تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     26-07-2017

سبحان اللہ!

کوئی دن جاتا ہے کہ فیصلہ صادر ہو جائے گا۔ ملک کو اسی دلدل میں دھنسے رہنا ہے یا نجات کی ساعتِ سعید آ پہنچی۔ 
کہا جاتا ہے کہ میدانِ جنگ میں پہلا قتل سچائی کا ہوتا ہے۔ یہاں تو قتلِ عام ہے۔ ٹی وی پر ابھی ابھی ایک نون لیگی لیڈر نے خطبہ دیا: تمام برائیوں کی جڑ عمران خان ہے۔ میاں محمد نواز شریف معصوم عن الخطا ہیں۔ سبحان اللہ! عمران خان سے بری طرح ہارا ہوا۔ منشیات کی سمگلنگ میں ملوث ہونے کا الزام۔ عدالتی نظام موثر ہوتا تو فیصلہ ہو گیا ہوتا؛ چہ جائیکہ دھاڑتا دکھائی دیتا۔ 
اخبار میں لکھا ہے: عمران خان اور میاں محمد نواز شریف پر مقدمات بالکل ایک جیسے ہیں۔ بالکل ایک جیسے؟ لاحول و لاقوۃ۔ ایک جیسے کیونکر؟ ججوں نے ہاتھ جوڑ دیے کہ براہِ کرم پاکستان سے دبئی، دبئی سے قطر، قطر سے جدہ اور جدہ سے لندن تک روپے کی منتقلی کا ثبوت دے دیجیے۔ کوئی ثبوت نہیں۔ فیکٹریاں سب کی سب خسارے میں۔ اتفاق فائونڈری گروی رکھ کر لیا گیا قرض سترہ سال بعد واپس کیا۔ قارون کے خزانے کا ماخذ و منبع کیا ہے؟ جواب یہ کہ عمران خان سمیت بہت سے دوسرے لوگ بھی خائن ہیں۔ بھائی، آپ اپنا حساب تو دو۔ دوسروں کی باز پرس بھی ہو گی۔ ویسے آپ خود کیوں نہیں کرتے؟ قانون کا نفاذ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ زیادہ اصرار ہو تو وہ کہتے ہیں : اجی ہم نے اتنی سڑکیں بنائیں ، بجلی گھر تعمیر کیے، پل کھڑے کیے‘ میٹرو بس بنائی، اورنج ٹرین کا تحفہ قوم کو دے رہے ہیں ۔ تحفہ؟ کیا یہ شریف گھرانے کی دولت ہے یا سرکاری خزانہ؟ 
چوہدری پرویز الٰہی نے 0.25 فیصد شرح پر ایشیائی ترقیاتی بینک سے منظوری حاصل کر لی تھی ۔ آپ نے اس سے تیرہ گنا 3.75 فیصد پر قرض لیا۔ پرویز الٰہی کے منصوبے میں ادائیگی بھی نقد نہ ہوتی بلکہ بی او ٹی ، یعنی بنائو، چلائو اور حوالے کرنے کی بنیاد پر۔ بیس برس بعد لاہور کی مقامی ریل پاکستانی عوام کی مِلک ہوتی ۔ جو نقشہ انہوں نے بنایا تھا، کسی کو اس پر اعتراض نہ تھا۔ زیادہ تر زیرِ زمین کاروباری اور تجارتی مراکز کی تعمیر۔ کوئی نقصان، قومی اہمیت کی عمارتوں کو نہ پہنچتا۔ قدیم ثقافتی یادگاریں محفوظ رہتیں اور اس شہر کا حسن خطرے میں نہ پڑتا‘ ہزار سال سے جو عالمِ اسلام کے اہم ترین مراکز میں سے ایک ہے۔ دس لاکھ آبادی کے ساتھ جو کبھی دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا۔ آپ لوگوں نے جسے سیمنٹ اور سریے کا جنگل بنا ڈالا۔ جس کے موسمِ بہار نے علی بن عثمان ہجویریؒ کو مسحور کر دیا تھا۔ جس کے گلابی جاڑوں کی فیض احمد فیضؔ مدح کیا کرتے۔ 
پڑھنے والے حیران ہیں ، سننے والے حیران کہ کپتان اور قائدِ اعظم ثانی کا مقدمہ بالکل ایک جیسا کیونکر ہوا ؟ گلے پھاڑ پھاڑ کر چیخنے اور تاویل پر تاویل تراشنے سے حقائق کیا بدل جایا کرتے ہیں ؟ کیا ٹیلے کو پہاڑ اور پہاڑ کو ٹیلا بنایا جا سکتا ہے ؟ قانون کہتا ہے کہ باہر سے روپیہ لانے والوں سے کوئی پوچھ گچھ نہ ہو گی۔ پھر اس آدمی کے ذرائع آمدن تو بالکل واضح ہیں۔ اٹھارہ کروڑ میں سے ایک بھی معقول آدمی یہ نہیں کہہ سکتا کہ 1980ء کے عشرے میں عمران خان کو کرکٹ سے غیر معمولی آمدن نہ ہوئی تھی۔ اب تو خیر تفصیلات اس نے مہیا کر دی ہیں ۔ پوری طرح مکمل اگر نہ بھی ہوں تو بیرونِ ملک سے ذاتی سرمایے کی منتقلی جرم کیسے ہو گیا؟ جرم تو سمندر پار دولت کا انتقال ہے ۔ شریف خاندان اس کا مرتکب ہے اور مسلمہ طور پر ۔ آصف علی زرداری نے اس کا ارتکاب کیا ہے ۔ بتانے کے وہ قابل نہیں کہ یہ سب کچھ ان کے ہاتھ کہاں سے لگا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ عدمِ تحفظ کی فضا، اس کے نتیجے میں پیدا ہوئی ۔ دس ارب ڈالر ، جی ہاں ، دس ارب ڈالر ہر سال ملک سے باہر چلے جاتے ہیں ۔ کتنی بے شمار ملازمتوں کے امکانات ؟ کتنے لاکھ گھروں کے چولہے جل سکتے ، پیہم اگر یہ جرم سرزد نہ ہوتا۔ کتنے بچے تعلیم سے محروم ، کتنے لوگ ایک ایک لقمے کو ترس گئے۔ کتنے لوگ آلودہ پانی پینے پر مجبور۔ اللہ نے اپنی دنیا کیسی خوبصورت بنائی تھی ۔ آدمی نے اسے کتنا مسخ کر دیا ۔ کس قدر آلودہ اور بھدّا کر دیا۔ حکمران کیا کاروبار کیا کرتے ہیں ؟ ہر تھانے دار ، ہر تحصیل دار اور ہر ڈپٹی کمشنر کو اگر دکان کھولنے کی اجازت دے دی جائے ؟ یہ تو بادشاہت سے بھی بدتر ہے۔ 
دکانداری میں جو حکمران مگن ہو گا، کاروبارِ حکومت سے انصاف وہ کیسے کر سکے گا؟ بستیوں کو امن کیسے نصیب ہو گا؟ ٹیکس کیونکر جمع کیا جائے گا؟ شفا خانے اور تعلیمی ادارے کیسے چلیں گے؟ قومی دفاع کی ذمہ داری کیسے پوری ہو گی؟ یہ تو وہ کام ہے، وہ کارِ مسلسل ہے، ایک لمحہ بھی جس میں پس انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وزیرستان سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے کراچی تک خوں ریزی ہے۔ پڑوسی ملکوں سے مدد لے کر کرایے کے قاتل قتلِ عام کرتے ہیں۔ کیا یہ صرف افواجِ پاکستان کی ذمے داری ہے ؟ قلم کے قلیوں کی طرح سول انٹیلی جنس اور پولیس کی نہیں، جس کے اہل کار دربار داری میں لگے رہتے ہیں۔ لاہور میں شریف خاندان کی حفاظت پر کتنے ارب سالانہ خرچ ہوتے ہیں؟ 
جو ماحول اخبارات اور ٹی وی میں دکھائی دیتا ہے، حقیقی دنیا سے اس کا تعلق بہت کم ہے۔ کتنے ہی چینل اور کتنے ہی اخبار کپتان کو خوف زدہ کرنے پر لگے ہیں۔ پرسوں سہ پہر لاہور سے نتھیا گلی پہنچا کہ اس کا حال دیکھوں۔ میں نے اسے شادمان اور خورسند پایا۔ اس کا اندازِ فکر یہ تھا کہ میں نے تو اپنا فرض پورا کر دیا۔ کسی نے پوچھا کہ ازالہء حیثیتِ عرفی کے جو مقدمات چل رہے ہیں، ان کا انجام کیا ہو گا؟ اس نے قہقہہ برسایا اور کہا: دو سو ارب روپے ادا کرنے ہوں گے۔ میرے پاس تو ہیں نہیں، شریفوں سے قرض لوں گا۔ 
اتنے میں جنگلات کے محکمے کا آدمی آیا۔ بشاش اور شاد کام۔ خبر دی کہ اقوامِ متحدہ کے ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف نے 80 کروڑ درخت گاڑنے کی تصدیق کر دی ہے۔ وفاقی حکومت کے اعتراض اور مداخلت پر، عالمی فلاحی ادارے نے ایک کے بعد دوسری، دوسری کے بعد تیسری ٹیم روانہ کی۔ اب انہوں نے لکھ بھیجا ہے کہ 80 کروڑ درخت بوئے گئے۔ ان میں سے کم از کم 85 فیصد زندہ رہیں گے۔ ''انشاء اللہ سو فیصد ہی‘‘ سرکاری افسر نے کہا ''ہر درخت کے ساتھ دو چار بیج بھی ہم نے ڈال دیے تھے۔ بادل آتے رہیں گے‘ ابر برستا رہے گا، کچھ تو نہ کچھ تو اُگیں گے‘‘۔
اور بھی خبریں ہیں۔ کچھ کی تصدیق ہوئی ہے ، کچھ کی نہیں۔ ایک اطلاع یہ ہے کہ ناراض چوہدری نثار کو زاہد و متقی اسحٰق ڈار نے وزیرِ اعظم کے ایما پر یقین دلایا ہے کہ خواجہ آصف ان کے جانشین ہوں گے اور نہ احسن اقبال۔ 
لاہور میں بم دھماکے کی ابتدائی تفتیش کے بعد ایک سوال سامنے آیا ہے: کیا ضروری ہے کہ دعوے دار طالبان ہی ذمہ دار ہوں؟ کیا یہ ''را‘‘ نہیں ہو سکتی۔ گرفتار بھارتی جاسوس کلبھوشن کے مطابق سالِ گزشتہ جسے تہران کے پاکستانی سفارت خانے پر دستی بموں سے حملہ کرنا تھا... اور بلوچ لبریشن آرمی ذمہ داری قبول کرتی۔ دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کے مستعفی ہونے کا سبب کیا ہے؟ یہ تو سب جانتے ہیں کہ بھارتی درندگی پر خاموش وہ کبھی نہ رہے، بھارت سے مرعوب کبھی نہ ہوئے۔
کوئی دن جاتا ہے کہ فیصلہ صادر ہو جائے گا۔ ملک کو اسی دلدل میں دھنسے رہنا ہے یا نجات کی ساعتِ سعید آ پہنچی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved