تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     21-07-2017

دولت اور اقتدار

سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد کوئی ان لوگوں کوسنائے: سوّر کی ہڈی کی مانند دنیا کوڑھیوں کے ہاتھ میں ہے۔
روپیہ ایک اہم چیز ہے مگر کتنی اہم؟ ایک حد کے بعد‘ اس کی افادیت تمام ہوتی ہے۔ روزمرہ ضروریات ‘ چمک دار لباس‘ گاڑی اور مکان۔ اس کے بعدکیا؟ صحت ہم نہیں خرید سکتے‘ اطمینان نہیں‘ عزت و توقیر بھی نہیں۔ زندگی اقتدار سے جنت بن سکتی ہے اور نہ زروجواہر سے۔بہت بڑھ جائے تو سرمایہ الٹا مصیبت ہو جاتا ہے‘ایک لعنت ۔
نثر نگار دائود رہبر نے خاندان کے ایک شخص کی روداد لکھی ہے۔ کمر سے ایک پیٹی باندھے ‘ جمع پونجی اس میں چھپارکھتا۔موت کے بعد چالیس ہزار روپے کے کرنسی نوٹ برآمد ہوئے‘ خستہ وخراب۔عمر بھر بیوی‘ بچے آزردہ رہے‘ المناک یادیں وہ چھوڑ گیا۔
حکم یہ ہے: وممّارزقنٰھم ینفقون۔ جو کچھ ہم نے دیا ہے‘ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ مومن کیا ہوتاہے؟'' وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ‘‘۔ ایثار کرتے ہیں‘ خواہ تنگ دست ہوں۔
سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے ایک باراس آیت پہ غور کیا۔ کہا :فیصلہ اب یہ ہے کہ آئندہ پیسوں کو شمار نہ کریں گے۔ شکی رفیق نے کچھ روپے چرا لیے۔ بھلا آدمی تھا‘ ارادہ یہ تھا کہ موقع پا کر واپس ڈال دوں گا مگر نہ مل سکا۔ آخر کو ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور بات بتائی۔ سادہ اطوار آدمی ہنسا اور کہا: اب یہ تمہاری نذر ہیں۔
افلاس سے آدمی آزمایا جاتا ہے اور تونگری سے بھی۔ جناب علی ابن طالب کرّم اللہ وجہہ کم از کم پہ بسر کرتے۔ ان سب کا شعار مگر یہ نہ تھا۔ دسترخواں پہ اپنے مہمان سے سیدنا عثمان غنیؓ نے پوچھا: کھانا کیسا ہے۔ اس نے کہا: نہایت لذیذ۔ فرمایا: عمر بھر اچھا کھانا کھایا اور عمدہ لباس پہنا۔ اب دوبکریاں رہ گئی ہیں۔ یہ شہادت سے چند دن پہلے کا قصہ ہے۔ ایک بار بہت سا مال نذر کیا تو آپؐ نے فرمایا تھا: آج کے بعد عثمان کچھ بھی کرے‘ کوئی نقصان اسے نہ پہنچے گا۔
جماعت اسلامی کے جان محمد عباسی مرحوم مردِ آزاد تھے۔ 1957ء کے لاڑکانہ میں ایک رفیق کے ہمراہ ذوالفقار علی بھٹو سے ملنے گئے تو شربت انہیں پیش کیا گیا۔ اس آدمی نے کہا: شاہنواز بھٹو خان کا فرزند الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتا ہے۔'' کیسے اندازہ ہوا؟‘‘ عباسی صاحب نے پوچھا۔ بولا: پہلی بار آج یہ عنایت ہوئی۔
دیکھنے والے دنگ رہ گئے‘ سیدنا ابوبکر صدیقؓ جب اپنے فرزند کی پٹائی کے لیے لپکے۔ ان کا حلم تو ضرب المثل تھا۔ زندگی میں ایک ہی بار وہ برہم ہوئے تھے‘ ان کی موجودگی میں‘ جب ایک جاہل نے سرکارؐ کی شان میں گستاخی کی تھی۔مہمان گھر میں فروکش تھے۔ ان سے پوچھا کہ کیا کھاناپیش کیا گیا۔ ''نہیں‘‘ اور وضاحت کی انہوں نے کوشش کی۔ تاب کہاں تھی‘ برہم فرزند کی طرف بڑھے۔ تب پکار کر انہوں نے کہا: وہ بیچارہ اصرار کرتا رہا‘ ہمیں نے انکار کیا۔
امیر یا غریب‘ کسی بھی معزز اور معتبر آدمی کی زندگی میں روپے کی اہمیت زیادہ نہیں ہوتی۔ افلاس میں صبر‘ فراوانی میں بے نیازی۔ آپؐ کا ارشاد ہے: الغنیٰ عنِ النفس۔ مالداری‘ دراصل بے نیازی ہے۔
مدتوں سے لاہور کے ایک ہوٹل میں ٹھہرتا آیا ہوں۔ بھٹو صاحب یہیں قیام کیا کرتے۔ کتنی ہی کہانیاں فخرایشیا کے بخل کی سنی ہیں۔ اطالوی اخبار نویس آریانا فلانجی نے‘ ان کے دولت کدے کی شان و شوکت کا حوالہ دیا تو کہا: مالدار عورتوں کی چاکری سے نہیں‘ خون پسینہ بہا کر‘ کئی نسلوں میں امارت پائی ہے۔ اگر کبھی کسی نے ان پانچ نسلوں کی کہانی‘ لکھی تو اس میں کئی خیرہ کن باب ہوں گے۔ہرمفلس پہ مہرباں‘ ان کی والدہ ماجدہ ‘ محترمہ نصرت بھٹو کی وضع داری ۔
لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس کارنیلیس نے اپنی زندگی کے آخری ایام اسی ہوٹل میں گزارے۔درویش سے درویش تھے کہ ان کی یاد اور احترام کا احساس ایک ساتھ ابھرتے ہیں۔ قائداعظمؒ لاہور تشریف لاتے تو کبھی اسی ہوٹل میں قیام کرتے۔ نواب زادہ نصراللہ خان نے کئی برس یہیں بتائے۔ 1967کے آس پاس‘پانچ روپے روزانہ کا اضافہ ہوا تو کرائے کے مکان میں اٹھ گئے۔ بہت بڑے زمیندار تھے‘ 1300 ایکڑ زرخیز زرعی اراضی‘ آم کے بیش بہا بہت سے باغات‘ چنانچہ چھ عدد کاریں ان کے ہاں کھڑی رہتیں۔شاہ جہاں کے دور سے چلی آتی اتنی بڑی جاگیر سیاست پہ لٹا دی۔ آخرآخر ذاتی گاڑی تک نہ تھی۔ ایک پلاٹ ماڈل ٹائون میں تھا اور اس کا مقدمہ سپریم کورٹ میں۔ بے نظیر بھٹو کا عہد‘ ان کے اشارہ ابرو کا جو انتظار کیا کرتیں۔ فیصلے میں تاخیر تک کا ذکران سے نہ کیا۔ حق میں فیصلہ ہوا تو بیچ کر قرض چکایا اور عمرہ کرنے گئے۔ جدّہ میں میاں نوازشریف اور لندن میں بے نظیر بھٹو سے مل کر آئے کہ فوجی حکمران کے خلاف معرکہ برپا کریں۔ جنرل ضیاء الحق کے حاشیہ نشیں آوازے کسا کرتے۔بعد کے برسوں میں نون لیگ والے بے پر کی اڑایا کرتے کہ صاحبزادہ وزیر مال ہوا تو سب زمینیں واپس خرید لیں۔ اس پارٹی کا حامی اخبارافسانے چھاپتا رہا۔
خود اس ناچیز سے نواب صاحب نے بیان کیا: مجید نظامی کو میں نے فون کیا اور یہ کہا:زمین کی رجسٹری ہوتی ہے۔ خریدار‘فروخت کنندہ اور ان کے گواہ عدالت جاتے ہیں۔ کوئی معروف آدمی بیچے یا خریدے تو پوری کچہری میں خبر گونجتی ہے۔ رجسٹری کا عکس چھاپ دیجئے، کم از کم کسی گواہ کا بیان ہی۔ بدمزہ بہت تھے۔اس روز شاید زندگی کا تلخ ترین جملہ کہا: اخبار نویس کے قلم اور حجام کے استرے میں کچھ نہ کچھ فرق تو ہونا چاہیے۔
کیسے کیسے بہتان سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ پرتراشے نہ گئے۔ پندرہ برس ہوتے ہیں‘ ذیلدار پارک سے گزر ہوا تو سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے مزار پہ فاتحہ پڑھنے گیا۔ ایک صاحب آئے‘ دعا کو ہاتھ اٹھاتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ پھر کہا: میں ان کا خادم تھا۔ ہرمہینے کے پہلے دن کتنے ہی خاندانوں کو خاموشی سے روپیہ پہنچاتا۔ تاکیدیہ تھی کہ ان کے خاندان میں بھی کسی کو خبر نہ ہونے پائے۔جناب ابوبکر صدیقؓ انگوٹھی پہنا کرتے۔ اس پہ سرکارؐ کا قول کھدا تھا: کذب ہلاک کرتا اور سچ نجات دیتا ہے۔
مال و دولتِ دنیا کی محبت رسوا کرتی ہے۔ بعض اوقات تو بہت ہی رسوا۔ فرمایا: دنیا کی محبت تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔امیرالمومنین ہارون الرشیدنے ملکہ زبیدہ سے کہا: طبیعت میں انقباض ہے۔ کہا: جب خزانے لبریز اور خلق دکھی ہو تویہی ہوگا۔خود بہت فیاض تھیں‘ ایک مادرِ مہربان !
اولیاء اللہ کی تعریف میں قرآن کریم یہ کہتا ہے: خوف اور غم سے وہ آزاد کر دیئے جاتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ مال دار کے لیے بھی یہی خوشخبری ہے‘ اگر لٹاتا رہے۔ اہلِ سخا سے اللہ کا پیمان یہ ہے کہ اس کی رحمت اِس دنیا میں بھی ان پہ سایہ فگن رہے گی۔ اقتدار کا معاملہ بھی یہی ہے۔ جس نے اسے امانت جانا‘سبک اور شادماں‘ وگرنہ رسوائی کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ حکمرانوں میں قائداعظمؒ کے سوا شاذ ہی کوئی سرخرو اٹھا۔ 
صلاح الدین دنیا سے رخصت ہوئے تو فرزند سے پوچھا گیا کہ کس قدر ترکہ انہوں نے چھوڑا ہے۔ کہا: بس اتنا ہے کہ کفن دفن کا بندوبست ہو سکے۔ سات سو سال بیت چکے‘ مشرق ہو یا مغرب ساری دنیا ایوبی کے فرزند کا گیت گاتی رہتی ہے۔دوست کیا دشمنوں پر بھی مہربان تھے۔ شاید ہی کبھی کسی حکمران کا اس طرح ماتم ہوا ہوگا۔ تین دن تک دمشق کا کوئی مکین گھر میں ٹھہرتا نہ تھا۔ سلطان کے پوتوں کو لوگ جہاں کہیں دیکھ پاتے‘ دھاڑیں مار مار کر روتے۔
کوئی جائے اور جا کر میاں محمد شریف کو بتائے کہ دھن دولت اور حکومت و اقتدار میں کچھ نہیں رکھا‘کچھ بھی نہیں ۔
سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد کوئی ان لوگوں کوسنائے: سوّر کی ہڈی کی مانند دنیا کوڑھیوں کے ہاتھ میں ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved