تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     24-07-2017

رات کے شہباز

اسیّ پچاسی برس ہوتے ہیں‘ اقبالؔ نے یہ کہا تھا:
معلوم نہیں ہے یہ خوشامد یا حقیقت
اُلّو کو کوئی کہہ دے اگر رات کا شہباز
عقاب نہیں‘ یہ رات کے شہباز ہیں۔
اپنے پیش رو سلیمان بن عبدالملک کی قبر پہ مٹی ڈال کر عمر بن عبدالعزیزؒ اٹھے تو آس پاس انہوں نے اجنبی آوازیں سنیں۔ رت جگے سے نڈھال‘ ذہن کچھ الجھ سا گیا تھا۔ چونک کرپوچھا: اردگرد یہ کیا ہے؟ بتایا گیا کہ شاہی سواریاں لائی گئی ہیں۔ کن اکھیوں سے انہوں نے دیکھا۔ پھر اس آواز میں شب بھر کی بیداری نے جسے پست کردیا تھا اور تھرتھراہٹ سی پیدا کردی تھی‘ آپؒ نے کہا: ان سواریوں سے میرا کیا تعلق؟
محقق دکتور عبدالرحمن الباشا نے لکھا ہے‘ انہوں نے کہا: اللہ ہمیں شادماں رکھے‘ ان سواریوں کو مجھ سے دور لے جائو‘ میرا خچر میرے قریب کر دو‘ میری سواری کے لیے وہی کافی ہے۔ خچر پہ ابھی سوار نہ ہونے پائے تھے کہ ایک حاجب سامنے آیا اور آگے آگے چلنے لگا۔ ایک پوری جماعت دائیں بائیں جس نے قطار بنا رکھی تھی کہ جہاں پناہ کے معاملے میں کوئی مخل نہ ہو۔ ان کے ہاتھوں میں پکڑے نیزوں کی انیاں چمک رہی تھیں۔ابھرتے ہوئے سورج کی روشنی اُن پہ پڑتی اور پورے ماحول کو خیرہ کئے دیتی تھیں۔
حاجب کی طرف انہوں نے دیکھا اور بولے: مجھے تمہاری ضرورت ہے اور نہ تمہارے ساتھیوں کی۔ میں کوئی اجنبی تو نہیں۔ انہی مسلمانوں میں سے ایک ہوں۔ جس طرح یہ صبح و شام کرتے ہیں‘ ان کے ساتھ میں بھی صبح و شام کرتا ہوں۔ عمرؒ چلے تو لوگ بھی ان کے ساتھ چلے۔ یہاں تک کہ مسجد میں جا پہنچے۔ پہلے سے اعلان کردیا گیا تھا کہ سب کے سب عبادت گاہ میں جمع ہو جائیں۔
مسجد میں کوئی بھیڑ سی بھیڑ تھی۔ ڈھنگ سے لوگ بیٹھ چکے تو آپؒ اٹھے۔ اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔ سرکارؐ پہ درود بھیجا اور گویا ہوئے۔
''لوگو‘ میری رائے اور مشورے کے بغیر‘ مسلمانوں سے مشورہ کیے بغیر‘ ذمہ داری کا بوجھ میرے سر پہ ڈال دیا گیا۔ تمہاری بیعت میں تمہی کو واپس کرتا ہوں‘ میری اطاعت کے لیے جو تم نے کی تھی۔ جسے تم چاہو‘ اپنا امیر چن لو‘‘۔
بے چینی کی ایک لہر اٹھی۔ امید اور حسرت سے دمکتے چہروں پر تشویش کے آثار نمودار ہوئے۔ پھربعض ان میں سے اٹھ کھڑے ہوئے...اور انہوں نے یہ کہا: آپ کو ہم منتخب کرتے ہیں‘ امیرالمومنین۔ ہم آپ سے خوش ہیں۔ اللہ کا نام لے کر آغاز کار کیجئے۔
آپؒ نے جب یہ دیکھا کہ اعتراض کرنے والاکوئی نہیں۔ اگر کوئی ہے تو پرجوش‘ عظیم اکثریت کے مقابل مہر بہ لب۔ جب آپؒ نے دیکھا کہ بے قراری سکون میں ڈھل چکی ہے تو ایک بار پھر اٹھ کھڑے ہوئے۔ ایک بار پھر اللہ کی حمدوثنا بیان کی۔ ایک بار پھر اللہ کے آخری رسولؐ پہ درود بھیجا اور کلام کا آغاز کیا۔ تقویٰ کی تلقین کی‘ مال و متاع‘ دنیا سے دور رہنے کی ترغیب دی اور آخرت کا دن یاد دلایا۔ آدمی کے اپنے اچھے اعمال کے سوا جب کوئی‘ کسی کا مددگار نہ ہوگا۔ ایسے انداز میں آپؒ نے آنے والی موت کا ذکر کیا کہ پتھر دل موم ہونے لگے۔ خطا کاروں کی آنکھیں بھی اشک بار ہوگئیں۔ وہ کیفیت جو تیرہ سو برس بعد‘ مشرق کے بے مثال شاعر کو بیان کرنا تھی۔
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
پھر تھکاوٹ کی ماری اپنی آواز کو انہوں نے بلند کیا کہ سبھی سن لیں۔
''لوگو! جو حاکم اللہ کی اطاعت کرے‘ دوسروں پر‘ اس کی پیروی لازم ہوتی ہے۔ اللہ کی جو نافرمانی کرے‘ ہرگز اس کی اطاعت بندگانِ خدا پہ واجب نہیں۔ لوگو! جب تک میں اللہ کا مطیع رہوں‘ میری بات تم سنتے اور مانتے رہنا۔ پروردگار کے احکام کی تعمیل کرنے کی بجائے‘ اگر میں نافرمانی کا ارتکاب کروں تو ہرگز ہرگز میرا حکم نہ ماننا‘‘۔
پھر وہ منبر سے اترے اور اس گھر کی طرف روانہ ہوئے‘ جہاں ابھی کل تک ایک عامی مقیم تھا۔ شاہی خاندان کا ایک سرکشیدہ فرزند‘ مگر بندۂِ عجزوانکسار۔ اب اپنی خواب گاہ میں انہوں نے پناہ لی۔ شدید مشقت اور پیہم بیداری نے مضمحل کر ڈالا تھا۔ سلیمان بن عبدالملک کی وفات کے بعد‘ مسلسل جو جاری رہی تھی۔
کچھ دیر اب انہیں آرام کرنا تھا تاکہ ظہر کی نماز سے پہلے تازہ دم اٹھیں اور تاریخ کی عظیم ترین سلطنتوں میں سے ایک سلطنت کی زمام سنبھالیں۔ ایشیامیں چین‘ افریقہ میں مراکش اور یورپ میں فرانس کی سرحدوں تک پھیلی مملکتِ خداداد۔ 
بستر سے پہلو ابھی لگایا ہی تھا کہ دروازہ کھلا۔ عبدالمالک سامنے کھڑا تھا۔ بارہ بیٹوں میں سے ان کا سب سے زیادہ پسندیدہ فرزند۔ اسی گھرانے کے ہار کا سب سے زیادہ چمکتا ہوا موتی۔ دمشق کے باسی اس کے بارے میں کہا کرتے کہ جوانوں میں شہ زور جوان ہے۔ دانش میں بزرگ اور اہلِ علم میں صاحب علم و ادراک۔ عمر یہی کوئی سترہ برس مگر‘ انداز میں متانت‘ ایک کوہِ وقار۔
گفتگو میں عرب تمہید کے قائل نہ تھے اور عمر ابن خطابؓ کا پڑ نواسہ تو بالکل ہی نہیں۔ مؤدب مگر دو ٹوک لہجے میں اس نے سوال کیا ''اب کیا ارادے ہیں‘ پدر محترم؟‘‘۔ ''فرزند‘‘ اس شیریں انداز میں جو اموی شہزادے کی پہچان تھا‘ انہوں نے کہا ''کچھ دیر کے لیے میں سو جانا چاہتا ہوں۔ میرے بدن میں قوت نام کی کوئی چیز باقی نہیں‘‘۔
عبدالمالک نے جسارت کی اور ایسی جسارت کہ ہوائیں اگر حیرت زدہ ہو سکتیں توکچھ دیر کے لیے شاید رک جاتیں۔ ''لوگوں کے غصب شدہ اموال انہیں واپس دلائے بغیر‘ آپ سو جانا چاہتے ہیں؟ امیرالمومنین؟‘‘۔اس نے کہا‘ عاجزی مگر فولاد کی سی آب۔
عمرؒ بولے اور اب ان کی آواز کچھ اور پست تھی۔ بس‘ اتنی کہ سنی جا سکے۔ ''فرزند‘ رات بھر تیرے چچا سلیمان کی تدفین کے لیے میں جاگتا رہا۔ ابھی کچھ دیر بعد‘ لوگوں کے ساتھ مجھے نماز پڑھنی ہے۔ان کی بات سننی ہے‘ اس کے فوراً بعد املاک کی واپسی کا انشاء اللہ آغاز کر دوں گا‘‘۔ ''امیرالمومنین‘ کون ہے‘ اس بات کی جو ضمانت دے کہ دوپہر کی نماز تک آپ زندہ رہیں گے‘‘۔ عبدالمالک نے کہا اور ایک ذرا سا جھکا کہ گستاخ دکھائی نہ دے۔
''میرے قریب آئو‘ میرے بیٹے‘‘۔ اس آدمی نے کہا‘ جس کے تیور کبھی بہت کڑے ہو جایا کرتے تھے۔ اپنے پیش رو سلیمان بن عبدالمالک سے شاہی محل میں ایک بار‘ جس نے کہا تھا ''عم زاد‘ اللہ کی کائنات تیرے دسترخوان سے بہت بڑی ہے‘‘۔
اپنے بستر سے وہ اٹھے‘ اب اس طرح تیزی سے اٹھے کہ تھکاوٹ نے جیسے انہیں چھوا تک نہ تھا۔ فرطِ جذبات سے عبدالمالک کو گلے لگایا اور ماتھے پر بوسہ دیا اور یہ کہا ''شکر ہے‘ اس پروردگار کا جس نے ایسی اولاد مجھے عطا کی جو اپنے دین کے باب میں ایسی مددگارہے‘‘۔
گرد و پیش کا ماحول ایک رہنما خود مرتب کرتا ہے۔ حاکموں کے مشیر نہیں‘ خود ان کے اپنے تضادات انہیں تباہ کرتے ہیں۔ جو سننا چاہتے ہیں‘ انہیں سنایا اور ٹوکا جاتا ہے۔ جن کا احساس کمتری خوشامد سے آسودہ ہو تا ہو‘ ان کے حصے میں خوشامد آتی ہے۔
اسیّ پچاسی برس ہوتے ہیں‘ اقبالؔ نے یہ کہا تھا:
معلوم نہیں ہے یہ خوشامد یا حقیقت
اُلّو کو کوئی کہہ دے اگر رات کا شہباز
عقاب نہیں ہیں‘ یہ شب کے شہباز ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved