تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     25-07-2017

پر آشوب حالات میں امت کیا کرے؟

اس عالم رنگ و بو میں ہر روز عجیب و غریب واقعات رونما ہوتے ہیں۔ ظالم عناصر ظلم کرتے وقت بھول جاتے ہیں کہ کوئی ایسی قوت بھی موجود ہے، جو ذرے ذرے کا حساب لینے‘ مظلوم کو اس کا حق دینے اور ظالم کو ظلم کی پوری سزا دینے پر قادر ہے۔ میانمار کو دیکھیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ کشمیر پر نظر ڈالیں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور غزہ کا تو حال ہی نہ پوچھیے کہ جہاں ہر جانب سے محاصرہ کرکے مظلوم اہل ایمان کو بنیادی ضروریاتِ زندگی تک سے محروم کر دیا گیا ہے۔ مصر، شام، بنگلہ دیش، یمن ، لیبیا غرض پورا عالم اسلام قیامت خیز طوفانوں اور مصائب کی زد میں ہے۔ ایسے میں ان لوگوں کے حوصلے بلند ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اس نبیٔ رحمتؐ کے اُمتی ہیں جن کے لیے سارا جہاں پیدا کیا گیا اور جن کی زندگی ابتلا و آزمائش کا مرقع ہے۔ شعب ابی طالب تاریخ کا وہ باب ہے، جس کو پڑھتے ہوئے آنسو روکنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ آج امت مسلمہ کے مظلومین کو اپنے ہادیٔ اعظم ؐکی حیات طیبہ کے اس باب کو پھر سے دلوں میں تازہ کرلینا چاہیے۔ آنحضور ؐ نے اپنی دعوت کا آغاز کیا تو کفار بھڑوں کے چھتے کی طرح آپ پر پل پڑے۔ آپؐ اور آپ کے صحابہؓ کو ناقابل بیان آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ اس سب کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو غلبہ عطا فرمایا اور کفار نیست و نابود ہوگئے۔ 
کفار کی بے بسی اور خباثت
پہلی وحی آنے کے بعد اللہ کے رسولؐ نے اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانا شروع کر دیا تھا۔ اس کے جواب میں آپؐ کو بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اس کے باوجود اسلام کی دعوت پھیلتی چلی گئی۔ کفار کے مظالم کے باوجود سابقون الاولون کی استقامت وعزیمت ایسی بے مثال تھی کہ بے پناہ آزمایشوں اور اذیتوں کے دوران ان میں سے کبھی کسی کے پاؤں میں لغزش نہ آئی۔ قریش کے لیے یہ ایک ناقابل فہم معمہ تھا جس پر وہ تلملاتے، مگر ان کے اختیار میں کچھ بھی نہیں تھا۔ آخر انھوں نے سوچا کہ بنوہاشم اور بنومطلب کا معاشرتی مقاطعہ (سوشل بائیکاٹ) کردیا جائے۔ ہاشم اور مطلب دونوں سگے بھائی تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا شجرہ بنومطلب سے عبدمناف پر جا کر ملتا ہے، جو آپ کے دادا کے دادا یعنی آپ سے چھٹی پشت پر تھے۔ مطلب اور ہاشم کی اولاد کی آپس میں محبت سگے بھائیوں کی طرح تھی اور شاید دنیا کی تاریخ میں یہ صلہ رحمی کی ایک منفرد اور قابلِ تحسین مثال ہے۔ 
ظلم کا معاہدہ
کفار مکہ نے مل کر طے کیا کہ ایک معاہدہ لکھا جائے جو سب خاندانوں اور قبائل کی طرف سے ہو۔ اس میں بنوہاشم اور بنومطلب سے ہرطرح کا لین دین، کاروبار‘ تجارت، نکاح ‘ رشتہ، بول چال، بات چیت اور علیک سلیک مکمل طور پر ختم کردیا جائے۔ چنانچہ قطع رحمی اور ظلم کا یہ معاہدہ لکھا گیا اور اسے اعدل العادلین کے گھر، خانہ کعبہ میں لٹکا دیا گیا۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے جناب ابوطالب نے اپنے پورے خاندان اور تمام اہلِ ایمان کے ساتھ مکہ شہر کو خیرباد کہہ کر شہر کے نواح میں ایک گھاٹی میں‘ جو ان کے خاندان کی ملکیت تھی اور جسے شعب ابی طالب کہا جاتا ہے، پناہ لے لی۔ دیگر خاندانوں میں سے بھی ہرخاندان کے صاحبِ ایمان مردوخواتین جو ہجرت حبشہ میں نہ جاسکے تھے، شعبِ ابی طالب میں منتقل ہوگئے۔ اس موقع پر گھاٹی میں جانے سے قبل ابوطالب اور اہلِ ایمان نے خانہ کعبہ میں جاکر طواف کیا پھر خانہ کعبہ کے غلاف کو پکڑ کر دعا کی: اَللّٰہُمَّ انْصُرْنَا علیٰ من ظَلَمَنَا وَقَطَعَ اَرْحَامَنَا وَاسْتَحَلَّ مَا یُحَرَّمُ عَلَیْہِ مِنّا۔ اے اللہ! تو ہماری مدد فرما، ان لوگوں کے مقابلے پر جنھوں نے ہم پر ظلم ڈھایا اور قطع رحمی کی۔ اے اللہ تو ہماری مدد فرما ان کے مقابلے پر جنھوں نے اس چیز کو ہمارے بارے میں حلال ٹھہرا لیا ہے جو (تیری طرف سے) حرام قرار دی گئی ہے۔ (طبقات ابن سعد، ج۱، ص(210
ابوجہل اور ابولہب، دوشیطان
یہ دورِ اہلِ ایمان اور شعب ابی طالب میں محصور تمام مظلومین کے لیے قیامت سے کم نہیں تھا۔ قریش کے ظالم سردار کسی تاجر کو اس طرف جانے ہی نہیں دیتے تھے۔ حکیم بن حزام جو حضرت خدیجہؓ کے بھتیجے اور مال دار تاجر تھے، اگرچہ مسلمان نہیں ہوئے تھے، مگر کچھ سامانِ زیست کسی نہ کسی طریقے سے اہلِ شعب تک پہنچاتے رہتے تھے۔ کئی مرتبہ ابوجہل نے انھیں یہ کام کرتے ہوئے دیکھا تو انھیں ڈانٹا اور ان کے سامان کو واپس بھجوادیا۔ ابولہب اتنا بدبخت اور سنگ دل تھا کہ اگر کوئی تجارتی قافلہ شعب ابی طالب کی طرف جانا چاہتا تو ان سے ان کی منہ مانگی قیمت پر چیزیں خرید لیتا اور وہاں جانے سے انھیں روک دیتا۔ (السیرۃ الحلبیۃ، ج۱، دارالکتب العلمیہ بیروت، ص(476
فاتح ایران کا بیانِ دل دوز
اس زمانے میں صحابہ کرامؓ نے درختوں کے پتے اور چھال کھاکر گزارا کیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن مجھے کوئی پرانا چمڑا ملا۔ میں نے اسے دھوکر پانی میں ڈالا اور آگ پر خوب ابالا۔پھر وہ پانی پیا اور اس چمڑے سے پیٹ بھرا۔ تاریخ اسلام کے عظیم مجاہد اور فاتح ایران کا یہ بیان دل دہلا دینے والا ہے، مگر آفرین ہے ان پاکیزہ ارواح پر جن کے پائے استقامت میں کبھی لغزش نہ آئی۔ بھوک اور پیاس کی وجہ سے شیرخواربچوں پر بھی قیامت گزر گئی۔ ماؤں کی چھاتیوں میں دودھ خشک ہوگیا۔ بھوک کی شدت سے یہ بچے بلبلاتے تو پہاڑوں کے دل بھی دہل جاتے، مگر ظالم کفار کے دلوں پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ حرام مہینوں میں جب لڑائی اور خون ریزی حرام ہوتی تھی تو مسلمان گھاٹی سے باہر نکل کر کوشش کرتے تھے کہ کچھ کام کرلیں یا خریدوفروخت، مگر وسائل کی کمی کی وجہ سے یہ بھی بہت مشکل تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہؓ کے ساتھ ماہِ محرم، 7نبوی میں گھاٹی میں گئے تھے۔ اس وقت آپ کی عمر 46سال کے قریب تھی۔ (ایضاً)
بھتیجے کا پھوپھی کے لیے ہدیہ
ایک روز حکیم بن حزام اپنے غلام کے ساتھ سیدہ خدیجہؓ کی خدمت میں کچھ سامان پہنچانے کے لیے شعب ابی طالب کی طرف جارہے تھے تو ابوجہل نے ان کا راستہ روک لیا اور کہا کہ میں ہرگز تمھیں کوئی چیز ان لوگوں تک پہنچانے کی اجازت نہیں دوں گا۔ دونوں کی آپس میں توتکار ہورہی تھی کہ ایک اور شریف النفس قریشی سردار ابوالبختری بن حارث بن اسد وہاں آگیا۔ وہ کافر تھا، مگر اس کے اندر انسانی اخلاق کی خوبی موجود تھی۔ اس نے ابوجہل سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ اس نے جواب میں بتایا کہ حکیم بن حزام شعب ابی طالب میں خوراک پہنچانا چاہتا ہے، مگر میں اسے کسی صورت ایک ذرّہ بھی آگے نہیں لے جانے دوں گا۔ ابوالبختری نے کہا کہ خدا کا خوف کرو، وہ اپنی پھوپھی کے لیے کھانا لے جارہا ہے، ابوجہل نے کہا ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ ابوالبختری بھی صاحبِ ہمت انسان تھا۔ اس نے ابوجہل کو داڑھی سے پکڑ لیا اور خوب سنائیں کہ ابوجہل بے بس ہوگیا۔ اسی دوران حضرت حمزہ بھی وہاں آگئے تو ابوجہل دبک گیا۔ یوں حکیم بن حزام اپنا سامان پہنچانے میں کامیاب ہوگئے۔ (سیرۃ ابن ہشام، القسم الاول، ص(355-354
شریف النفس انسان
ایک اور شریف النفس قریشی ہشام بن عمرو بھی بڑی خوبیوں کا مالک تھا۔ اس کا بنوہاشم کے ساتھ اپنی ماں کی طرف سے تعلق تھا۔ اس کا والد عمرو بن ربیعہ اور نضلہ بن ہاشم بن عبدمناف ایک ماں کے بیٹے تھے۔ یہ بہت فراخ دل اور جرأت مند انسان تھا۔ اپنے اس رشتے کی وجہ سے وہ بھی چھپ چھپا کر محصورینِ شعب ابی طالب کی خدمت میں ضروریاتِ زندگی بھیجتا رہتا تھا۔ وہ رات کے وقت سامانِ خورونوش اپنے اونٹ پر لادتا، پھر گھاٹی کے دہانے پر پہنچ کر اونٹ کی نکیل اتار دیتا اور اسے گھاٹی کی طرف ہانک دیتا۔ اہلِ شعب سمجھ جاتے کہ یہ اونٹ ہشام بن عمرو کی طرف سے آیا ہے۔ اس موقع پر ہرشخص اس کے لیے سراپا دعا بن جاتا۔ مورخ ابن اسحاق بیان فرماتے ہیں کہ ہشام اس فکر میں رہتا تھا کہ اس ظالمانہ معاہدے کو ختم کیا جائے۔ ایک دن وہ زہیربن ابی امیہ بن مغیرہ کے پاس گیا۔ زہیر آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی عاتکہ بنت عبدالمطلب کا بیٹا تھا۔ ہشام نے زہیر سے کہا: ''اے زہیر! کیا تو اس بات پر خوش ہے کہ تو پیٹ بھر کر کھانا کھاتا ہے، قیمتی لباس زیب تن کرتا ہے، شادی رچاتا اور دعوتیں کرتا ہے، جبکہ تیرے ننھیال پر قیامت بیت رہی ہے۔ انھیں ہر چیز سے محروم کردیا گیا ہے۔ وہ نہ کچھ خرید سکتے ہیں نہ بیچ سکتے ہیں، نہ انھیں کوئی رشتہ دیتا ہے نہ ان سے کوئی رشتہ قبول کرتا ہے۔ خدا کی قسم! اگر ابوالحکم بن ہشام (ابوجہل) کے ننھیال کا معاملہ ہوتا اور تم سب لوگ کسی ایسے معاہدے پر اتفاق کرتے تو وہ ہرگز اسے قبول نہ کرتا۔‘‘ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved