تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     21-07-2017

14ویں سوال کے بعد…(3)

پردہ اٹھتا ہے۔ اب 14 واں سوال کھل کر قوم کے سامنے آ گیا۔۔۔
14 واں سوال سیریز کا پہلا وکالت نامہ اسی صفحے پر14-07-2017 کے دن شائع ہوا۔ کالم ایک دن قبل لکھا گیا تھا۔ جب کہ 14واں سوال اس سے بھی 2 دن قبل نجانے کہاں سے خیال میں در آیا۔
عرض کیا تھا! جے۔آئی۔ٹی کی رپورٹ سپریم کورٹ کے سامنے پیش کئے جانے کے بعد پانامہ کیس کی بحث نئے سِرے سے نہیں کھولی جا سکتی۔ اس قانونی اصول کو ''ٹرائل ڈی نووو‘‘ کہتے ہیں۔ بدھ اور جمعرات کو سپریم کورٹ نے یہی کہا ۔ یہ کالم لکھتے وقت سرکاری موقف کی دھجیاں اور گِریبان مارگلہ کے کھمبے کے ساتھ لٹک رہے تھے۔ شر یف پکوڑوں کے تازہ کاغذات اس قد ر ''پھٹیچر‘‘ نکلے کہ انہیں پکوڑوں کے ٹھیلے تک بھی پذیرائی نہ مل سکی۔ اسی لیے لانگری گروپ کے تاحیات سرپرست جمہوریت کا سفر کھوٹا ہوتے دیکھ رہے ہیں ۔ ضیاء دور کی پاسبان کے تخلیق کار اور آج کے کھرب پتی۔ کہتے ہیں بے چارے طارق شفیع کے ساتھ زیادتی ہوئی۔وہ بھی پاک فوج ، عدل اور جے۔آئی ۔ٹی کی ملی بھگت سے۔ اصل بات قوم خوب جانتی ہے '' لُٹو تے پُھٹو ‘‘ والے پَھڑے جا رہے ہیں۔ جن کا نمبر پانامہ فیصلے کے بعد آئے گا پَھڑ پَھڑ انا ان کا حق ہے۔
پچھلی قسط میں عالم ِ اسلام کی آلِ شریف کے خلاف سازش کا تذکرہ جاری تھا۔ لہٰذا واپس دبئی کے جبلِ علی فری زون میں چلتے ہیں۔ اس فری زون سے ہماری قومی عزت کے علمبرداروں کے حق میں بالکل فری، تازہ ترین سر ٹیفکیٹ جاری ہوا۔ آسان لفظوں میں آپ اسے '' پانامہ سے اقامہ تک‘‘ حسنِ کارکردگی کا بادشاہی تمغہ کہہ لیں۔ غریب ملک کے انتہائی غریب خاندان کا فقیر وزیرِ اعظم بے چارہ ایٹمی، اسلامی جمہوریہ ریاست کی مینیجری سے تنگ آ کر دبئی میں مارکیٹنگ کی نوکری حاصل کر لیتا ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے ساری عمر کی بے روزگاری ختم ہوئی نوکری کی شرائط خود پڑھ لیں:
''جافزہ جبلِ علی فری زون
04-07-2017
دبئی UAE 
عنوان: آپ کی بارگاہ میں عرض ہے 
یہ تصدیق کی جاتی ہے کہ مسٹر محمد نواز شریف ولد محمد شریف جن کا پاس پورٹ نمبر : BV 5128361 
ہے۔ چیئرمین آف دی بورڈ کے طور پر کیپیٹل FZE میں 07-08-2006 سے 20-04-2014 تک نوکری کرتے رہے ہیں۔
متعلقہ نوکری کے لیے تنخواہ مندرجہ ذیل ہے: -
بنیادی تنخواہ: 10,000 AED 
رہائش: YES
ٹرانسپورٹیشن: YES
فوڈ: YES
الائونس: 15 ہزار درہم ما ہانہ‘‘
اسلامی ملکوں کی اس عالمی سازش میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ریاست کا سربراہ بھی شریک نکلا۔ ذاتی طور پر مسلم لیگ نواز گروپ کا انتہائی ممنون اور مشکور بھی ۔ مگر بحثیت صدرِ مملکت وہ نواز شریف کی لیڈرشپ اور طرزِ حکمرانی سے کس قدر متاثر ہوا ، یہ صدر ممنون حسین کی زبانی سن لیں:
''میں نے غور کیا ہے کہ اس پر کوئی خاص عمل درآمد مجھے نظر نہیں آیا اور مجھے بڑا افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے بہت سے سرکاری ملازم اچھی تجاویز پر بھی عمل نہیں کرتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کو کام کرنے کی عادت نہیں رہی ہے۔کہنا پڑتا ہے کہ حرام خوری کی عادت پڑ گئی ہے ہمارے بہت سے ، بے شمار شعبوں میں۔ سب سے بڑی وجہ جو اس ملک کے اندر بے شمارکمیوں کی ہے ،وہ کرپشن اور بدعنوانی ہے ۔ اس ملک کا کوئی شعبہ نہیں بچا کرپشن اور بد عنوانی سے۔ کرپشن اور بد عنوانی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنا چاہیے۔ اس کے بغیر ملک ترقی نہیں کرے گا ۔ کرپٹ لوگوں کے بھی مختلف درجات ہیں۔ کوئی بہت زیادہ کرپٹ ہے ، کوئی درمیانہ کرپٹ ہے ، کوئی تو ایکسٹرا آرڈنری کرپٹ ہے ۔ یہ جو ایکسٹرا آرڈنری کرپٹ ہے کبھی آپ دیکھئے گا ان کے منحوس چہرے ہوتے ہیں۔ منحوس ، چہرے پر نحو ست ٹپک رہی ہوتی ہے ۔ اللہ کی لعنت ان چہروں پر موجود ہوتی ہے ۔یہ اکڑتے نظر آتے ہیں کہ یہ کوئی بہت بڑا کرپٹ آدمی ہے ۔ کبھی غور کیجئے ایک بات پہ اورافسوس تب ہوتا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ جناب! کئی ایک ایسے لوگ ہیں جنہوں نے کرپشن کے بڑے بڑے میدان مارے ہیں ۔ وہ جو بہت سینہ تان کے چلتے ہیں کہ جناب وہ تو بڑے ''سوٹیہ سر داب‘‘ ہیں انہوں نے تو کبھی کوئی غلط کام کیا ہی نہیں۔ ان سے زیادہ تو ملک کا ہمدرد ہی نہیں ہے۔بہرحال ، اب بہت وقت گزر گیا ، اب میں آپ کو بتا دوں ، بالکل یقین کے ساتھ ، میں آپ کو کہہ رہا ہوں کہ اب وہ وقت آ رہا ہے ، یہ جو پانامہ لیکس ہے ناں ،جو آپ نے دیکھا ہے ناں، یہ معاملہ جو اُٹھا ہے۔ یہ بھی قدرت کی طرف سے اُٹھا ہے اس کی وجہ سے پتہ نہیں کون کون سے اور معاملات اُٹھیں گے‘‘۔
صدر ممنون کی یہ شازشی تقریر سیدھی سیدھی آلِ شریف کی ترقی اور شریفانہ طرزِ جمہوریت کے خلاف تھی۔ صدر کی پشین گوئی کے عین مطابق اللہ کی قدرت سے سپریم کورٹ نے کرپشن کے شریفانہ سمندر کو 13 سوالوں کے کُوزے میں قید کر لیا ۔ پھر کُوزے کی حفاظت کے لیے 6 قومی اداروں کی دیوارِ چین بنا دی۔ ملک کی آخری عدالت کے رو برو شریفوں نے اپنی شرافت کی تاریخ دُہرائی ۔ جھوٹ، جعل سازی ، الزام تراشی، نقلی کاغذات ، فرضی شہادتیں۔ ننگی گالیاں جن کو چلاتے وقت ٹی۔وی نے گالی گزاروں کی آواز پر ''ٹوں‘‘ کی آواز چڑھا دی۔ اداروں پر حملے ، مودی کی سپورٹ ، ایل۔او۔سی پر مسلسل فائرنگ۔ کابل کے مودی نواز حکمران کی دھمکیاں جاری تھیں کہ مجھے لاہور آنا پڑ گیا۔ یہاں انتہائی قابل رپورٹروں کے ایک بڑے گروپ سے میڈیا ٹاک اور لنچ میں ملاقات ہوئی۔ لیاقت انصاری، جاوید فاروقی سمیت سب کا سوال ایک جیسا تھا۔ سپریم کورٹ کیا کرے گی۔ میں نے عرض کیا 14واں سوال کرے گی۔ سب نے حیران ہو کر کہا 14واں سوال ؟ ساتھ پوچھ لیا 14ویںسوال کے بعد کیا ہو گا؟ 14ویںسوال کے بعد کے منظر نامے پر میں نے فیض احمد فیض کا یہ جواب سنا دیا:
میر ے جاں نثاروں کو حُکم ہے کہ گلی گلی یہ پیام دیں
جو امیرِ شہر کا حکم ہے بِنا اعتراض، وہ مان لیں
جو میرے مفاد کے حق میں ہیں وہی عدلیہ میں رہا کریں
مجھے جو بھی دل سے قبول ہوں سبھی فیصلے، وہ ہُوا کریں
جنہیں مجھ سے کچھ نہیں واسطہ انہیں اپنے حال پہ چھوڑ دو
وہ جو سر کشی کے ہوں مرتکب انہیں گردنوں سے مروڑ دو
وہ جو بے ضمیر ہیں شہر میں انہیں زر کا سکہ اچھال دو۔۔
بدھ کے روز سپریم کورٹ نے آلِ شریف کے وکلاء سے 14 واں سوال پوچھا۔
سوال پوچھنے سے پہلے کہا 13 سوال چھوڑ دیتے ہیں۔ جے۔آئی۔ٹی کی رپورٹ پرے کر دی۔ صرف ایک سوال کا جواب دے دیں۔ رقم کہاں سے آئی اور منی ٹریل کا ثبوت کیا ہے؟مافیا کے ہرکارے حرکت میں آئے۔ پرجری سے فورجری کا سفر طے ہوا۔ نوٹری پبلک کی چھٹی والے دن کی مہر لگا دی۔جب وکیل نے کہا مہر لگانے کا گواہ عدالت میں موجود ہے۔ آپ اس کا بیان ریکارڈ کر لیں۔ (جاری) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved