پاکستان کی مذہبی جماعتوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک مذہبی جماعتوں نے مختلف محاذوں پر قابل قدر کامیابی حاصل کی۔ مسئلہ ختم نبوت کے حوالے سے دینی جماعتوں کے اتحاد کی وجہ سے وہ گروہ دائرہ اسلام سے خارج قرار پائے جو نبی کریمﷺ کو آخری نبی نہیں مانتے۔ اسی طرح دینی جماعتوں نے 73ء کے آئین کی تشکیل میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ تحریک نظام مصطفی میں دینی جماعتوں کے اتحاد نے اشتراک عمل کے ذریعے ملک میں سیکولرازم کے سامنے بند باندھ دیا۔ کئی دینی جماعتوں نے ملک میں سیاسی عمل کی بحالی کے لیے بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ جب بھی کبھی ملک میں مارشل لا لگا سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ دینی جماعتوںکے کارکنان نے بھی آئین اور قانون کی بحالی کے لیے مؤثر کردار ادا کیا اور مارشل لا کے خلاف برسر پیکار رہے۔ مذہبی جماعتوں نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاسپورٹ میں مذہب کے خانے کی بحالی کے لیے مشترکہ جدوجہد کی اور بالآخر وقت کے آمر کو دینی جماعتوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ بحال ہو گیا۔ حرمت رسولﷺ کے قانون کے حوالے سے جب بھی کبھی ملک میں ترمیمی بل لانے کی کوشش کی گئی دینی جماعتوں کے اشتراک عمل کی وجہ سے لادین اور سیکولر قوتوں کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔
پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر ایک سیکولر ریاست کے طور پر پیش کرنے کی کوششیں بھی دینی جماعتوں کے اشتراک عمل کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکیں۔ دینی جماعتیں اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے جہاں تبلیغ دین کا فریضہ انجام دیتی ہیں وہاں ملک کی سیاست میں بھی اپنی بساط کے مطابق اپنا اپنا کردار ادا کرتی رہتی ہیں۔ ملک کی دینی جماعتوں کے سیاسی اثرات قیام پاکستان سے لے کر اب تک ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں کم رہے ہیں‘ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جب بھی کبھی دینی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئیں ملک میں سیاسی اعتبار سے بھی انہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی؛ چنانچہ 1977ء میں پیپلز پارٹی کے مقابل بننے والے قومی اتحاد میں جہاں پر بعض سیاسی جماعتیں شامل تھیں وہاں قومی اتحاد میں بڑی تعداد میں دینی جماعتوں کی نمائندگی بھی موجود تھی۔ قومی اتحاد سیاسی اور عوامی اعتبار سے بہت مؤثر ثابت ہوا اور انتخابی دھاندلی کے الزامات کے بعد قومی اتحاد کی تحریک ہی کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔ دینی جماعتوں کا ایک موثر اتحاد متحدہ مجلس عمل کے نام سے 2002ء کے الیکشن سے قبل معرض وجود میں آیا۔ اس اتحاد نے 2002ء کے انتخابات میں ملک بھر میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں متحدہ مجلس عمل حکومت سازی میں کامیاب ہو گئی اور قومی اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت ہونے کے ناتے اپوزیشن گروپ کی حیثیت سے بھی اپنا کردار ادا کرتی رہی۔ متحدہ مجلس عمل کا اتحاد کلی طور پر تو عوام کی توقعات پر پورا اترنے میں کامیاب نہ ہو سکا‘ اس کے باوجود متحدہ مجلس عمل کے اتحاد کی وجہ سے ملک میں مثبت اور خوشگوار تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت کے دوران امن و امان کی صورتحال مثالی رہی۔ متحدہ مجلس عمل کے اتحاد نے جہاں سیاسی عمل کو آگے بڑھایا وہاں ملک بھر میں فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ متحدہ مجلس عمل کے خاتمے کے بعد بھی دینی جماعتوں کے دو بڑے پلیٹ فارم متواتر کام کرنے میں مصروف رہے ہیں۔ پہلا پلیٹ فارم دفاع پاکستان کونسل کے نام سے کام کر رہا ہے‘ جس میں ملک کی کئی نمایاں دینی جماعتیں شامل ہیں۔ دفاع پاکستان کونسل کو عوام کی ایک بڑی تعداد کی تائید حاصل ہے اور ماضی میں اس نے نیٹو سپلائی کی بندش کے حوالے سے ملک کے طول و عرض میں ایک منظم تحریک چلائی۔ مینار پاکستان لاہور، لیاقت باغ راولپنڈی، جناح پارک کراچی، عام خاص باغ ملتان اور اسی طرح ملک کے دوسرے مقامات پر ہونے والے اجتماعات میں لاکھوں کی تعداد میں عوام الناس نے شرکت کرکے ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے دفاع کے لیے دفاع پاکستان کونسل کے قائدین سے غیر مشروط وابستگی کا اظہار کیا۔ دفاع پاکستان کونسل کے قیام کے دن ہی سے میں اور میری تنظیم اس اتحاد کے ممبر رہے ہیں اور اس اتحاد کی افادیت اور اہمیت کا میں چشم دید گواہ ہوں۔
ملک میں دینی جماعتوں کا دوسرا منظم پلیٹ فارم ''ملی یکجہتی کونسل‘‘ کے نام سے کام کر رہا ہے۔ ملی یکجہتی کونسل کے قیام کا مقصد ملک میں بقائے باہمی کی فضا کو برقرار رکھنا اور دینی جماعتوں کے درمیان پائے جانے والی فکری، نظریاتی اور فرقہ وارانہ اختلافات کے باوجود ان کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ رکھنا ہے۔ ملی یکجہتی کونسل کا پلیٹ فارم ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے خاتمے کے لیے نمایاں کردار ادا کر رہا ہے اور اس میں تمام مسالک کی نمائندہ جماعتیں شامل ہیں۔ ملی یکجہتی کونسل کے سابق سربراہ قاضی حسین احمد تمام دینی اور سیاسی طبقات کے ہاں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ انہوں نے ملک میں دینی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے نمایاں کردار ادا کیا۔ قاضی حسین احمد مجھ سے بہت زیادہ شفقت فرماتے اور ہمیشہ مجھ سے اپنے بیٹوں کی طرح پیار اور محبت کیا کرتے تھے۔ ملی یکجہتی کونسل کے قیام کے وقت انہوں نے مجھے بھی اس پلیٹ فارم پر اپنے ساتھ جگہ دی اور میں بھی ان کے ہمراہ اپنی بساط کے مطابق اسلامی اقدار کے فروغ کے لیے آواز اٹھاتا رہا۔ کچھ عرصہ قبل جب ممتاز قادری کو پھانسی دی گئی تو اس وقت دینی طبقات میں ایک تشویش کی لہر دوڑی اور تمام دینی جماعتوں نے ایک مرتبہ پھر سر جوڑ کر اس قسم کے واقعات کے تدارک کے لیے مشترکہ لائحہ عمل اپنانے پر اتفاق کیا۔ اسی اثناء میں پنجاب میں وومن پروٹیشن بل پیش ہونے کی وجہ سے بھی دینی جماعتوں کے تحفظات میں اضافہ ہوا اور دینی جماعتیں ایک مرتبہ پھر کافی حد تک ایک دوسرے کے قریب ہوئیں اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ملک کے سیاسی اور مذہبی مسائل کا حل نظام مصطفیﷺ کے نفاذ میں پنہاں ہے اور نظام مصطفی کو ملک کا مقدر بنانے کے لیے ملک کے طول و عرض میں مختلف اجتماعات کا انعقاد کیا جائے۔
حالیہ دنوں میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے بھی دینی جماعتیں مؤثر انداز میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کر رہی ہیں۔ اس سلسلے میں دفاع پاکستان کونسل لاہور اور اسلام آباد میں بڑے اجتماعات کا انعقاد کر چکی ہے۔ اسی طرح ملی یکجہتی کونسل کے زیر اہتمام بھی نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں ایک مؤثر پروگرام ہو چکا ہے۔ ان اجتماعات سے قبل لاہور پریس کلب میں جماعت اسلامی بھی کشمیر سیمینار کا انعقاد کر چکی ہے۔ دینی جماعتوں کی اس تحریک کی وجہ سے مسئلہ کشمیر اُبھر کر عوام کے سامنے آچکا ہے۔ دینی جماعتیں ان مسائل پر اپنا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کی بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال پر بھی غوروفکر میں مصروف ہیں۔ ملک کے تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی منظرنامے کے حوالے سے جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام مختلف دینی جماعتوں سے رابطہ کرنے میں مصروف ہیں۔ حالیہ دنوں میں میں نے بھی منصورہ میں جماعت اسلامی کے جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ اور جماعت اسلامی کے سینئر رہنما فرید احمد پراچہ سے ملاقات کی۔ اِسی طرح اسلام آباد میں جمعیت علمائے اسلام کے جنرل سیکرٹری مولانا عبدالغفور حیدری سے بھی تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ ان ملاقاتوں کے دوران میں نے محسوس کیا کہ دینی جماعتیں بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال میں اشتراک عمل اور متفقہ لائحہ عمل اپنانے کے بارے میں سوچ بچار کر رہی ہیں۔ دینی جماعتیں جب علیحدہ علیحدہ سیاسی عمل میں حصہ لیتی ہیں تو ان کو عوام الناس کی جزوی تائید حاصل ہوتی ہے لیکن جب وہ اپنے نظریاتی اور فکری اختلافات کے باوجود سیاسی طور پر ہم آہنگ ہو جاتی ہیں تو عوام الناس کی بڑی تعداد ان کے ساتھ مل جاتی ہے۔ ہمارا ملک اس وقت مختلف بحرانوں کا شکار ہے اور اس وقت ایک بڑا بحران صادق اور امین قیادت کے حوالے سے پیدا ہو چکا ہے۔ مالیاتی اور اخلاقی کرپشن کے حوالے سے قرآن و سنت کی تعلیمات اور دینی جماعتوں کا نقطہ نظر بالکل واضح ہے۔ میرے خیال میں دینی جماعتوں کو اس وقت کسی بھی سیاسی جماعت کی بی ٹیم کا کردار ادا کرنے کے بجائے معاشرے میں ایک موثر کردار کو ادا کرنا چاہیے اور سیاسی قیادت کے خلا کو پُر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر دینی جماعتیں تاریخ کے اس نازک موڑ پر اپنے اختلاف کو فراموش کرکے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں تو یقینا انہیں عوام الناس کی ایک بڑی تعداد کی تائید حاصل ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر وہ ماضی کی طرح بکھری رہیں تو شاید بدلتے ہوئے سیاسی منظرنامے میں دینی جماعتیں کوئی موثر کردار ادا کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔