ایک شخص ایک ایک اونٹ اور بکری لئے فائیو سٹار ہوٹل میں گیا اور انتظامیہ سے کہا کہ یہ دونوں گانا بہت اچھا گاتے ہیں‘ اگر آپ چاہیں تو انہیں خرید سکتے ہیں۔ ہوٹل انتظامیہ نے اس میں دلچسپی ظاہر کی اور ہال میں اس کا انتظام کیا گیا اور ہوٹل میں مقیم مہمانوں کو بھی وہاں بٹھا دیا گیا۔ اونٹ اور بکری نے اس خوبصورتی سے گایا کہ ہال بہت دیر تک تالیوں سے گونجتا رہا۔ ہوٹل انتظامیہ نے معاملہ طے کر کے دونوں جانور خرید لئے۔ لین دین کے بعد وہ شخص جب جانے لگا تو بولا کہ ڈیل تو مکمل ہو گئی ہے لیکن میں ایک بات آپ کو بتانا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ گانا بکری گاتی ہے جبکہ اونٹ صرف ہونٹ ہلاتا ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حکومت کسی حد تک کابینہ اور خاصی حد تک بیورو کریسی چلاتی ہے اور نام وزیراعظم کا ہو جاتا ہے حالانکہ اس گانے میں وزیراعظم صرف ہونٹ ہلا کر یہ ظاہر کرتا ہے کہ گانے میں وہ بھی شامل ہے۔ بیورو کریسی چونکہ کرپٹ ہوتی ہے وہ وزیراعظم کو بھی خواہ وہ کرپٹ نہ ہو‘ تو بھی اس راستے پر ڈال لیتی ہے تاکہ دونوں کی گاڑی چلتی رہے۔ تاہم پاناما کیس کا گانا صرف وزیراعظم کے وکیلوں نے گایا اور انگریزی محاورے کے مطابق جس طرح بہت سے باورچی پکوان کو خراب کر دیتے ہیں‘ یہاں بھی یہی
کچھ ہوا ہے اور پکوان بھی ایسا تیار ہوا کہ کھانے کے قابل ہی نہیں رہا اور وکلاء حضرات اپنی غلطیاں ایک دوسرے پر ڈالتے رہے۔ منقول ہے کہ ایک شخص کے ہاتھوں قتل ہو گیا تو اس نے وکیل کی خدمات حاصل کرتے ہوئے اسے کہا کہ وہ اسے پھانسی سے بچا لے۔ عمر قید کی کوئی بات نہیں۔ مقدمہ شروع ہوا تو وہ ہر پیشی پر وکیل صاحب کو عمر قید والی بات یاد دلاتے۔ مقدمہ ختم ہوا تو اسے عمر قید کی سزا ہو گئی۔ کمرہ عدالت سے باہر نکلتے ہوئے اس نے وکیل صاحب کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے عمر قید والا وعدہ پورا کر دکھایا۔ جس پر وکیل صاحب بولے۔''میں نے بڑی مشکل سے تمہیں عمرقید کروائی ہے‘ جج صاحب تو تمہیں صاف ہی بری کر رہے تھے‘‘ سو‘ کیس پہلے ہی خراب تھا جسے وکیل صاحبان نے مزید بگاڑ کر رکھ دیا ہے اور ظفر حجازی صاحب کی ضمانت منسوخ ہو کر گرفتاری ہو چکی ہے کہ ان کے ماتحت افسروں نے اصرار کیا ہے کہ ریکارڈ میں گڑبڑ انہوں نے اپنے چیف حجازی صاحب کے کہنے پر کی۔ اب ایف آئی اے ان سے یہ دریافت کرے گی کہ ریکارڈ میں گڑ بڑ انہوں نے کس کے کہنے پر‘ یا کسے خوش کرنے کے لئے کی تھی تو زیادہ امکان یہی ہے کہ اپنی جان چھڑانے کے لئے وہ بھی وزیراعظم کے خلاف سلطانی گواہ بن جائیں گے۔ ادھر حدیبیہ پیپر مل والا کیس دوبارہ کھل رہا ہے جس میں
یہ تلوار سارے خاندان کے سر پر لٹکتی نظر آ رہی ہے جبکہ مریم نواز کا معاملہ بھی صاف نہیں ہوا ہے اور مرے پر سو دُرے‘ کے مصداق فونٹ والا معاملہ بھی کھل کر سامنے آ چکا ہے۔
میں معزز طبقۂ وکلا کے خلاف نہیں ہوں۔ ہو بھی نہیں سکتا کہ میں خود لاہور ہائیکورٹ بار کا رکن ہوں اور یہ حضرات نااہل بھی نہیں تھے کیونکہ سبھی بیرسٹر تو ضرور تھے۔ لیکن جب برے دن آتے ہیں تو اچھے اچھوں کی مت ماری جاتی ہے‘ اور یہ بھی لگ رہا ہے کہ وزیراعظم‘ جواب بھی مستعفی ہونے پر تیار نظر نہیں آ رہے‘ انہوں نے عدالتی ''شہید‘‘ ہونے کو ہی ترجیح دے رکھی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ انہیں اب بھی کسی معجزے کے رونما ہونے کا انتظار ہو۔منقول ہے کہ ایک صاحب بیمار رہنے کے بعد انتقال کر کے عالم بالا میں پہنچے اور جب اُن کا حساب کتاب دیکھا گیا تو فرشتے نے اُن سے کہا۔''ہماری کتابوں کے مطابق تمہیں ابھی مرنا نہیں چاہیے تھا‘ تمہارا ڈاکٹر کون تھا؟‘‘ تاہم‘ وزیراعظم صاحب سے یہ ضرور پوچھا جائے گا اور شاید لوگ پوچھ بھی رہے ہوں کہ آپ کا وکیل کون تھا بلکہ پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں‘ سب کچھ سامنے ہے۔ بہرحال یہ تو طے ہے کہ ان حضرات نے گانا ٹھیک طرح سے نہیں گایا‘ اس سے تو اچھا تھا کہ شیخ رشید کی طرح وزیراعظم بھی اپنا کیس خود ہی لڑ لیتے اور اس انجام کو نہ پہنچتے جو صاف نظر آ رہا ہے۔
منقول ہے کہ ایک شخص کا طویل بیماری کاٹنے پر جب آخری وقت آیا تو اس نے دیکھا کہ موت کا فرشتہ اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے آن پہنچا ہے اور اس کے سرہانے کھڑا ہے وہ خوفزدہ ہو کر اُٹھا اور پائنتی کی طرف جا لیٹا۔ اُس نے دیکھا کہ فرشتہ وہاں بھی آن پہنچا ہے۔ وہ پھر سرہانے کی طرف جا لیٹا لیکن پھر وہی کچھ ہوا۔ جب اس نے یہ عمل بار بار دہرایا تو گھر والوں نے سمجھا کہ موصوف کا دماغ چل گیا ہے‘ چنانچہ انہوں نے ایک مضبوط رسّہ لیا اور اُسے چارپائی کے ساتھ کس کر باندھ دیا تو وہ مایوس ہو کر بولا میں مرتا تو نہیں تھا‘ گھر والوں نے مجھے باندھ کر مار دیا ہے۔میاں صاحب بھی خاصے سخت جان واقع ہوئے ہیں جو اپنے موقف پر اب تک ڈٹے ہوئے تھے لیکن وکیلوں نے اُنہیں بھی چارپائی کے ساتھ باندھ دیا !
اور‘ اب خانہ پُری کے طور پر تازہ غزل :
یہی نہیں ہے کہ جو مل گیا غنیمت ہے
ہمیں ملا نہیں جو وہ جُدا غنیمت ہے
بہت سکوت ہے دل میں‘ کبھی کبھار مگر
جو لہر اُٹھتی ہے وہ بھی بسا غنیمت ہے
یہاں پہ وہ بھی نہ ہوتا تو لوگ کیا کرتے
وہ بے کسی ہے کہ اس میں خدا غنیمت ہے
پھٹی پرانی پتنگ اُڑ رہی ہے اپنی بھی
چلی ہوئی یہ مخالف ہوا غنیمت ہے
ہمارے زیرنظر ہے ابھی سلوک اُس کا
ابھی یہ کہہ نہیں سکتے ہیں کیا غنیمت ہے
ہم اُس کے عشق میں پورے بھی خرچ ہو جاتے
جو اتفاق سے کچھ بچ گیا‘ غنیمت ہے
ہم اس پہ چل کے دکھائیں گے اپنی حکمت سے
رواں نہیں بھی ہے تو راستا غنیمت ہے
یہ چند چور جو پکڑے گئے رنگے ہاتھوں
یہ ایک بار نہیں‘ بارہا غنیمت ہے
ظفرؔ سُنا ہے کہ اِس بے کنا ر صحرا میں
یہ بے صدا سی ہماری صدا غنیمت ہے
آج کا مطلع
یہ آدھا ہونے والا ہے‘ کہ سارا ہونے والا ہے
کسی کو بھی نہیں پکّی خبر‘ کیا ہونے والا ہے