پرانے لطیفے اور اشعار جو نئی صورتحال پر پورا اترتے ہوں‘ پرانے نہیں رہ جاتے بلکہ باقاعدہ نئے ہو جاتے ہیں؛ چنانچہ منقول ہے کہ چار پانچ سکھ بھائی جو ٹرین میں بغیر ٹکٹ سفر کر کے اپنی منزل مقصود پر اُترے تو ان میں سے چار تو ٹکٹ کلکٹر کی آنکھ بچا کر نکل گئے لیکن پانچویں سے جب ٹکٹ مانگا گیا تو وہ دوسروں کو مخاطب کرتے ہوئے بولا :
''سردار جی آ جائو‘ آپاں پھڑے گئے آں!‘‘
سو‘ وزیراعظم خود تو پاناما کیس میں پھنسے ہی تھے۔ انہوں نے اپنے بچوں کو بھی ساتھ ملا لیا بلکہ اپنے والد بزرگوار کو بھی اس سارے قصے میں شامل کر دیا‘ اور اب سب کی جان پر بنی ہوئی ہے۔ کل تک تو ان کا دعویٰ یہ تھا کہ انشاء اللہ سپریم کورٹ سے سُرخرو ہو کر نکلیں گے لیکن بالآخر عدالت کو یہ کہنا ہی پڑا کہ اب تو یہ دیکھنا ہے کہ اس کیس کو نیب میں بھجوانا ہے یا چیف الیکشن کمشنر کے پاس۔ بلکہ‘ یہ ہماری خواہش نہیں‘ لگتا یہی ہے کہ یہ معاملات نیب اور چیف الیکشن کمشنر کو الگ الگ بھجوائے جائیں گے کیونکہ جن جرائم کا ارتکاب ہوا ہے وہ دونوں سے علیحدہ علیحدہ متعلق ہیں۔
اس بات کا اعادہ وزیراعظم کی طرف سے آج بھی کیا گیا ہے کہ ٹھکرائے ہوئے لوگ استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ گویا‘ جو کچھ بھی کیا کرایا ہو‘ ٹھکرائے ہوئے لوگ استعفیٰ کا مطالبہ نہیں کر سکتے اور ایسا کرنے کے لئے حاجی نمازی ہونا ضروری ہے‘ جبکہ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو کم از کم رکن اسمبلی نہ ہو۔ یہ تمہیدیں شاید اس لئے باندھی جا رہی ہیں کہ کل کو فیصلہ خلاف آنے پر اس کے خلاف شور مچا سکیں‘ اگرچہ اپوزیشن والوں کا موقف اب بھی یہی ہے کہ وزیراعظم رہی سہی عزت بچا لیں اور اپنے کسی جانشین کا اعلان کر کے الگ ہو جائیں۔
افسوس اس بات کا ہے کہ بقول چوہدری نثار اگر کوئی معجزہ وزیراعظم کو بچا سکتا تھا تو وہ بھی رونما نہیں ہوا ہے اور وہ کمر درد کا سہارا لے کر اور اپنی عزت بچا کر گھر بیٹھ گئے ہیں۔ ویسے‘ وزیراعظم کے لئے اپنے جانشیں کا انتخاب کرنا بھی کوئی آسان بات نہیں ہے کیونکہ اس کے امیدوار کوئی نصف درجن تو ضرور ہوں گے یعنی یک انار وصد بیمار۔ لیکن شاید انہیں یہ اندازہ نہیں ہے کہ فیصلے کے بعد اُن کے لئے یہ فیصلہ کرنا اور بھی مشکل ہو جائے گا جبکہ ماضی میں بھی ان کے ساتھ یہی ہوا تھا کہ ان کے جدہ سدھار جانے کے بعد زیادہ تر لوگوں نے جنرل (ر) مشرف کی'' ولولہ انگیز‘‘ قیادت پر ایمان لاتے ہوئے قاف لیگ قائم کر لی تھی۔ رہے نام اللہ کا۔
اس بات پر تو تقریباً اتفاق ہے کہ پانامہ کیس کا سو موٹو ایکشن خود اللہ میاں کی طرف سے تھا۔ ورنہ یار لوگ تو پکے پیروں پر تھے کیونکہ ان کارگزاریوں کا ثبوت انہوں نے چھوڑا ہی نہیں تھا۔ صاحب موصوف کے لئے احتجاج یا انکار کا وقت وہ تھا جب انہیں سپریم کورٹ کے ایک جج نے گاڈ فادر کا خطاب دیا تھا۔ لیکن کئی اور مواقع کی طرح انہوں نے وہ موقعہ بھی ضائع کر دیا‘ حتیٰ کہ اب انہیں یہ بھی کہنا پڑ رہا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم کریں گے۔
اپوزیشن والے اگر وزیراعظم کی فارغ خطی پر خوشی منانے یا مٹھائیاں تقسیم کرنے کے موڈ میں ہوں تو یہ بات مزید افسوسناک ہو گی کیونکہ اس فیصلے سے صرف وزیراعظم ہی فارغ نہیں ہوں گے بلکہ ملک کو ایک بڑی بدنامی اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا جو یقیناً کسی کے لئے باعث مسرت نہیں ہو سکتا ورنہ شادیانے بجانے والوں کی کمی کسی دور میں بھی نہیں رہی‘ حتیٰ کہ مارشل لاء لگانے والوں کے گلے میں بھی ہار ڈالے جاتے رہے اور بھٹو کے عدالتی قتل پر اس کی پارٹی کے کئی حضرات مٹھائیاں تقسیم کرتے ہوئے پائے گئے...فاعتبرویااولی الابصار!
اس میں کوئی شک نہیں کہ نوازشریف بلکہ شریف برادران کے حالیہ دور میں نظر آنے والا کام بھی ہوا ہے جس سے آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں اور وہ صرف اپنی کارگزاری پر آگے بڑھ رہے تھے اور سمجھ رہے تھے کہ کرپشن کے الزامات کے باوجود انہیں کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ لیکن ان کے سارے اندازے غلط نکلے اور یہ دن دیکھنا پڑا۔ ہمارے ایک سینئر اخبار نویس عبداللہ ملک کا تکیہ کلام ہوا کرتا تھا کہ ''اور لطف یہ ہے‘‘ چنانچہ ایک واقعہ رپورٹ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ فلاں جگہ پر ایک گٹر پر ڈھکنا نہ ہونے کی وجہ سے ایک بچہ اُس میں گر کر ہلاک ہو گیا۔ اور لطف یہ ہے کہ چند روز پہلے بھی ایک بچہ اسی گٹر میں گر کر ہلاک ہو چکا ہے۔ سو‘ ہم بھی یہی کہنا چاہتے تھے کہ لطف یہ ہے کہ اس سارے معاملے کا پورا پورا کریڈٹ عمران خان کو مل رہا ہے!اگرچہ یہ معاملہ ابھی مزید طول کھینچے گا کیونکہ چیف الیکشن کمشنر ہوں یا نیب‘ تاخیری حربوں کا استعمال بھی بعیداز قیاس نہیں ہے‘ تاہم زود یا بدیر یہ فیصلہ انہیں کرنا ہی پڑے گا کیونکہ یہ معاملات سپریم کورٹ کی طرف سے بھجوائے گئے ہوں گے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سپریم کورٹ یہ بھی قرار دے دے کہ دونوں اداروں کو یہ فیصلہ ایک مخصوص مدت میں نمٹانا ہو گا۔اور‘ اگر مریم نواز بھی اس کی زد میں آتی ہیں تو یہ صدمہ نہ صرف وزیراعظم کے لئے سوہان روح ہو کر رہ جائے گا بلکہ کوئی بھی فرد اس پر دکھی ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا اور اگر یہ مسئلہ بالآخر اسی طرح سے انجام پذیر ہوتا ہے تو نون لیگ کو ہی نہیں‘ پوری قوم کو اس پر سوگ منانا چاہیے کیونکہ وزیراعظم سیاسی طور پر ہار جاتے تو یہ الگ بات تھی لیکن اس طرح جانا پوری قوم کے لئے افسوسناک ہو گا اگرچہ سیاست اس قدر ظالم چیز ہے کہ ایسے جذبات کا اس کے ہاں کوئی گزر نہیں ہے اور مخالفین اسے بھی اپنی سیاسی فتح ہی سے تعبیر کریں گے۔ افسوس‘ صد افسوس...!!
آج کا مقطع
ہاتھ آنکھوں پر رکھے گھر سے نکلتا ہوں‘ ظفر
کیا بتائوں کُوچہ و بازار کا رنگ کیا ہے