تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     25-07-2017

بارش کے ’’سائڈ ایفیکٹس‘‘

کہنے کو چار موسم ہیں... سردی، گرمی، خزاں اور بہار۔ بارش اگرچہ سال کے سال آتی ہے مگر اِسے موسم میں شمار نہیں کیا جاتا۔ بات حیرت کی ہے۔ مون سون ایک باضابطہ سسٹم ہے جو تقریباً مقررہ وقت پر وارد ہوتا ہے اور اپنے اثرات بھی مرتب کرتا ہے۔ اور صاحب، سچ تو یہ ہے کہ جس طور آم کو پھلوں کا بادشاہ گردانا جاتا ہے بالکل اُسی طرح بارش کو موسموں میں بادشاہ کا درجہ ملنا چاہیے۔ 
بارش کو موسموں کی بادشاہی سونپنے میں ہرج بھی کیا ہے؟ جو رنگ ڈھنگ اِس موسم کا ہے وہ کسی بھی موسم کا نہیں۔ بارش کے پانی سے جسم ہی نہیں، رُوح بھی کِھل اُٹھتی ہے۔ فضا میں ایسی تازگی سما جاتی ہے کہ انسان قدم قدم پر خود کو تازہ دم محسوس کرتا ہے۔ بارش میں بھیگنے والے ہی جانتے ہیں کہ سرشار ہونا کیا ہوتا ہے۔ مزا بھیگنے کا نہیں، بارش میں بھیگنے کا ہے۔ یہ بارش ہی تو ہے جو زمین کی دِلی مراد پوری کر دیتی ہے۔ ایک مدت سے پیاسی زمین کو جب بارش کا پانی میسّر ہوتا ہے تو مٹی اور پانی دونوں کی مقصدیت سمجھ میں آتی ہے۔ زمین کو کتنا ہی سیراب کیجیے مگر بارش کے بعد اُس کی کیفیت کچھ اور ہی ہوتی ہے۔ اور اس کیفیت کو لفظوں کے دائرے میں مقیّد نہیں کیا جا سکتا۔ 
بارش ہر حال میں اللہ کی رحمت ہے، اُس کے کرم کا بھرپور اشارا ہے۔ ایک زمانے سے اہلِ کراچی بھرپور بارش کو ترس رہے تھے۔ بادلوں کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے اُنہیں کراچی پر سے صرف گزرنے کے لیے تخلیق کیا گیا ہے! اب کے اللہ کی رحمت جوش میں آئی اور اہلِ کراچی پر بھی کرم برسا دیا۔ اور ایسا برسایا کہ سارے دُلدّر دور ہو گئے۔ ایک ماہ کے دوران کراچی کے باشندوں نے کم و بیش پانچ مرتبہ بارش کا لطف پایا ہے۔ ایک ہفتے سے بھی زائد وقت تو بادل چھائے ہی رہے اور بوند بوند رحمت برستی رہی۔ پچھلا ہفتہ اِسی کیفیت میں گزرا۔ شہر کا موسم ایسا سہانا ہوا کہ لوگ سارے غم بھول گئے۔ 
بارش کے بارے میں لوگوں نے طرح طرح کے مفروضے قائم کر رکھے ہیں۔ ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ اللہ کی ذات اگر کسی علاقے کے لوگوں سے ناراض ہو تو وہاں بارش نہیں ہوتی۔ یہ محض مفروضہ ہی ہے۔ اللہ کے اپنے اصول ہیں اور اٹل ہیں یعنی اُن اصولوں میں کوئی رد و بدل واقع نہیں ہوتا۔ کسی بھی معاملے میں اللہ کی حقیقی مشیّت اور منشاء کا ہمیں علم ہو پانا ممکن نہیں۔ ہم جو کچھ دیکھتے ہیں بس اُسی کی بنیاد پر کوئی رائے قائم کرتے ہیں۔ اللہ تعالٰی کس سے ناراض ہیں اور کس سے خوش، یہ طے کرنا کسی بھی درجے میں ہمارا کام ہے نہ منصب۔ اِس نوعیت کی فیصلہ کن آرا قائم کرنے سے کہیں افضل یہ کام ہے کہ ہم اپنے افکار و اعمال سے اللہ تعالٰی کی خوشنودی کا حصول یقینی بنانے کی کوشش کریں۔ 
آسمان سے جو پانی برستا ہے وہ سراسر رحمت ہے۔ اب اگر یہ پانی زحمت جیسا دکھائی دے تو آسمان کی طرف رُخ کرکے کوئی شِکوہ کرنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے، اپنے اُن اعمال کا جائزہ لینا چاہیے جو اللہ کی رحمت کو زحمت میں تبدیل کیے بغیر سُکون کا سانس نہیں لیتے۔ کراچی کے نصیب میں بارش اگر کم کم لکھی ہے تو اِسے بُرے اعمال کا نتیجہ گرداننے کے بجائے اللہ کی رحمت کا اشارا سمجھنا چاہئے۔ اللہ کی ذات جب چاہے اشارا کر دے اور پانی برس جائے مگر سوال یہ ہے کہ اِس کا نتیجہ کیا برآمد ہو گا۔ اور یہ بات ہم سے بہت زیادہ اور بہتر طور پر اللہ کو معلوم ہے۔ جاذبؔ قریشی کہتے ہیں ؎ 
کیوں مانگ رہے ہو کسی بارش کی دعائیں 
تم اپنے شکستہ در و دیوار تو دیکھو! 
کراچی میں جب بھی بارش ہوتی ہے، کئی دن تک زندگی کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ جنہیں اللہ نے دانش سے محروم رکھا ہے وہ بارش نہ ہونے کو غنیمت جانتے ہیں۔ یہ ہے انتہائے بدنصیبی۔ بارش ایسی رحمت کو بہتر انداز سے قبول کرنے کے قابل ہونے کی کوشش کرنے کے بجائے یہ دعا کی جاتی ہے کہ وہ دور رہے! 
کسی نے خوب کہا ہے ؎ 
عشق کی ضرب تو پڑتی ہے دِلوں پر یکساں 
ظرف کے فرق سے آواز بدل جاتی ہے 
کراچی کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ جب بھی بارش ہوتی ہے، شہریوں کے لیے پریشانیاں بڑھ جاتی ہیں۔ جو بستیاں بارش کے استقبال کے لیے تیار رہتی ہیں وہ اللہ کی رحمت سے مستفید ہی نہیں، محظوظ بھی ہوتی ہیں۔ بارش کو اللہ کی رحمت جاننے والے بھیگنے پر فرحت اور تازگی محسوس کرتے ہیں، چھت ٹپکنے یا ہر طرف کیچڑ ہو جانے کا رونا نہیں روتے! 
ایک زمانہ تھا کہ جب کراچی میں برساتی نالوں کو ہر سال بارش سے قبل باقاعدگی سے صاف کیا جاتا تھا۔ کوشش یہ ہوتی تھی کہ جب اللہ کی رحمت برسے تو اُس کے جِلو میں کوئی پریشانی یا الجھن نہ ہو۔ پھر یہ ہوا کہ برساتی نالوں کو صاف کرنے کی روایت ترک کر دی گئی۔ اِس کے نتیجے میں بارش کے ''سائڈ ایفیٹکس‘‘ بڑھتے چلے گئے۔ ذرا زیادہ بارش ہو جاتی تو نالے اُبل پڑتے اور شہر میں ہر طرف کیچڑ ہی کیچڑ ہوتا۔ اب خیر سے برساتی نالے نہیں اُبلتے... ہم نے برساتی نالے ہی ختم کر ڈالے ہیں! بارش ہو تو کیچڑ کے لیے ہم نالوں کا احسان کیوں اُٹھائیں؟ اِسی کیفیت کو حبابؔ ترمذی نے یوں بیان کیا ہے ؎ 
ناخدا کا بارِ احساں کون اُٹھاتا اے حبابؔ 
ہم نے ساحل کا تصوّر غرقِ دریا کر دیا 
اب کیچڑ کی پیدائش نالے اُبلنے کا انتظار نہیں کرتی۔ بارش کا پانی براہِ راست کیچڑ بنانے کے عمل میں شریک ہو جاتا ہے! اور کچھ ہوا ہو ہا نہ ہوا ہو، اب اِتنا تو ہوا ہے کہ برساتی نالوں کے بھر جانے کا خوف نہیں رہا! جب برساتی نالے ہی نہ رہے تو بارش کیسی؟ قدرت کا قانون ہے کہ کسی کو ظرف سے بڑھ کر نہیں ملتا۔ اہلِ کراچی کے لیے بھی اُتنی ہی بارش ہے جتنی وہ برداشت کر سکتے ہیں۔ رحمت کو رحمت ہی کے طور پر لینے اور زحمت میں تبدیل ہونے سے بچانے کی تیاری کر لی جائے گی تب اللہ کی طرف سے بارش میں اہلِ کراچی کا حصہ بھی بڑھ جائے گا۔ 
سائڈ ایفیٹکس چاہے جتنے بھی ہوں، بارش ہر حالت میں اللہ کی رحمت ہی ہے۔ جو اللہ کی ذات پر پورا بھروسہ رکھتے ہیں وہ اُس سے رحمت کے خواستگار رہتے ہیں، اُس سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اگر متعلقہ انتظامات معیاری نہ ہوں تو بھرپور بارش سے بھرپور مسائل پیدا ہوتے ہیں اور زندگی کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ بارش سے نظام زندگی کو درہم برہم ہونے سے بچانا ہمارا دردِ سر ہے۔ بارش کے تمام ممکنہ سائڈ ایفیکٹس کی راہ روکنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ہم اس معاملے میں جتنے باشعور ہوں گے اللہ کی رحمت ہمارے کے لیے اُتنے ہی مثبت اثرات یقینی بنائے گی۔ ہم اللہ کی رحمت کا حق کبھی ادا نہیں کر سکتے مگر خیر، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم کچھ نہ کریں۔ بارش سے بھرپور استفادہ یقینی بنانے کی تمام کوششیں ہم پر فرض ہیں تاکہ رحمت کسی طور زحمت کا رنگ نہ پکڑے اور سائڈ ایفیکٹس اپنی موت آپ مر جائیں! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved