تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     22-07-2017

آر پار ٹھنڈا ٹھار!

اگر آپ یہ سمجھ کر خوش ہیں کہ انوکھے معاملات میں آپ اور ہم نے من حیث القوم انفرادیت برقرار رکھی ہے تو زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔ پڑوسیوں نے عبرت ناک حد تک انوکھے معاملات میں ہمیں پچھاڑنے، نیچا دکھانے کی قسم کھا رکھی ہے۔ نا اہلی اور کرپشن پر جو لوگ بہت فخر کرتے ہیں وہ ذرا (اپنے) گریبان میں جھانکیں اور دیکھیں کہ اُن کے پاس ہے کیا جس پر وہ اس قدر اِترا رہے ہیں۔ اور پھر ذرا پڑوس کا جائزہ لیں تو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوجائے گا۔ 
ایک زمانے سے ہمارے ہاں گھوسٹ اسکول ہیں۔ یہ اصطلاح بھی خوب ہے۔ گھوسٹ اسکول وہ ہیں جو دراصل نہیں ہیں یعنی صرف کاغذات میں ہیں۔ اِسی کیفیت کو غالبؔ نے یوں بیان کیا ہے ع 
ہرچند کہیں کہ ہے، نہیں ہے! 
ہماری، آپ کی خون پسینے کی کمائی کے لیے یہ اسکول واقعی بھوت کی طرح ہیں۔ جس طرح بھوت کا خوف ہمارا سکون غارت کردیتا ہے بالکل اُسی طرح گھوسٹ اسکول ہماری محنت کی کمائی سے چمٹ جاتے ہیں، انہیں چٹ کر جاتے ہیں اور ڈکار بھی نہیں لیتے۔ ہم نے سندھ میں ایسے سرکاری اسکول دیکھے ہیں جن میں ٹیچر تو مطلوبہ معیار اور تعداد کے مطابق ہیں مگر بچے برائے نام ہیں۔ کہیں کہیں تو ایسا بھی ہے کہ ٹیچرز کی تعداد بچوں سے زیادہ ہے! مگر خیر، اِتنا تو ہے کہ بچے اسکولز کی حدود میں پائے جاتے ہیں۔ پاکستان سے متصل بھارتی ریاست راجستھان کے ضلع سیکر کا گاؤں پرتاپ پورہ اس اعتبار سے منفرد ہے کہ وہاں کے ایک اسکول میں ٹیچرز تو ہیں مگر ایک بھی بچہ نہیں۔ 
چھوٹی سی عمارت میں بنے ہوئے گورنمنٹ اپر سنسکرت اسکول میں 6 کلاس روم ہیں جن پر دن بھر سنّاٹے کا راج رہتا ہے۔ یہی حال کھیل کے میدان کا بھی ہے۔ اس اسکول میں چار ٹیچرز تعینات ہیں جو صبح آٹھ بجے آ تو جاتے ہیں مگر پھر ڈیوٹی کا وقت ختم ہونے تک بیزاری کے تالاب میں غوطے لگاتے رہتے ہیں! 
یہ سرکاری اسکول ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ 1998 میں قائم کیے جانے والے اس اسکول میں 2005 تک 55 طلباء تھے۔ پھر اُن کی تعداد کم ہوتی گئی۔ 2016 میں 4 بچے رہ گئے اور سال کے آخر تک والدین نے اُنہیں نکال لیا۔ اب یہ اسکول بچوں سے محروم ہے۔ چاروں ٹیچرز بہت پریشان اور شرمندہ ہیں۔ اُنہیں کچھ نہ کرنے کی تنخواہ مل رہی ہے۔ وہ اپنی جاب سے خوش نہیں مگر کیا کریں، سرکاری معاملہ ہے۔ اُنہوں نے اسکول کی صورت حال کے بارے میں متعلقہ حکام اور محکمہ تعلیم کو بھی لکھا ہے مگر صورت حال کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ چاروں اساتذہ چاہتے ہیں کہ دوسرے اسکولز سے طلباء کو یہاں ٹرانسفر کردیا جائے یا پھر خود اُن کا دوسرے اسکولز میں ٹرانسفر کردیا جائے۔ 
ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ چاروں ٹیچرز اصلاً سنسکرت زبان کے ہیں۔ یہ زبان بھارت کی تاریخ و تہذیب کی امین ضرور ہے مگر اب اِس کی بظاہر کسی کو ضرورت نہیں۔ بھارت میں سنسکرت سیکھنے کے خواہش مند انگلیوں پر شمار کیے جاسکتے ہیں۔ ایسے میں کوئی بھی سرکاری اسکول اِن اساتذہ کو قبول کرنے میں دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کر رہا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سنسکرت کے ٹیچرز کی طلب نہیں ہے تو اُنہیں کسی اور مضمون کی تدریس کی تربیت دے کر خدمت لی جائے۔ مگر جناب، یہ تو ہم اور آپ سوچ سکتے ہیں۔ سرکاری معاملات میں جو سیاہ و سفید کے مالک ہیں اُنہیں کیا غرض پڑی ہے کہ اِتنا سوچیں اور اپنی جان کو ہلکان کریں! 
سوال صرف راجستھان کا نہیں، دیگر بھارتی ریاستوں کا بھی ہے۔ ہماری طرح وہاں بھی تعلیمی معاملات حیرت انگیز اور شرمناک حد تک ٹھنڈے ٹھار ہی چل رہے ہیں۔ اتر پردیش ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے اور سب سے ناکارہ تعلیمی نظام بھی اتر پردیش ہی میں پایا جاتا ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اتر پردیش میں ایسے سیکڑوں سرکاری اسکول ہیں جہاں طلباء کی تعداد انتہائی کم ہے۔ بعض اسکولز میں ایک درجن طلباء کی بھی انرولمنٹ نہیں۔ تعلیم کا محکمہ ایسے اسکولز کو بند کرکے ٹیچرز کو دیگر فعال اسکولز میں ٹرانسفر کرنے کی کارروائی کا اعلان کرتا ہے تو اساتذہ کی انجمنیں اپنے ارکان کے ''مفادات‘‘ کے تحفظ کے لیے میدان میں نکل آتی ہیں! بیشتر اساتذہ شرمناک رویّے کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹرانسفر کی راہ میں دیواریں کھڑی کرنے لگتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اِن ناکارہ و غیر فعال اسکولز ہی میں تعینات رہیں اور مفت کی روٹیاں توڑتے رہیں۔ راجستھان کے اِن چاروں اساتذہ کی عظمت کو سلام کرنا پڑے گا کہ کوئی طالب علم نہ ہونے پر وہ مفت کی روٹیاں توڑنے پر ٹرانسفر کیے جانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ مگر شاید راجستھان کے محکمۂ تعلیم نے اتر پردیش سے کچھ نہ کچھ ''سیکھا‘‘ ہے اور اِسی لیے چاروں اساتذہ کے ٹرانسفر میں ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے۔ 
راجستھان اور سندھ جُڑے ہوئے ہیں۔ سندھ کے متعدد دیہی علاقوں میں ایسے اسکولز بڑی تعداد میں ہیں جن میں طلباء گنجائش سے کہیں کم ہیں۔ ایسا ایک اسکول ہمارے علم میں بھی ہے جس میں تین اساتذہ اور دو طلباء ہیں۔ یعنی راجستھان اور سندھ محض جغرافیائی طور پر ہی جُڑے ہوئے نہیں ہیں بلکہ ''علمی‘‘ حوالے سے بھی ایک پیج پر آگئے ہیں! 
اُدھر ''چمکتا دمکتا بھارت‘‘ کی گردان ہے اور اِدھر ''نیا پاکستان‘‘ کی رٹ۔ دونوں ممالک ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہونے کے باوجود بہت مختلف ہیں۔ سوچ کا فرق نمایاں ہے مگر اب یہ دیکھ کر دل کو تھوڑی سی خوشی ضرور ہونی چاہیے کہ آگے بڑھنے (!) کی سوچ کے حوالے سے دونوں ایک پیج پر ہیں! یعنی دونوں ہی نے طے کر رکھا ہے کہ تمام بنیادی معاملات میں ایسی سوچ اور رویّہ اپنانا ہے کہ دنیا دیکھے تو حیران رہ جائے اور لاکھ سوچنے پر بھی کچھ سمجھ نہ پائے کہ اکیسویں صدی میں دسویں یا بارہویں صدی کی سوچ کے ساتھ کس طور جیا جاسکتا ہے! اتر پردیش کے غیر فعال اسکولز کے اساتذہ کو ٹرانسفر کرنے کا معاملہ اٹھا تو اساتذہ کی انجمنیں ''اصولی‘‘ اور ''نظریاتی‘‘ جنگ لڑنے میدان میں نکل آئیں۔ پورے یقین سے اور بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے ہاں بھی اگر غیر فعال اسکولز میں فارغ بیٹھے ہوئے اساتذہ کو کہیں اور تعینات کرنے کی بات کی جائے گی تو اساتذہ کی انجمنیں ویسی ہی ''اصولی‘‘ اور ''نظریاتی‘‘ جنگیں لڑنے میدان تک آنے میں دیر نہیں لگائیں گی! 
پاکستان ہو یا بھارت، سرکاری اسکولز میں تدریس کا معیار ویسے ہی گیا گزرا ہے۔ ایسے میں اگر اساتذہ اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر مفت خوری کو ترجیح دیں تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نئی نسل کو کس بات کے لیے تیار کیا جارہا ہوگا! جو خود کام پر ذرا یقین نہ رکھتے ہوں اور مفت کی روٹیاں توڑنے پر جن کا بھرپور اعتقاد ہو وہ نئی نسل کو کیسی زندگی کے لیے تیار کریں گے، اُس میں کس نوعیت کا جذبہ پروان چڑھائیں گے؟ ایسے اساتذہ کے ہاتھوں ''تیار‘‘ ہونے والی نئی نسل کی پوری زندگی کا اجمالی تاثر ویسا ہی ہوگا جیسا کسی اُجڑے ہوئے، غیر فعال سرکاری اسکول کا ہوتا ہے! 
بھارتی سرکاری اسکول اگر ہمارے سرکاری اسکولز کی برابری پر تُلے ہوئے ہیں تو ہمیں مسابقت جاری رکھنے کی ضرورت نہیں۔ اچھا ہے کہ ہم یہ مقابلہ ہار جائیں! نیا پاکستان تو جب بنے گا تب بنے گا، ابتدائی مرحلے میں ہمیں اسکولز کو نیا بنانے پر خاطر خواہ توجہ دینا ہوگی۔ اگر اتنا بھی ہو پائے تو سمجھ لیجیے کہ ہم بھر پائے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved