہے ۔ 
اگر ایک شخص جس کے دماغ کا سیریبرم مردہ ہو چکا ہولیکن دماغ کا برین سٹیم (نیچے والا حصہ) کام کر رہا ہو تو اس کے دل کی دھڑکن ، پھیپھڑوں کی حرکت اور دیگر زندگی قائم رکھنے والے افعال سرانجام پاتے رہیں گے ۔ اگر برین سٹیم بھی مر جائے تو پھر اس شخص کو مشینوں کی مدد سے ہی عارضی طور پر زندہ رکھاجاسکتاہے لیکن وہ ہوش میں نہیں ہو گا۔ ایسے شخص کو brain-deadکہاجاتاہے ۔ ایسے لوگوں کے جسم سے مختلف اعضا مثلاً گردے اور جگر وغیرہ کا عطیہ لے کر ضرورت مندوں کو دیا جا سکتاہے اگر لواحقین اجازت دیں تو۔ 
سورۃ طہ میں ہے کہ اللہ آدم علیہ السلام سے مخاطب ہے : بے شک تیرے لیے جنت میں یہ ہے کہ نہ تو بھوکا ہونہ ننگا ۔ اور یہ کہ تجھے نہ اس میں پیاس لگے نہ دھوپ ۔ تو شیطان نے اسے وسوسہ دیا۔بولا : اے آدم کیا میں تمہیں بتا دوں ہمیشہ جینے کا پیڑ اوروہ بادشاہی جس میں کمی نہ آئے۔سوال: جنت میں دھوپ اور پیاس نہ ہونے کا کیا مطلب ہے ۔ زمین پر جو دھوپ ہم پر پڑتی ہے ، وہ سورج کی روشنی ہے ۔ جہاں روشنی نہیں ہوتی وہاں رات ہوتی ہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved