تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     26-07-2017

خون نا حق چھپے گا کیسے ؟

سوشل میڈیا کی ایک پوسٹ نے میرے ایمان کو مزید پختہ کر دیا ہے کہ'' خدا کے ہاں اس کی کسی مصلحت کی وجہ سے دیر ہو سکتی ہے اندھیر نہیں کیونکہ یہ نظام ہستی جو چلا رہا ہے وہ خدا بڑا ہی حکمت و دانش والا ہے‘‘۔ منہاج القران کے دروازے پر ایک عورت کے منہ سے ابلتے ہوئے خون اور چند سیکنڈ بعد ساتھ کھڑی ہوئی لڑکی شازیہ کے سر اور سینے پر گولیوں کی تڑ تڑاہٹ سننے اور پھر ایک چھوٹی سی بچی کو روتے، سسکتے اور چیختے ہوئے ٹی وی کی سکرینوں پر یہ سوال کرتے سنا'' میری ماں کو کیوں مارا ہے میری پھوپھو کو کیوں مارا ہے ان کا کیا قصور تھا تم لوگوں کا کیا بگاڑا تھا ؟۔ یقین کیجئے میں بے اختیار رو پڑا مجھے ایسا لگا کہ میرے اندر کا وجود قتل کر دیا گیا ہے او جب یہ سنا کہ تنزیلہ نامی جس خاتون کے منہ سے فوارے کی طرح خون ابل رہا تھا وہ اپنے پیٹ میں تین ماہ بعد اس دنیا میں آنے والی معصوم روح لئے ہوئے تھی جو آر اوز کے دیئے گئے بھر پور '' عوامی مینڈیٹ کی بر بریت‘‘ کا شکار ہو چکی ہے تو یقین نہ آیا کہ میں کسی مسلم اور مہذب معاشرے میں رہ رہا ہوں ؟۔ دیئے جانے والے اس مینڈیٹ کے ایک ایک لمحے کا ظلم اور قومی خزانے کو ہونے والے نقصان کی ذمہ داری بلا شک و شبہ انآر اوزپر برابر کی عائد ہو گی بس روز محشر کا انتظار کریں۔
آج بھی تنزیلہ اور شازیہ نام کی اس بچی کی پکار جب کانوں میں گونجتی ہے تو لمحے بھر میں سیاہ برقعے میں زمین پر گری ہوئی نوجوان شازیہ اور منہ سے فوارے کی طرح خون ابلتی ہوئی تنزیلہ کی لاشیں اپنے قاتلوں کو چلا کر کہتی نظر آتی ہیں '' ہم اپنے اﷲ کے پاس پہنچ چکی ہیں اس کا ہم سے وعدہ ہے کہ ہر ذی روح کو اس کے ظلم کا بدلہ ہر صورت میں ملے گا لیکن ا س کیلئے میں نے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے نہ ایک لمحہ آگے نہ ایک لمحہ پیچھے‘‘۔ظالم کوئی بھی ہو وہ اس وسیع دنیا میں جہاں چاہے بھاگ جائے جد ھر چاہے چھپ جائے اﷲ کی پکڑ سے نہیں بچ سکے گا ۔ 
لوگ شائد اس غلط فہمی میں ہیں کہ روحیں اپنے خون کا قصاص نہیں لے سکتیں ان کے نا حق قتل کا قصاص ضرور لیا جاتا ہے کیونکہ یہ حق انہوں نے اپنے اﷲ کے سپرد کر دیا ہوتا ہے کہ اب ۔۔۔وہ جانے اور اس کا کام اس لئے کہ وہ بہترین انتقام لینے والا ہے۔ماڈل ٹائون کی شہید ہونے والی خواتین کی آخری سانسوں کے ساتھ درود پاک ﷺ کی آوازیں ٹی وی پر یہ قتل عام دیکھنے والوں نے اپنے کانوں سے سنی ہیں۔۔۔اس لئے قسم ہے اس پاک ذات کی کہ یہ عمران خان اور پاناما لیکس تو صرف ایک بہانہ ہیں!!
جس بربریت پر مبنی منظر کو مجھ جیسا دنیا دار اور سخت دل انسان نہیں بھولا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس بات کو نہائت مہربان رب بھول گیا ہو گا؟۔ا س لئے چاہے جو مرضی کر لے کوئی رہے یا نہ رہے کوئی اہل ہو یا نا اہل ماڈل ٹائون میں ہلاکو اور چنگیز خان کی تاریخ دہرانے والوں کیلئے میرے اﷲ کی پکڑ دن بدن سخت سے سخت تر ہوتی جا رہی ہے اور قرآن پاک میں جگہ جگہ فرمان الٰہی کو دیکھ لو کہ '' اس کی پکڑ بڑی ہی سخت ہوتی ہے‘‘۔کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ ماڈل ٹائون کے اس قتل عام میں شریک کسی بھی عہدے پر تعینات تمام حکومتی اہلکاروں اور حکمرانوں کی دنیا میں پکڑ ہونے ہی والی ہے۔۔۔اور آخرت کا عذاب اس کے علا وہ ہے آج اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں جنیوا میں کسی اعلیٰ عہدے پر تعینات ہونے سے بچ گیا ہوں تو یہ اس کی بھو ل ہے اگر کوئی
سمجھتا ہے کہ ایک بار پھر پولیس میں کوئی بڑا اور اہم عہدہ ملنے سے ماڈل ٹائون کے کئے جانے والے قتل عام سے محفوظ ہوں تو یہ اس کی نا سمجھی ہے ۔جلاد کے ہاتھ ان کی گردن تک پہنچنے ہی والے ہیں کسی بھی لمحے کسی بھی وقت اس لئے کہ'' رب ذوالجلال کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں‘‘۔
دستار اور جبہ پہنے ہوئے وہ عالم دین جنہوں نے اس قتل عام کی حمایت کی جنہوں نے اس قتل عام پر قہقہے اور ٹھٹھے لگائے جنہوں نے اس ظلم کو نہ تو ہاتھ سے روکا نہ ہی زبان سے برا کہا نہ دل میں ہی برا جاننے کی بجائے ذاتی فائدے کیلئے دنیاوی لالچ کیلئے ظالموں کی کسی بھی طریقے سے مدد کی چاہے یہ کسی تحریر کی شکل میں ہو یا تدبیر کی شکل میں۔۔۔ وہ بھی روز محشر مقتولوں کے مقابلے میں ظالموں کے ساتھ کھڑے کئے جائیں گے۔تاریخ کے اوراق ایسے ہی یزیدوں اور ان کے مشیروں کی دنیا میں ذلت سے بھرے پڑے ہیں۔لاہور ایجرٹن روڈ پر واقع ایل ڈی اے پلازہ کی ساتویں منزل پر بھڑکنے والی اس اچانک آگ کو کون بھولا ہو گا جب دیکھتے ہی دیکھتے ساتویں منزل کے ایک مخصوص حصے سے پھیلنے والی آگ نے میٹرو بس کے ریکارڈ کے ساتھ ساتھ25 بے گناہ انسانی جانوں کو بھی راکھ کے ڈھیر میں بدل کر رکھ دیا۔۔۔۔یہ آگ جس کے بارے میں ایل ڈی اے کے بڑے افسران اور حکومتی وزراء کی جانب سے کہا جانے لگا کہ یہ حادثاتی طور پر شائد شارت سرکٹ کی وجہ سے لگی ہے۔۔۔۔لیکن جب عمران خان اور میڈیا کی جانب سے اس پر دبائو بڑھا تو اس کی انکوائری کیلئے PFCA یعنی پنجاب فورنزک سائنس ایجنسی پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی جس نے اپنی رپورٹ میں صاف اور واضح طور پر لکھ دیا کہ '' ایل ڈی پلازہ کی ساتویں منزل پر لگنے والی آگ کسی حادثے کی وجہ سے نہیں لگی‘‘۔
اس وقت لاہور کے ڈی سی او نسیم صادق جن کی ایمانداری اور پاکستان سے ٹوٹ کر محبت کرنے کی سوچ جے آئی ٹی کے چھ ارکان کی طرح ہے انہوں نے جو کچھ اس آگ کے بارے اس وقت کہا اس کی تصدیق پنجاب فورنزک سائنس ایجنسی کے کرائم سین انوسٹی گیشن یونٹ نے اپنی رپورٹ میں اس طرح کی ۔۔۔۔۔یہ آگ ساتویں منزل پر واقع اس 9x6 سکوائر فٹ حصے میں مشرقی سمت کی دیوار کی جانب پھیلتی گئی اور یہ اس منزل کا واحد حصہ ہے جہاں فائلیں رکھی ہوئی تھیں اس میں راکھ ہوجانے فائلیں پہلے سے وہاں ڈمپ نہیں تھیں۔ایل ڈی اے پلازہ میں تعینات سکیورٹی گارڈ کا کہنا ہے کہ اس نے کسی قسم کے دھوئیں کی بجائے ایک شعلہ سا لپکتا ہوا دیکھا ہے جبکہ سکیورٹی آفیسر سے کی جانے والی تفتیش سے یہ بات سامنے آئی کہ راکھ میں تبدیل ہونے والی یہ فائلیں ابھی حال ہی میں وہاں لائی گئی تھیں۔۔۔اس وقت کے ڈی سی او لاہور نسیم صادق نے کہا تھا کہ ''ان کی اطلاع کے مطابقsome one had brought important files to the 7th floor of the building-which at the time, was being prepared for the demolition of its top three storeys--and set them on fire.۔۔۔۔۔ کیا ایل ڈی اے پلازہ کے25 انسان اور ماڈل ٹائون کے14 افراد جن میں دو خواتین اور ایک چھ ماہ کی روح شامل ہے ان سب کی فریاد دیواروں سے ٹکرا کر رہ جائے گی؟۔۔۔نہیں بے شک ہم سب کیلئے اﷲ کی پکڑ بہت ہی سخت ہے۔ !!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved