19 جولائی کوسیالکوٹ میں مسلم لیگ نواز کے عہدیداروں اور کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم میاں محمد نواز شر یف کا کہنا ہے کہ میرے دل میں قوم کا بہت درد ہے اگرقوم کا درد ان کے دل میں نہ ہوتا تو امریکی صدر بل کلنٹن کی جانب سے پانچ ارب ڈالر کی آفر ٹھکراکر پانچ ایٹمی دھماکے نہ کرتا‘‘ ۔جناب نواز شریف آپ کا دعویٰ سر آنکھوں پر لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ یہ آدھا سچ ہے جو آپ نے سیالکوٹ میں اپنے جانثار کارکنوں کو بتایا ہے اس لئے بقیہ آدھا سچ اپنے اس مضمون کے ذریعے قارئین تک پہنچانے کی جسارت کر رہا ہوں۔ جناب وزیر اعظم آپ کی مسلم لیگ نون کو اگر یاد رہ گیا ہوتو بہت ہی اچھا ہے لیکن اگر آپ کے یہ جانثار بھول چکے ہیں تو ان کو یاد کرائے دیتے ہیں: جمعہ22 مئی1998 کی رات دس بجے آپ کی امریکی صدر بل کلنٹن سے ہونے والی ٹیلیفونک گفتگو کی ریکارڈنگ جس کی کاپی آج بھی آپ کے علا وہ طارق فاطمی کے پاس محفوظ ہو گی ایک بار پھر سننے کی کوشش کیجئے تاکہ آپ کو بھولی بسری باتیں یاد کرنے میں آسانی ہو جائے ۔
امریکی صدر بل کلنٹن سے دس مئی کی رات فون پر ہونے والی گفتگو کا ایک ایک لفظ آپ کے اور اس قوم کے سامنے رکھتا ہوں تاکہ فیصلہ ہو سکے کہ وہ کون سے پانچ ارب ڈالر تھے جو وہ آپ کو ایٹمی دھماکے نہ کرنے پر بطور '' انعام‘‘ دینے کی پیشکش کر رہے تھے ؟۔ آپ نے بائیس مئی رات دس بجے امریکی صدر بل کلنٹن سے اپنی بات چیت کا آغاز کرتے ہوئے کہا۔'' نیک خواہشات اور آداب‘ جس پر امریکی صدر بولے جناب پرائم منسٹر شکریہ! آپ کے مزاج کیسے ہیں سوموار کو آپ سے ہونے والی گفتگو کے بعد بہت مصروف رہا ؟ آپ نے بل کلنٹن سے کہا ۔۔۔۔ آپ کا بہت بہت
شکریہ! مجھے آپ سے یہ بھی کہنا ہے کہ آپ وہ واحد شخص ہیں کہ جو پاکستان میں بہت پسند کئے جاتے ہیں۔ مہربانی سے ہیلری کو میرا سلام کہئے گا۔ دو سال پہلے آپ کے دورہ پاکستان کی یادیں آج بھی تازہ ہیں۔ جناب صدر اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے دیئے گئے ایجنڈے پر عمل کیا جائے تواس کیلئے میرا پاکستان میں وزیر اعظم رہنا بہت ہی ضروری ہے کیونکہ یہاں پاکستان میں اپوزیشن لیڈر بے نظیر بھٹو میرے لئے بہت سی مشکلات پیدا کرنے کے علا وہ میرے استعفے کا مطالبہ بھی کر رہی ہیں‘‘۔ لیکن مجھے امید ہے کہ میں اس دبائو کا مقابلہ کرنے کی ہمت رکھتا ہوں۔( سوال یہ ہے کہ امریکی صدر بل کلنٹن نے فون پر میاں نواز شریف کو وہ کونسا ایجنڈا تفویض کیا تھا جسے پورا کرنے کی وہ درخواست کر رہے تھے کہ مجھے پاکستان کا و زیر اعظم رہنے دیں؟۔)جب آپ نے فون پر اپنے عہدے پر قائم رکھنے کی درخواست کی تو آپ کو یاد ہو گا کہ اس پر بل کلنٹن نے کہا تھا'' کچھ چیزیں جن کے بارے میں ہم نے آج بات کی ہے آپ کو اپوززیشن لیڈر بے نظیر بھٹو کے ساتھ بات کرنے میں مدد گار ثابت ہوں گی‘‘۔ جس پر آپ نے بل کلنٹن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا جناب صدر میں آپ سے پھر رابطہ کروں گا۔اب بات کرتے ہیں اس مشہور نعرے کی جانب جس کا اب تک نہ جانے کتنی مرتبہ تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ '' ہم نے امریکی صدر بل کلنٹن کی جانب سے ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے عوض پانچ ارب ڈالر ٹھکرا دیئے۔۔۔حضور والا اس کی تصدیق کیلئے آپ کی اسی گفتگو کے اگلے حصے کی جانب چلتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ کیا امریکہ پاکستان کو واقعی پانچ ارب ڈالر اپنی جانب سے دے رہا تھا ؟ کیا امریکی صدر بل کلنٹن ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے بدلے میں یہ پانچ ارب
ڈالر پاکستان کو تحفے میں دینے کی بات کر رہا تھا؟۔ان پانچ ارب ڈالر کی حقیقت جناب والا آپ کی اسی جمعۃ المبارک کی رات دس بجے ہونے والی ٹیلیفونک گفتگو کی ریکارڈنگ کے مطا بق اس طرح سے ہے کہ جب امریکی صدر بل کلنٹن آپ سے کہتے ہیں'' اگر آپ ایٹمی دھماکے نہیں کرتے تو مجھے یقین ہے کہ مستقبل میں پاکستان کی سب سے بڑی سکیورٹی کا انحصار پاکستان کی مضبوط معیشت پر ہو گا میں نے اپنے محکمہ خزانہ کو ہدایت جاری کر دی ہے کہ وہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں خاص طور پر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے رابطہ کر کے ان کے وسائل تک آپ کی رسائی ممکن بنائیں اور قابل اعتماد اقتصادی اصلاحی پروگرام کیلئے آپ کی مدد کریں۔ ہمیں امید ہے کہ اگلے تین سال کے دوران تین سے پانچ بلین ڈالرز کے سرمائے کی اقتصادی معاونت آپ تک پہنچ سکتی ہے۔
اگر آپ کو اس کے علا وہ کوئی باہمی اقتصادی تعاون کی ضرورت ہو تو ہم ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ ایجنسی یا اوورسیز پرائیویٹ انویسٹمنٹ کارپوریشن سے بھی بات کر سکتے ہیں‘‘۔۔۔۔ بل کلنٹن اور میاں نواز شریف کے درمیان ہونے والی گفتگو کو یہاں پر روک کر ایک سوال : کہ قرضہ لینا کون سا مشکل ہے؟اگر کسی کے پاس زیور ہے تو وہ کسی بینک کے پاس اسے گروی رکھ کر قرضہ لے سکتا ہے کسی کے پاس زمین یا مکان ہے تو وہ بھی قرضہ حاصل کر سکتا ہے۔۔۔کیا یہ ایٹمی معاہدے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی جانب سے قرضوں کی صورت میں ان پانچ ارب ڈالر وںکے عوض روکے جا رہے تھے جو اگلے تین سال کے دوران ملنے کی توقع تھی؟۔
جناب وزیر اعظم! بل کلنٹن سے گفتگو کرتے ہوئے جب آپ نے پاکستان پر واجب قرضوں کی معافی کی بات کی تو انہوںنے آپ کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں کہا تھا'' میں آپ کو کچھ قرضے معاف کرنے کے امکانات پر بھی غور کر رہا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں یہ کرنا چاہئے ؛ تاہم امریکی قانون کے مطا بق مجھے کانگریس سے اس کی منظوری لینی پڑے گی۔ پچھلے 72 گھنٹوں مجھے اتنا وقت نہیں مل سکا کہ میں اس معاملے پر کانگریس کا رد عمل دیکھ سکوں۔اس لئے میں وعدہ نہیں کر سکتا کہ میں یہ کر سکوں گا۔۔۔ہاں جو میں آپ سے وعدہ کر سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں اس کی سفارش کروں گا اور کوشش کروں گا کہ اس کو کانگریس سے منظور کرا سکوں لیکن پھر کہہ رہا ہوں اس کیلئے آپ کو کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا۔ ا س کیلئے میں سینیٹ میں اکثریتی پارٹی کے رہنما ٹرینٹ لاٹ سے بات کروں گا عام حالات میں جب میں اور سینیٹر ٹرینٹ لاٹ ایک طرف ہوں تو ہمیں سینیٹ میں کامیابی مل جاتی ہے مگر ہمیشہ ایسا نہیںہوتا۔
بل کلنٹن نے آپ سے کہا'' اگر پریسلر ترمیم کی منسوخی کی بات کریں تو ہماری یہ درخواست سینیٹ سے گزر کر منسوخ ہو گی تو ہمیں کانگریس میں بھی اس سلسلے میں کامیابی ہونی چاہئے مگر۔۔۔۔ میں آپ کو اس بات کی گارنٹی نہیں دے سکتا کیونکہ کل ہی میں اور سینیٹر ٹرینٹ لاٹ کسی نقطے پر ہم خیال تھے مگر بد قسمتی سے ہمیں سینیٹ میں کامیابی نہ مل سکی؟۔۔۔۔جناب وزیر اعظم آپ خو د ہی فیصلہ کر لیں کہ ایٹمی دھماکے نہ کرنے پر بطور انعام بل کلنٹن نے کون سے پانچ ارب ڈالر فوری طور پر مفت میں پاکستان کے خزانے میں جمع کرانے کی بات کی تھی ۔۔۔۔بحیثیت وزیر اعظم آپ نے حلف اٹھاتے ہوئے قوم سے سچ بولنے کا عہد کر رکھا ہے ؟۔۔!!