''کہیے:اے اللہ! مُلک کے مالک ،تو جس کو چاہتا ہے مُلک (اقتدار)عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتاہے مُلک کوچھین لیتا ہے اور تو جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلت میں مبتلا کرتا ہے ، سب بھلائی تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے ، بے شک تو ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے ،تو رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور تو زندہ کو مردے سے نکالتا ہے اور مردے کو زندہ سے نکالتا ہے اور تو جس کو چاہے بے حساب رزق عطا فرماتا ہے ،(آل عمران:26-27)‘‘۔یعنی کائنات کا رواں دواں رہنا اور گردشِ لیل ونہار اللہ تعالیٰ کے قبضہ وقدرت میں ہے ۔مفسرین کرام نے زندہ کو مردے اور مردے کو زندہ سے نکالنے کے کئی معنی بتائے ہیں:بے جان انڈے سے جاندارچوزہ اور جاندار مرغی سے بے جان انڈا،بے جان بیج اور گٹھلی سے روئیدگی (Growing) کی حیات رکھنے والے نباتات اور نباتات سے بے جان غلّہ اور گٹھلی کا پیدا کیا جانا ، اس کے مختلف مظاہر ہیں۔ اسی طرح وہ بے نام ونشاں والدین سے نامی گرامی اولاد پیدا کرتا ہے اور نامی گرامی والدین سے بے نام اولاد پیدا کرتا ہے ۔اسی طرح بعض صورتوں میں مومن سے کافر اور کافر سے مومن پیدا فرماتا ہے ۔ ذرا سوچیے! اگر انسان خودپیدا کرنے اور باکمال بنانے پر قادر ہوتا تو باکمال افراد ایک ہی خاندان میں نسل در نسل چلے آتے اور بے کمال ہمیشہ بے کمال ہی رہتے ، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی سنتِ جاریہ نہیں ہے ،اسی لیے فرمایا: ''اور ہم(عزت وذلت اور فراخی وکشادگی کے اعتبار سے ) لوگوں کے درمیان ایام کو گردش دیتے رہتے ہیں ،(آل عمران:140)‘‘۔
پس دائمی عزت بھی کسی کی میراث نہیں ہے ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے(1):''(منافق کہتے ہیں:)اگر (اب)ہم مدینہ واپس آگئے تو ضرور عزت والا وہاں سے ذلت والے کونکال دے گا، حالانکہ عزت تو صرف اللہ کے لیے اور اُس کے رسول کے لیے اور اہلِ ایمان کے لیے ہے ،لیکن منافق نہیں جانتے، (المنافقون:8)‘‘۔(2)''اور منافقوں کو خبردیجیے کہ اُن کے لیے دردناک عذاب ہے اوروہ جو مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں ،کیا وہ کافروں کے پاس عزت تلاش کرتے ہیں، بے شک عزت ساری کی ساری اللہ کے لیے ہے،(النساء:138-139)‘‘۔الغرض اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسولِ مکرّم ﷺ کے نزدیک عزت کا مدار ومعیار ایمان اور تقویٰ یعنی کردار کی پاکیزگی پر ہے ، اہلِ دنیا کے نزدیک عزت وذلت کے معیار اپنے اپنے ہیں،حدیثِ پاک میں ہے:
''حضرت سہل بیان کرتے ہیں:(رسول اللہ ﷺ کی صحابۂ کرام کے ساتھ مجلس منعقد تھی کہ اس دوران)ایک شخص کا وہاں سے گزر ہوا،آپ ﷺ نے (حاضرینِ مجلس سے )فرمایا: اِس شخص کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟، انہوں نے عرض کی: یہ (معزز آدمی )اس لائق ہے کہ (کسی کے ہاں )نکاح کا پیغام دے تو اُسے قبول کیا جائے اور اگر یہ کسی کی سفارش کرے تو اُسے مان لیا جائے اور اگر یہ کوئی بات کہے تو اُسے توجہ سے سنا جائے ، راوی بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ خاموش رہے ، پھر وہاں سے ایک نادار مسلمان کا گزر ہوا تو آپ نے فرمایا: اِس شخص کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ ، انہوں نے عرض کی: یہ (معمولی آدمی )اس لائق ہے کہ (کسی کے ہاں) نکاح کا پیغام دے تو اُسے رد کردیا جائے اور اگر یہ کسی کے حق میں سفارش کرے تو اُسے نہ مانا جائے اور اگر یہ کوئی بات کہے تو اُسے توجہ سے نہ سنا جائے ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (تھوڑی دیر پہلے تم جس شخص کی بہت تعریف کر رہے تھے) اُس جیسے لوگوں سے اگر اللہ کی زمین بھر دی جائے ،تو اُن سب کے مقابلے میں یہ (اللہ تعالیٰ کے نزدیک )افضل ہے، (صحیح البخاری:5091)‘‘۔
فقراء صحابہ کرام سعد بن ابی وقاص، صہیب، عمّار، مقداداور بلال رضی اللہ عنہم حضور کی مجلس میں اکثر بیٹھا کرتے تھے۔ قریش کے بعض سرداروں نے یہ خواہش ظاہر کی کہ اگر آپ ہمارے لیے ایک وقت مخصوص کردیں ، جس میں یہ خستہ حال لوگ نہ ہوں ، تو ہم آپ کی بات سن لیں گے، لیکن ان کے ساتھ برابری کی سطح پر بیٹھنا ہماری شان کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا(1): ''اور (اے رسول!) آپ اپنے آپ کو اُن لوگوں کے ساتھ روکے رکھیے جو اپنے رب کی رضا کے لیے صبح وشام اُس کی عبادت کرتے ہیں اور آپ اُن سے اپنی نظریں نہ ہٹائیں، (الکہف:28)‘‘۔(2):''اور (اے رسول!)آپ اُن (مساکین اہلِ ایمان) کو (اپنے سے) دور نہ کیجیے جو اپنے رب کی رضا کے لیے صبح وشام اُسے پکارتے ہیں، (الانعام:52)‘‘۔حضرت خباب بیان کرتے ہیں: (اس کے بعد)ہم نبی ﷺ کے ساتھ مجلس میں بیٹھے ہوتے اور جب آپ کی مجلس کے برخاست ہونے کا وقت آتا ، تو ہم خود کھڑے ہوجاتے اور رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ دیتے یہاں تک کہ آپ مجلس سے اٹھ کر چلے جاتے، (سنن ابن ماجہ:4127)‘‘۔ یعنی اس کے بعدنبی ﷺ ان مساکین صحابۂ کرام کی دلداری فرماتے اور خود انہیں اپنے پاس سے اٹھنے کے لیے نہیں کہتے تھے ، لیکن صحابۂ کرام خود آپ کے مزاج اور معمولات کا خیال رکھتے تاکہ طویل مجلس آپ کی طبیعت پر گراں نہ گزرے۔
سورۂ مجادلہ کی ابتدائی چارآیات کا سبب نزول ایک صحابیہ حضرت خولہ بنت ثعلبہ کو درپیش مسئلہ تھا ،وہ فریاد کرتی رہیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے ظہار کا حکم بیان فرماکرزمانۂ جاہلیت کے تصورِ ظہارکی نفی فرمائی،اللہ تعالیٰ نے فرمایا:''(اے رسول !)بے شک اللہ نے اُس عورت کی بات سن لی جو اپنے خاوند کے بارے میں آپ سے بحث کر رہی تھی اور اللہ سے فریادکر رہی تھی اور اللہ تم دونوں کی گفتگو کو سن رہا تھا، بے شک اللہ بہت سننے والا خوب دیکھنے والا ہے،(المجادلہ:1)‘‘۔بعض لوگ سبب نزول کو نہیں مانتے ، لیکن ان آیات میں اور تحویل قبلہ کے موقع پرنازل ہونے والی آیات میں اللہ تعالیٰ نے خود سبب نزول کو بیان فرمایا۔ اس واقعے نے حضرت خولہ بنت ثعلبہ کو بلند مرتبہ عطا کیا۔
امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب اپنے عہدِ خلافت میں کچھ لوگوں کے ہمراہ اپنی سواری پر جارہے تھے کہ ایک بوڑھی عورت نے اُن کو روک لیا اور کافی دیر تک انہیں وعظ کرتی رہیں۔ اس نے کہا: عمر!(بچپن میں پیار سے)تمہیں عمیر کہاجاتا تھا، پھرتمہیں عمر کہاجانے لگااور اب تمہیں امیر المومنین کہا جاتا ہے ۔ اللہ سے ڈرتے رہو ،کیونکہ جسے موت کا یقین ہو ،وہ آخرت سے غافل نہیں ہوتا اور جسے اُخروی حساب کا یقین ہو، وہ عذاب سے ڈرتا رہتا ہے ۔حضرت عمر کافی دیر رک کر اُن کی بات سنتے رہے ، کسی نے اُن سے کہا: امیر المومنین! آپ اس بڑھیا کے لیے اتنی دیر سے رکے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! اگر یہ مجھے صبح سے شام تک روکے رکھے تو بھی میں رکا رہوں گا، بس فرض نماز کے لیے ان سے اجازت لوں گا۔ تمہیں اس بڑھیا کا مرتبہ معلوم ہے ؟، یہ خولہ بنت ثعلبہ ہیں جن کی فریاد کو اللہ نے سات آسمانوں کے پار سن لیا ، رب العالمین اس کی فریاد کو سنے اور عمر نہ سنے (یہ کیسے ہوسکتا ہے)، (تفسیر قرطبی ، المجادلہ:1)‘‘۔
لوگ ایوانِ اقتدار کو ''دارُ العزت‘‘سمجھ لیتے ہیں ،حالانکہ در حقیقت ایسا نہیں ہے ،عزت اور ذلّت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، کوئی ایوانِ اقتدار میں بیٹھے ہوئے بھی بے آبرو ہوجاتا ہے اور کوئی بے اختیار ہوتے ہوئے بھی عزت سے سرفراز ہوتا ہے ، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے ،جو سب سے زیادہ متقی ہے، (الحجرات:13)‘‘۔
عزیزِ مصر کی بیوی نے یوسف علیہ السلام کودعوتِ گناہ دی ، مگر انہوں نے اپنے دامن کو اس گناہ میں مبتلا ہونے سے بچالیا ، عزیزِ مصر کی بیوی نے کہا: ''اور اگر اس نے وہ کام نہیں کیا جو میں نے اس سے کہا ہے ،تو اُسے قید میں ڈال دیا جائے گا اور وہ بے توقیر لوگوں میں سے ہوجائے گا، یوسف علیہ السلام نے کہا:اے میرے رب! جس گناہ کی طرف وہ مجھے دعوت دے رہے ہیں ،اُس سے میرا قید ہوجانا مجھے زیادہ پسند ہے اور اگر تو نے اُن کی سازش مجھ سے دور نہ کی تو میں اُن کی طرف مائل ہوجائوں گا اور میں (خدانخواستہ) نادانوں میں سے ہوجائوں گا،پس اُن کے رب نے اُن کی دعا قبول کی اور اُن عورتوں کا مکراُن سے پھیر دیا ، بے شک وہ خوب سننے والا جاننے والا ہے، (یوسف:32-34)‘‘۔حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنی اس پارسائی پر تعلّی کا اظہار نہیں کیا ، بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کا فضل قرار دیتے ہوئے انتہائی عَجز وانکسار کے ساتھ فرمایا: ''اور میں اپنے نفس کی پارسائی کا دعویٰ نہیں کرتا ، بے شک نفس تو برائی کا بہت زیادہ حکم دینے والا ہے، سوائے اس کے جس پر میرا پروردگار رحم فرمائے(وہ فریبِ نفس سے بچ جاتا ہے)، (یوسف:53)‘‘۔ رسول اللہ ﷺ تعلیمِ امت کے لیے دعاکیا کرتے تھے :
''اے اللہ! میں بے بسی ،سُستی ، بزدلی ، بخل ،(معذوری والے) بڑھاپے اور عذابِ قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اے اللہ! میرے نفس کو اُس کا تقویٰ عطا فرما اور اُسے( ناپسندیدہ خواہشات سے )پاک فرما ، تو ہی نفس کو (ہر طرح کی میل سے) پاک فرمانے والا ہے ، تو اس کا مددگار اور کارساز ہے ، اے اللہ! میں ایسے علم سے جو نفع نہ دے اور ایسے دل سے جس میں تیرے لیے عاجزی نہ ہو اور ایسے نفس سے جو کبھی سیر نہ ہو اور ایسی دعا سے جو قبول نہ ہو، تیری پناہ چاہتا ہوں،(صحیح مسلم:2722)‘‘۔