تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     20-07-2017

پاک بھارت آبی تنازع

پچھلے کالم میں سہواً لکھا گیا کہ شروع میں پاکستان مشرقی دریائوں کا پانی سرنڈر کرنے کو تیار تھا۔ دراصل صورت حال اس کے برعکس تھی شمال میں لاہور سے لیکر جنوب میں بہاولنگر تک ہمارے کئی اضلاع کی زراعت اور دیگر آبی ضروریات مشرقی دریائوں سے پوری ہوتی تھیں۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق آبی صارف زیرین Lower Riparian کو اُس پانی پر جو صارف بالا Upper Riparian کی طرف سے آ رہا ہو پورا حق ہوتا ہے۔ صارف بالا اس پانی کے بہائو کو روکنے کا مجاز نہیں ہوتا۔ افریقہ میں دریائے نیل تین چار ملکوں سے گزرتا ہے لیکن صارف زیریں یعنی مصر کو اس کا حصہ ملتا ہے۔ مگر انڈیا کی بدنیتی شروع سے عیاں تھی۔ جب مذاکرات آگے نہیں بڑھ رہے تھے تو ورلڈ بینک کے صدر یوجین بلیک نے صدر ایوب خان سے پوچھا کہ کیا پاکستان انڈیا سے جنگ کر کے مشرقی دریائوں کا پانی لے سکتا ہے۔ صدر ایوب نے نفی میں جواب دیا۔ اس کے بعد ورلڈ بینک والے اس بات میں جُت گئے کہ سندھ طاس کا معاہدہ کرا کے انڈوپاک پانی کے جھگڑے کو ہمیشہ کے لئے ختم کروا دیا جائے۔ جب اس معاہدے پر 1950ء کی دہائی میں گفت و شنید کے علاوہ سنجیدہ خط و کتابت بھی ہو رہی تھی اُس وقت پاکستان کے محمد شعیب ورلڈ بینک میں کلیدی عہدے پر فائز تھے۔ سندھ طاس معاہدے کی تجویز ورلڈ بینک کی طرف سے آئی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تجویز کو حکومت پاکستان کی طرف سے قبول کرنے کا ڈرافٹ لیٹر شعیب صاحب نے تیار کیا۔ اصولی طور پر یہ کراچی میں تیار ہونا چاہیے تھا۔ مصنف کو واشنگٹن میں ڈی کلاسیفائیڈ کاغذات کھنگالتے وقت شعیب صاحب والا ڈرافٹ مل گیا جس پر ورلڈ بینک کے سینئر کارپرداز مسٹر ایلیف نے ہاتھ سے تصحیح کی ہوئی ہے۔ عبارت سے صاف ظاہر ہے اس معاہدے میں ورلڈ بینک کا انٹریسٹ بہت زیادہ تھا۔ ان دنوں پاکستان مغربی بلاک میں شامل ہونے والا تھا۔ شعیب صاحب کے ڈرافٹ میں یہ جملہ بہت اہم ہے It is Clear that the bank Proposals impose great Sacrifices on Pakistan یعنی صاف ظاہر ہے کہ بینک کی تجاویز پاکستان پر قربانیاں مسلط کر رہی ہیں اور اس کے فوراً بعد لکھا کہ تاہم ہم پرامن حل کی خاطر یہ تجاویز مان رہے ہیں۔ یہ ڈرافٹ لیٹر حکومت پاکستان کی جانب سے بینک کے صدر یوجین بلیک کے نام تھا چند ہی روز بعد پاکستان کے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان کی طرف سے ورلڈ بینک کی تجویز کی منظوری باقاعدہ سرکاری خط کی شکل میں آ گئی۔ 
مصنف نے سندھ طاس منصوبے کا عمیق جائزہ قانونی اور سیاسی زاویوں سے لیا ہے۔ حکومت پاکستان کی طرف سے جن قربانیوں کا ذکر شعیب صاحب کے ڈرافٹ خط میں آیا ہے وہ تین مشرقی دریائوں کے پانی کی قربانی ہے اور یہ کوئی معمولی قربانی نہیں تھی۔ ان تین دریائوں کا مجموعی پانی اُس ٹوٹل پانی کے برابر ہے جو مصر کو دریائے نیل سے مل رہا ہے۔ اس طرح انڈیا کو اس قدر وافر پانی مل گیا کہ وہ نہریں نکال کر راجستھان تک لے گیا۔ جبکہ انڈیا کی چاندی ہو گئی پاکستان سے یہ کہا گیا کہ تین مغربی دریائوں کا پانی اس کی ضروریات سے زیادہ ہے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ مغربی دریائوں کا پانی مشرقی اضلاع تک کیسے پہنچایا جائے اس مقصد کے لئے لنک نہروں کا مفصل منصوبہ بنا انڈیا سے لنک نہروں کے لئے فنڈ مہیا کرنے کے لئے کہا گیا اور اُس نے صاف انکار کر دیا۔ چنانچہ ورلڈ بینک نے چند مغربی ممالک کی مدد سے تربیلا اور منگلا ڈیم اور لنک نہروں کے لئے ایک ارب ڈالر جمع کئے اور پاکستان میں یہ منصوبے شروع ہوئے۔ تین مغربی دریائوں کا پانی شروع میں ہماری ضروریات کے لئے کافی تھا مگر آبادی اور صنعتیں بڑھ رہی تھیں۔ پانی کی طلب میں بتدریج اضافہ ہو رہا تھا۔ لیکن ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے۔ مزید ڈیم ہم نے نہیں بنائے۔
تین دہائیوں تک سندھ طاس معاہدہ خوب چلا بلکہ اسے کامیاب معاہدوں میں مثال کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں بھی اس پر عمل ہوتا رہا اور پھر انڈیا نے چناب اور جہلم پر ڈیم بنانے شروع کئے اور یہ تھے بگلیہار اور کشن گنگا ڈیم۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ سندھ طاس منصوبہ انڈیا کو ڈیم بنانے کی اجازت دیتا ہے مگر ضروری شرط یہ ہے کہ پاکستان کی طرف پانی کے بہائو میں کمی نہیں آنی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سب سے اہم چیز یہ کہ ڈیم کا ڈیزائن ایسا ہونا چاہیے کہ پاکستان کے پانی کے شیئر میں کمی نہ آنے پائے۔ پاکستان کا خدشہ تھا کہ بگلیہار اور کشن گنگا ڈیم دونوں کی جھیلوں کو بھرنے یا خالی کرنے کے لئے انڈیا کو چند روز کے پانی کا بہائو روکنا پڑے گا چنانچہ پاکستان دونوں کیس ورلڈ بینک کے پاس لے گیا اور ورلڈ بینک نے معاہدے کے مطابق فیصلہ کرنے کے لئے نیوٹرل ایکسپرٹ مقرر کئے۔ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ جب ہم ورلڈ بینک کے پاس گئے تو بگلیہار اسی فیصد بن چکا تھا۔ ہم سوئے رہے اور جاگنے میں تاخیر کی۔ عام تاثر یہ ہے کہ پاکستان دونوں کیس ہار گیا لیکن ڈاکٹر اعجاز حسین اس تاثر کی نفی کرتے ہیں۔ بگلیہار کیس میں پاکستان کی شکست کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ انڈیا کو اس بات کا حق دے دیا گیا کہ وہ ڈیم کی مرمت کی غرض سے اور صفائی کے لئے جھیل کو وقتی طور پر خالی کر کے دوبارہ بھر سکتا ہے۔ آپ سوچئے کہ یہ کام اگر انڈیا نومبر میں کرے تو پاکستان کو کتنا نقصان ہو سکتا ہے کہ وہ ہمارے ہاں گندم کی بوائی کا وقت ہوتا ہے۔ لیکن شکر ہے کہ کشن گنگا کیس میں انڈیا کو یہ حق نہیں ملا اور فیصلے میں کہا گیا کہ انڈیا جھیل کی صفائی کے متبادل طریقے اختیار کرے۔
مصنف کے نزدیک پاکستان کے بگلیہار کیس ہارنے کی تین وجوہات تھیں اولین وجہ یہ تھی کہ نیوٹرل ایکسپرٹ ایک انجینئر تھا جس کا ڈیم سیفٹی ایشوز کا خاصہ تجربہ تھا۔ ویسے میرے نزدیک یہ رائے زیادہ وزنی نہیں فرض کیجئے کہ نیوٹرل ایکسپرٹ انجینئر کی بجائے ماہر قانون ہوتا تو کیا گارنٹی تھی کہ فیصلہ پاکستان کے حق میں آتا۔ کیس ہارنے کی دوسری وجہ مصنف نے یہ بیان کی ہے کہ پاکستانی وفد نے کیس کو مس ہینڈل کیا۔ ہمارے دلائل زیادہ تر قانونی زاویے سے تھے جبکہ انڈین ٹیم میں اچھے انجینئر تھے جنہوں نے انجینئرنگ ڈیزائن کے حوالے سے دلائل دیئے۔ نیوٹرل ایکسپرٹ کو انڈین دلائل میں زیادہ وزن نظر آیا۔ مصنف نے ہماری ناکامی کا تیسرا سبب یہ بتایا ہے کہ ہمارے وفد نے نیوٹرل ایکسپرٹ کے ساتھ ناشائستہ رویہ اختیار کیا جس نے ردعمل کے طور پر فیصلہ ہمارے خلاف دیا۔ کتاب میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ پاکستانی ٹیم کا منفی اور جذباتی ردعمل فیصلے کے فوراً بعد دیکھا گیا۔ اس سارے قصے کی توضیح کے لئے مصنف نے پاکستان کے سابقہ فیڈرل سیکرٹری واٹر اینڈ پاور اشفاق محمد سے دو مرتبہ رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر کوئی تسلی بخش جواب نہ ملا۔ میں نے خود مصنف سے پوچھا کہ آپ نے اشفاق محمود سے رابطہ کس طرح کیا تھا کہنے لگے میں نے دو ای میل بھیجے اور ایک مرتبہ فون پر بات ہوئی۔ یہ کتاب سندھ طاس منصوبے کا صرف تنقیدی جائزہ یہی نہیں بلکہ اس میں حکومت کے لئے مفید تجاویز بھی شامل ہیں۔ 
دوسری اور اہم تجویز انڈیا اور پاکستان دونوں کو ہے کہ مغربی دریائوں پر جو ڈیم مقبوضہ کشمیر میں بنائے جائیں وہ انڈیا اور پاکستان کے جائنٹ یعنی مشترکہ کنٹرول میں ہوں یہ تجویز بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں 1989ء میں وولر بیراج کے سلسلہ میں دی گئی تھی لیکن انڈیا نے اسے فی الفور مسترد کر دیا۔
اور اب واپس لوٹتے ہیں موضوع کی جانب کہ آیا واقعی پانی کے تنازعات پر انڈیا پاکستان میں جنگ ہو سکتی ہے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ پانی پر افراد اور گروہوں میں تو جھگڑے ہوتے ہیں لیکن حکومتیں عام طور پر پانی کے تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کر لیتی ہیں خود سندھ طاس معاہدہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے لیکن مصنف کے خیال میں جنگ کے امکان کو سراسر نظرانداز کرنا ہمارے لئے خطرناک ہو گا۔
اس اعلیٰ کتاب کو ہر اچھی ذاتی لائبریری اور تمام سرکاری لائبریریوں کی زینت ہونا چاہیے۔ ٹی وی چینلز کو اسے زیر بحث لانا چاہیے کہ کئی انکشافات بالکل نئے ہیں۔ میں اس کتاب کو پڑھنے کے بعد اس بات کا قائل ہو چکا ہوں کہ وزارت خارجہ کو اپنے چند ذہین افسر مغرب کی اچھی یونیورسٹیوں میں انٹرنیشنل لاء بالخصوص پانی کے ایشوز پر اعلیٰ تعلیم کے لئے بھیجنا چاہئیں۔ پانی کا مسئلہ ہمارے لئے بے حد اہم ہے۔ اسے صرف منسٹری آف واٹر اینڈ پاور یا انڈس کمشنر کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved