تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     20-07-2017

آخری رسومات

اختتامی سین ہی اب رہ گئے ہیں اوریہ ماجرہ یایوں کہیے ڈرامہ ختم ہونے جارہاہے ۔دراصل جھوٹ بہت زیادہ ہی تھے اورآپس میں کہانی کے اجزاء فٹ نہیں ہورہے تھے ۔سو جو کچھ ہورہاہے ہونا ہی تھا ۔ اسے کوئی زیرک وکیل بھی نہیںروک سکتاتھا اوریہی وجہ ہے کہ تین بار وکلاء تبدیل ہوئے اور سپریم کورٹ میں اب ایک نئے وکیل صاحب کیس کی پیروی کررہے ہیں ۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ طریقہ کار پر اعتراض اٹھائے جارہے ہیں صحتِ جرم سے کوئی انکارنہیں ۔کہا جارہاہے کہ فلاں دستاویز غلط طریقے سے لی گئی لیکن یہ نہیں کہ دستاویزمیں لکھی چیزغلط ہے۔ماننا پڑرہا ہے کہ جبل علی میں وزیر اعظم صاحب ایک کمپنی کے چیئرمین تھے اور وہاں سے تنخواہ بھی وصول کررہے تھے ۔ اور یہ سلسلہ تب بھی جاری رہا جب وہ وزیر اعظم بن چکے تھے ۔لیکن دستاویز کو حاصل کرنے کے طریقے پہ اعتراض کیا جارہاہے ۔ یعنی یہ کہ چوری سے انکار نہیں صرف FIRکے اندراج کے طریقے پر اعتراض ہے ۔ مریم صفدر کے آف شور کمپنیوں کی مالکن ہونے سے بھی انکار نہیں کیاجارہابس طریقہ کار پر اعتراض ہیں۔ 
ن لیگ والوں کے چہروں سے صاف معلوم ہورہاہے کہ وہ یہ معاملہ ہار چکے ہیں ۔ رانا ثناء اللہ جیسے سپوت بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ سپریم کورٹ کافیصلہ خلاف آیا تو اس پر عملدرآمد کریںگے تسلیم نہیں کریں گے ۔ ان سے پوچھا جائے کہ اس سے حقیقت حال پر کیا فرق پڑے گا ؟ وزیراعظم نااہل ہوگئے تو آپ کے دل کی منشاء جو بھی ہوحقیقت تو تبدیل نہیں ہوگی ۔
حکومت، نام کی باقی رہ گئی ہے ، عملاََ مفلو ج ہے ۔ طاقت اس کی بہہ چکی ، فیصلہ سازی کی صلاحیت تقریباََ ختم ۔ غور کیجئے کہ دوبئی کو سرکاری مراسلہ دفتر خارجہ کی طرف سے لکھا جاتاہے کہ وزیر اعظم صاحب پرنس محمد سے بات کرنا چاہتے ہیں۔اور کئی دن بیت چکنے کے بعد بھی وہاں سے کوئی جواب نہیں آتا ۔حکمرانی کی طاقت کا اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے ۔
جب سے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے معاملہ پھر سے آیا ہے کاغذی شیروں کی دھاڑ بھی ماند پڑ چکی ہے ۔ کہاں ہیں وہ چار وزراء جو کہہ رہے تھے کہ قطری شہزادے کی گواہی ریکارڈ کئے بغیر جے آئی ٹی رپورٹ نہیں مانی جائے گی ؟سچ تو یہ ہے کہ پورا قطری معاملہ تقریباََ غائب ہوکے رہ گیاہے ۔ایسا لگتاہے کہ خطوط کبھی لکھے ہی نہ گئے ہوں اوریہ ان کے دفاع کامرکزی ستون تھا ۔ اب جو اعتراضات اٹھائے گئے ہیں وزیر اعظم یا اسحاق ڈار کی طرف سے وہ سطحی نوعیت کے ہیں ،طریقہ کار کے بارے میں ۔یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ اسحاق ڈارنے اپنے اعترافی بیان کے بارے میںموقف اختیار کیا ۔منی لانڈرنگ کی تفصیلات رد نہیں کرتے صرف یہ کہتے ہیں کہ مجبوری تھی اورجان بچانے کی خاطر بیان دیاگیا ۔ مزید یہ لاہور ہائی کورٹ کا ایک رکنی بینچ اُس بیان کو ختم کرچکاہے ۔ 
ہمارے جمہوریت پسند بھی عجیب ہیں ۔ وہ بھی صحت جرم سے انکار نہیں کررہے ۔ لیکن شور مچارہے ہیں کہ جمہوریت خطرے میں ہے اور کوئی سازش ہورہی ہے ۔ یہ کیا انوکھی ساز ش ہے کہ شور تو مچ رہاہے لیکن یہ نہیں بتایا جارہا کہ سازش کون کر رہا ہے یا اس کے پیچھے کون ہے ۔کوئی ان سے پوچھے کہ منی لانڈرنگ سے آپ انکاری ہیں ؟لندن فلیٹس کی حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے ؟مریم صفدر آف شور کمپنیوں کی مالکن نہیں ہیں؟جھوٹ اور دروغ گوئی سے کام لیا گیا ہے یا نہیں ؟کیا یہ چیزیں کسی حکمران ، منتخب یا غیر منتخب ، کو زیب دیتی ہیں ؟کیا ان حرکات سے ملک کی عزت بڑھی ہے ؟ ان میں سے کسی ایک سوال کا جواب نہیں دیا جارہالیکن سازش اور جمہوریت خطرے میں ہے کا
واویلامخصوص عناصرمچارہے ہیں ۔
حقیقت میں سازش نہیں بلکہ ن لیگ کے ساتھ ہاتھ ہوا ہے وہ یہ کہ اگلوں نے سپریم کورٹ اور پھر جے آئی ٹی کی حفاظت یقینی بنائی ۔اس اقدام سے حکمران جماعت کے اثرونفوذ سے دونوں ادارے دور ہوگئے ۔ جیسا کہ حکمران خاندان اپنے طویل سیاسی سفر میں عدالتوں ،ججوں اور قانونی عمل کو اپنے اثر کے نیچے لاتے رہے وہ اس بار یہ نہ کرسکے ۔ اوریہی نکتہ تھا جہاں سے ان کی شکست وریخت کا سفر شروع ہوا ۔ اور جب دیکھا کہ افسانوں پر مبنی دفاع کا م نہیں کررہا اور سچ کی گتھیاں سلجھائی جارہی ہیں تو ان کی بے بسی اور لاچاری دیدنی ہوتی گئی۔ اوران کے پاس یہی حربہ رہ گیا کہ جے آئی ٹی پہ حملے کریں ، اس کے ممبران کو متنازعہ بنائیں اور اس ساری کارروائی کے بارے میں مختلف نوعیت کے سوال اٹھائیں ۔ لیکن کوئی ترکیب کارگر ثابت نہ ہوئی ۔ نہ سپریم کورٹ اس کھیل کے اثر میں آئی اور نہ جے آئی ٹی کے ممبران نے کوئی اثر لیا ۔ 
ہاں !صحیح وقت پر اگر کوئی سیاسی initiativeلیا جاتا تو شاید وزیر اعظم کیلئے حالات اتنے مشکل نہ بنتے ۔ لیکن اس کیلئے اخلاقی دلیری اور کچھ دوراندیشی درکار تھی۔ اب وقت گزر چکا ہے ۔اب کسی ایسے قدم کی گنجائش نہیں رہی ۔ اب تو وزیراعظم اور ان کی کشتی حالات کے رحم وکرم پر ہیں ۔ ن لیگیوں کے پاس اب یہی امید رہ گئی ہے کہ وہ سیاسی شہید بنیں اور اگلے الیکشنوںپہ تکیہ رکھیں۔ سیاست میں اگلے ہفتے کا اندازہ لگانا مشکل ہوتاہے ۔ یہ دور اندیش اتنی دور کی سوچ رہے ہیں ۔
ذوالفقار علی بھٹو اقتدار سے معزول ہوئے اور پھر پھانسی بھی چڑھ گئے۔ان کی پارٹی ختم نہ ہوئی اوران کی دختر دوبار وزیر اعظم بنیں ۔ لیکن فوجی مداخلت سے ایک ایسا ابتلاء کا دور شروع ہوا کہ پنجاب کا سیاسی نقشہ بدل گیا ۔ یہ اسی عمل کا نتیجہ تھا کہ نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے چنے ہوئے امیدوار کی شکل میں اقتدار میں آئے اور اب تک قومی سیاست میں نمایاں کردار ادا کرتے رہے ہیں ۔ اسی مثال کو ہم سامنے رکھیں تو اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر نواز شریف ایک دفعہ نااہل قرار پاتے ہیں تو پھر موجودہ سیاسی حقیقتوں میں بنیادی تبدیلی آئے گی اور ن لیگ کی پنجاب کی سیاست پر گرفت ایسے نہیں رہے گی ۔ 
جب ایوبی مارشل لاء آیا تو پرانی سیاست ختم ہوگئی ۔ جب بھٹو کا دور آیا تو ایوبی دور کی باقیات کیلئے کوئی جگہ نہ رہی ۔ جب ضیاء کا مارشل لاء آیا تو نئی حقیقتوں نے پنجاب میں جنم لیا جس کی سب سے نمایاں مثال نواز شریف کی ذات ہے ۔اگر ان کو کسی وجہ سے جانا پڑا تو یہ قدرت کا قانون ہے کہ تبدیلی آئے گی ۔ ہم اپنی تاریخ کے اہم موڑ پر کھڑے ہیں ۔ جسے انگریزی میں کہاجاتاہے Turning Point۔آگے کیا ہوناہے یہ سیاست دانوں کے لئے بڑا چیلنج ہے ۔ سیاسی خلا پیدا ہونے کو جارہا ہے ۔ اسے پُر کون کرے گا یہ سیاستدانوں پر منحصر ہے ۔ کیا وہ مطلوبہ دانشمندی دکھانے کے قابل ہونگے یا پھر جیسا کہ ہماری تاریخ میں کئی مرتبہ ہوچکاہے اور شاہ سواروں کیلئے میدان ساز گار بنا دینگے ؟
اتنا ضرور ہے کہ پاکستانی عوام کے جو بھی گناہ ہوں ، جو بھی کمزوریاں ہوں ، موجودہ حکمرانی کو وہ deserveنہیں کرتے ۔ چار فوجی آمر پاکستان کی تاریخ میں آئے لیکن ان چار وں کی لوٹ مار اکٹھی کی جائے تو ہمارے جمہوری حکمرانوںکی لوٹ مار تک نہیں پہنچتی۔اب موقع کھل رہاہے ، اور یہ آسمان سے آیا ہے ، کہ پاکستان کچھ بہتری کی سمت چلے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved