ایک مثالی انسان کو کیسا ہونا چاہیے اس حوالے سے معاشرے میں ـمختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ جب ہم قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس حوالے سے قرآن مجید نے ہماری بڑے خوب صورت انداز میں رہنمائی کی ہے۔ چنانچہ سورہ فرقان میں عباد الرحمن ،سورہ مومنون میں فردوس کے ورثاء ،سورہ الذاریات میں اہل تقویٰ اور سورہ معارج میں جنت میں عزت وتکریم پانے والے لوگوں کے جن اوصاف کا ذکر کیا گیا وہ درج ذیل ہیں:
سورہ فرقان کی آیت نمبر 63 سے 77 تک اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے خصوصی بندوں کی صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ''اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل مخاطب ہوتے ہیں (تو ان سے بحث کرنے کی بجائے ) وہ انہیں سلام کہتے ہیں ۔اور یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے لیے سجدہ اور قیام کرتے ہوئے رات گزارتے ہیں۔اور کہتے ہیں اے ہمارے رب !ہم سے جہنم کا عذاب پھیر دے، بے شک اس کا عذاب چمٹ جانے والی مصیبت ہے۔ بے شک وہ (جہنم )بری قرار گاہ اور قیام گاہ ہے۔ اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں (تو) نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ خرچ میں تنگی اور (ان کا خرچ) اس کے درمیان معتدل ہوتا ہے ۔ اور وہ لوگ اللہ کے سوا کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور نہ وہ اس جان کو قتل کرتے ہیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو یہ (کام) کرے گا اسے ملے گی سخت گناہ (کی سزا)۔ا س کے لیے قیامت کے دن عذاب دوگنا کیا جائے گا اور وہ اس میں ذلیل ہو کرہمیشہ رہے گا ۔مگر جس نے توبہ کی ،ایمان لایا اور نیک عمل کیا۔تو یہی لوگ ہیں (کہ ) اللہ ان کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دے گا۔ اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم کرنے والا ہے۔ اور جو توبہ کرے اور نیک عمل کرے تو بے شک وہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے ۔ اور وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے ، اور جب وہ بے ہودہ کام (کے پاس) سے گزریں (تو) باوقار انداز میں گزر جاتے ہیں۔ اور جب وہ نصیحت کیے جائیں اپنے رب کی آیات کے ساتھ (تو)ان پر بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گر پڑتے (بلکہ غور وفکر کرتے ہیں) اور وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب ہماری بیویوں اورہماری اولاد کی طرف سے ہمیں آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر، اور ہمیں پرہیز گاروں کا امام بنا ۔ انہیں لوگوں کو بدلے میں دیا جائے گا اونچا محل ۔اس وجہ سے کہ انہوں نے صبر کیا اور ان کے استقبال کیے جائیں گے اس میں دعا وسلام کے ساتھ۔ وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ وہ اچھی قرار گاہ اور قیام گاہ ہے ۔ آپ کہہ دیجئے نہیں پروا کرتا تمہاری میرا رب اگر تمہارا (اس کو )پکارنانہ ہو ، سو بے شک تم نے جھٹلایا ہے تو جلد ہی لازمی(اس کی سزا) ہو گی۔ سورہ فرقان کی ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے منتخب بندے نہ تو زمین پر اکڑ کر چلتے ہیں اور نہ ہی شرک، قتل وزناکاری جیسے کبیرہ گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کی آیات پر غوروفکر کرنے والے، لغویات سے اجتناب کرنے والے ،کلام الٰہی کی آیات پر غور کرنے والے ،معتدل انداز میں خرچ کرنے والے اور شب زندہ دار ہوتے ہیں۔
اسی طرح سورہ مومنون کی آیت نمبر 1سے 11 تک اللہ تبارک وتعالیٰ نے فردوس بریں کے حق داروں کا ذکر کیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ''یقینا ایمان والے فلاح پا گئے ۔ جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں۔اور وہ جو لغویات سے اعراض کرنے والے ہیں۔ اور جو زکوٰۃ کو ادا کرنے والے ہیں۔ اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔مگر اپنی بیویوں یا ملکیتی لونڈیوں پر ‘ تو بلاشبہ وہ ملامت کیے ہوئے نہیں ہیں ۔ پھر جو تلاش کرے اس کے علاوہ (کوئی اور طریقہ) تو وہی لوگ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔ اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا لحاظ کرنے والے ہیں۔ اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ وہی لوگ ہی وارث ہیں۔جو فردوس کے وارث ہوں گے وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ ‘‘ سورہ مومنون کی ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ آخرت کی بلندیوں سے ہمکنار ہونے والے لوگ نمازوں کی حفاظت کرنے والے، نمازوں میں خشوع وخضوع کو اختیار کرنے والے،زکوٰۃ کو ادا کرنے والے اور لغویات سے اعراض کرنے والے ہیں۔ یہ لوگ بدکرداری سے اجنتاب کرنے والے اور اپنی امانتوں اور وعدوں کا لحاظ کرنے والے ہیں۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ ذاریات کی آیت نمبر 15 سے 19 میں ارشاد فرمایا : ''بے شک متقی لوگ باغات اور چشموں میں ہوں گے ۔جو ان کا رب انہیں دے گا وہ (اسے ) لینے والے ہوں گے ۔ بے شک وہ اس سے قبل (دنیاـمیں) نیک کام کرنے والے تھے۔ وہ رات کے بہت کم حصے میں سوتے تھے۔ اور وہ اوقات سحر میں مغفرت طلب کرتے تھے۔ ان کے مالوں میں مانگنے والے اور محروم (نہ مانگنے والوں) کاحق ہوتا ہے۔ سورہ ذاریات کی ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل تقویٰ شب زندہ دار، سحری میں مغفرت طلب کرنے والے اور صدقات وخیرات کرنے والے ہوتے ہیں۔
اسی طرح سورہ معارج کی آیت نمبر 22 سے 35 میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے آخرت میں کامیاب ہونے والے لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ''سوائے ان نمازیوں کے جو اپنی نمازوں پر ہمیشگی اختیار کرنے والے ہیں۔ اور (وہ) جن کے مالوں میں مانگنے والے اور محروم (نہ مانگنے والے ) کا حق (حصہ) مقر ر ہے۔ اور وہ لوگ جو تصدیق کرتے ہیں روز جزا کی۔اور وہ جو اپنے رب کے عذاب سے ڈرنے والے ہیں۔یقینا ان کے رب کا عذاب (ایسا ہے کہ اس سے ) بے خوف نہ ہوا جائے۔ اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں مگر اپنی بیویوں یا ملکیتی لونڈیوں پر ،تو بے شک وہ نہیں ملامت کیے ہوئے۔ پھر جو ڈھونڈے اس کے علاوہ (کوئی راستہ) تو وہ ہی حد سے گزرنے والے ہیں۔ اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد (کا) لحاظ رکھنے والے ہیں۔ اور وہ جو اپنی گواہیوں پر قائم رہنے والے ہیں۔ اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہی لوگ جنتوں میں عزت دیے جائیںگے۔ ‘‘
ان آیات میں جنت میں عزت کے ساتھ داخل ہونے والے لوگوں کے اوصاف کا ذکر ہے کہ وہ باقاعدگی سے نماز ادا کرنے والے، صدقہ وخیرات کرنے والے، یوم جزا پر یقین رکھنے والے اور اپنے رب کے عذاب سے ڈرنے والے ہیں۔ یہ لوگ بدکرداری سے اجتناب کرنے والے، امانتوں اور وعدوں کا پاس کرنے والے اور شہادت حق پر قائم رہنے والے ہیں۔
قرآن مجیدکے ان تمام مقامات پر غوروخوض کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایک مثالی انسان وہی ہو سکتا ہے جو حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کو بھی پورا کرنے والے ہو۔ اسی طرح ایک مثالی انسان دنیاوی معاملات اور امور کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت اور اس کے حقوق کی ادائیگی میں کسی قسم کی غفلت اور کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوتا۔ گویا کہ ایک مثالی انسان ہونے کے لیے دین اور دنیا میں توازن برقرار رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ چنانچہ دنیا وی امور کو ترک کرکے گوشہ نشینی کی زندگی گزارنے والا زاہد یا اللہ تعالیٰ کے حقوق سے غفلت اختیار کرکے دنیا کی زندگی میں کھو جانے والا امیر وکبیر انسان مثالی انسان نہیں۔ مثالی شخص وہی ہے جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ ذمہ داریوں کو بھی نبھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے کام آنے کے لیے بھی حتی المقدور کوشش کرتا رہتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو مثالی انسان بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !