کچھ جانتے ہیں ، ان میں سے ایک کا نام علی گیلانی ہے ۔ سید علی گیلانی ، محمد علی کا ہم نام اور ہم نفس ، قائدِ اعظم محمد علی جناح ؒکا۔
پاکستان کا مستقبل کیا ہے ؟ بارہ سنگھے کی طرح ، جس کے سارے سینگ جھاڑیوں میں پھنسے ہیں ۔ پیر زادہ صاحب سے نجومی نے یہ کہا : ہولناک خطرات ہیں ، بے شمار خطرات ۔ آنے والے کل کے لیے امید کی کوئی کرن نہیں ۔ اس کے اصل الفاظ اوربھی زیادہ سخت تھے۔ اس کے منہ میں گویا ان ترقی پسندوں میں سے کسی کی زبان آ گئی تھی ، قائدِ اعظم ثانی کے گرد جنہوں نے گھیراڈال رکھا ہے ۔ وہ جو کبھی سوویت یونین کا گیت گایا کرتے۔ آج کل انکل سام کے دریوزہ گر ہیں ؛حتیٰ کہ نریندر مودی والے بھارت کے بھی ۔
پیر زادہ کو ملال تھا کہ ستارہ شناس سے انہوں نے سوال ہی کیوں کیا۔ تادیر اقبالؔ کا شعر وہ پڑھتے رہے کہ دانائے راز سے ہمیشہ کا تعلق چلا آتا ہے ۔
میرے خم و پیچ کو نجومی کی آنکھ پہچانتی نہیں ہے
ہدف سے بیگانہ تیر اس کا، نظر نہیں جس کی عارفانہ
پھر اسی موضوع پر انہی کے دو اور اشعار سنائے ۔
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخی ء افلاک میں ہے خوار و زبوں
ترے مقام کو انجم شناس کیا جانے
کہ خاکِ زندہ ہے تو تابع ستارہ نہیں
ایک درویش سے ملاقات کا قصد تھا، جس کا کہنا یہ ہے '' پیر نہ فقیر، البتہ مسافر میں راہِ سلوک کا ہوں ‘‘ راہ میں خواجہ مہر علی شاہؒ کے فرزند بابو جی کا ذکر چھڑا تو ایک قصہ انہوں نے سنایا: مدتوں سے گولڑہ گائوں کے پٹھانوں سے چشمک چلی آتی تھی ۔ راولپنڈی اور گولڑہ کے درمیان ریلوے کراسنگ پر مورچہ دشمن نے بنا رکھا تھا۔ گولیوں کی پہلی بوچھاڑ جیپ پر پڑی تو پلٹ کر انہوں نے دیکھا۔ عقبی نشست پہ براجمان اپنے پسندیدہ قوّال ، محبوب سے انہوں نے کہا ۔ گائو نا محبوب!
نسیما جانب بطحا گزرکن
زاحوالم محمدؐ راخبر کن
اے بادِ نسیم وادی ء بطحا کو جا اور محمدؐ کو میرے حال کی خبر دے ۔کپڑے کی چھت اوردیواروں والی جیپ وہیں کھڑی رہی ، گولیاں برستی رہیں ۔ محبوب گاتا رہا ۔
نسیما جانبِ بطحا گزرکن
زاحوالم محمدؐ راخبر کن
دونوں آدمی ، خواجہ مہر علی شاہ ؒکا فرزند اور ان کا ایک ہم سفر اس انہماک سے سنتے رہے کہ قاتلوں کی زد میں نہیں ، گویا اپنے گھر کے آنگن میں آسودہ ہوں۔
ببر ایں جانِ مشتاقم بہ آں جا
فدائے روضہئِ خیر البشر کن
توئی سلطانِ عالم یا محمدؐ
زروئے لطف سوئے من نظر کن
مشرف گرچہ شد جامی زلطفش
خدایا ایں کرم بارِدگر کن
آپؐ ہی سارے عالم کے سلطان ہیں ۔ ازراہِ کرم میری جانب بھی نگاہِ لطف کیجیے ۔ میری جان اشتیاق یہ رکھتی ہے کہ روضہئِ خیر البشر پہ فدا ہو جائے ۔ جامی کو اگرچہ آپؐ کی نوازش حاصل ہوئی ۔ مگر اے خدا، التجا یہ ہے کہ ابرِ کرم بار بار برسے۔
گولیوں کا مینہ برستا رہا ، محبوب گاتا رہا ۔
نسیما جانب بطحا گزرکن
زاحوالم محمدؐ راخبر کن
جیپ چھلنی ہو گئی۔ مسافروں کا مگر بال بھی بیکا نہ ہوا۔ تھک ہار کے حملہ آور چلے گئے۔ معلوم نہیں ، زخمی گاڑی خواجہؒ کے مرقد تک کیسے لے جائی گئی ۔ بڑے بوڑھے روایت کرتے ہیں کہ مدتوں گھر کے باہر پڑی رہی ؛تا آنکہ سرگودھا کے معروف لک خاندان کی فرمائش پر انہیں سونپ دی گئی ۔ کہا جاتاہے کہ اب بھی ان کے گائوں میں اپنے زخموں کے ساتھ کھڑی ہے ۔
سات سو برس ہوتے ہیں ، شترسواروں کا ایک قافلہ مدینۃ النبیؐ سے دمشق کی راہ پر گامزن تھا۔ اس آدمی کو مٹی اوڑھ کر سوئے،کئی برس بیت گئے تھے، برسوں تک جس نے صلیبی لشکروں کی مزاحمت کی تھی ۔ خواب میں سرکارؐ نے جس کو خبر دی تھی کہ بد بخت یہودی نقب لگا کر مزارِ اقدس سے پیکرِ اطہر کو چرا لے جانا چاہتے تھے۔ پھر جس نے سیسے کی دیواروں کا حصار تعمیر کیا تھا۔ ۔۔نور الدین زنگی!
اب صلاح الدین اس کا جانشین تھا ۔شتر سواروں کے اس کاررواں میں اس کی سگی بہن بھی تھی ۔ مدینہ منورہ سے پرے ، کھلے سمندر میں لنگر انداز صلیبیوں کا ایک لشکر خاک پہ اترا اوردفعتاً حملہ آور ہوا۔ تو صلاح الدین کی بہن نے پکار کر کہا '' وا محمّدا‘‘ ۔ اے محمدؐ، اے محمدؐ۔ یروشلم کے آقا، کوڑھی بالڈن کے سالار نے کہا : آج تو تمہارا خدا بھی تمہیں بچا نہیں سکتا۔
سرکارؐ کے ارشادات میں سے ایک یہ ہے : ہر زمانے میں ایسے چالیس آدمی موجود رہیں گے کہ قسم کھا لیں تو پوری کر دی جائے گی ۔ ایوبی کے فرزند کو خبر ملی تو اس نے کہا : خدا کی قسم اپنے ہاتھ سے میں اسے قتل کروں گا۔ باقی تاریخ ہے ۔
نہ صرف ان کے ہاتھ سے قتل ہوا بلکہ سات صدیوں تک بیت المقدس میں مسلمانوں کے اقتدار کا چراغ جلتا رہا ؛حتیٰ کہ دوسری عالمگیر جنگ میں فرانسیسی لشکر دمشق میں داخل ہوا ۔۔۔ اور اس کے سالار نے قبر کو ٹھوکر مار کر کہا : صلاح الدین ، ہم پھر آگئے ہیں ۔
ہمارا ادبار کیا دائمی ہے ؟ فقیر سے ، ستارہ شناس کی کالی پیش گوئی کا ذکر کیاگیا۔ درویش نے حمادی میں درج مشہور حدیث کا حوالہ دیا۔ فرمایا: آپؐ کا ارشاد یہ ہے کہ ہند کے مسلمان ہند کے مشرکین کو شکست دیں گے ، پھر ابنِ مریمؑ کے ساتھ دمشق میں یہودیوں سے لڑیں گے ۔ یہ تو فقیر کی زبان نے کہا، لہجے کے گداز نے کہا : تم کیسے مسلمان ہو کہ سرکارؐ کی خوشخبری سے واقف ہو ۔اس کے باوجود شکوک کا شکار ہو جاتے ہو۔
تہجد نہیں تو نمازِ فجر کے لیے انہیں بہرحال جاگنا تھا۔ مگر تا دیر اپنے پاس بٹھائے رکھا ۔ کھانا کھلایا ، دلجوئی کی، تاریخ کے نشیب و فراز تخلیق کرنے والے ابدی قوانین کا حوالہ دیا اور ایک پاکستانی جنرل کا واقعہ سنایا۔ کبھی ان سے جو ملنے آئے تھے۔
جنرل کے سپرد کیا گیا علاقہ وسیع اور سپاہی کم تھے۔ رات گئے تک کاغذ پر پلاسٹک کے سپاہی سجاتے ، اسے نیندآگئی کہ کہاں کہاں کتنے جوان وہ متعین کرے ۔ خواب کے اسی عالم میں سرکارؐ تشریف لائے۔ اپنا ہاتھ بڑھا کر آپؐ نے صفیں مرتب کر دیں ۔ نام لکھنا زیبا ہے، نہ اسے خوش آئے گا ، فقیر کو بھی نہیں ۔ وہ جنرل آج بھی پاکستانی فوج کا حصہ ہے ۔
کچھ لوگ یہ بات کبھی نہیں سمجھ سکتے، کچھ سمجھنے کے آرزومند ہی نہ ہوں گے ۔ یہ فقط مملکتِ خداداد ہی نہیں ، اس پر سرکارؐ کی نگاہِ کرم ہے ۔ مدینۃ النبیؐ کی وارث ہے ، یہ بستی مدینۃ النبیؐ کی۔ زندگی پیدا کرنے والا رب ، اپنے منصوبے کے تحت اس کے مقدر کا فیصلہ کرے گا۔
کچھ جانتے ہیں ، ان میں سے ایک کا نام علی گیلانی ہے ۔ سید علی گیلانی ، محمد علی کا ہم نام اور ہم نفس ، قائدِ اعظم محمد علی جناح ؒکا۔