تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     27-07-2017

سُندر سپنے اور باسی روٹی!

کسی بھی محلے میں وہ گھر ہر اعتبار سے ''تاجدار‘‘ کا سا درجہ رکھتا ہے جس کا رقبہ زیادہ ہو، تعمیر عمدہ ہو، گھرانے کے افراد کی تعداد نمایاں حد تک زیادہ ہو اور آمدن اُس سے بھی زیادہ نمایاں حد تک زیادہ ہو۔ ایسے گھر والے پورے محلے پر دھاک بٹھائے رکھنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ چوہدراہٹ قائم کرنا اور اُسے برقرار رکھنا کس کا خواب نہیں ہوتا؟ اگر چوہدراہٹ فی الواقع چھن جائے تب بھی اُس کے نتیجے میں رگ و پے میں سمائی ہوئی خُو، بُو آسانی سے نہیں جاتی۔ 
جنوبی ایشیا بھی ایک ایسا ہی محلہ ہے جس میں بھارت نے ایک طویل مدت سے چوہدراہٹ جمائے رکھی ہے۔ کئی ممالک کو اُس نے بندۂ بے دام کے مانند مطیع و فرماں بردار بنے رہنے پر مجبور کیا ہے۔ بنگلہ دیش، نیپال اور بُھوٹان اِس کی واضح ترین مثال ہیں۔ اِن تینوں ممالک کے لیے بھارت کے دائرۂ اثر سے نکلنا اب تک تسلی بخش حد تک ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ بنگلہ دیش کا معاملہ سب سے بُرا رہا ہے۔ مشرقی بنگال یعنی سابق مشرقی پاکستان کے مکینوں نے ''پنجابی سامراج‘‘ سے گلو خلاصی اور وفاق کی غلامی کا طوق گردن سے نکال پھینکنے کے نام پر پاکستان سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا۔ اگر وہ الگ ہوکر اپنی مرضی کی زندگی بسر کر رہے ہوتے تو اُنہیں روٹی سُوکھی کھاکر، چٹنی روٹی پر گزارا کرتے ہوئے دیکھ کر بھی دل کو خوشی ہوتی کہ چلیے، اپنی مرضی کے مطابق جی تو رہے ہیں۔ مگر معاملہ یہ ہے کہ اپنے قیام کے بعد سے اب تک بنگلہ دیش بھارت کی غلامی کے دائرے سے باہر نہیں آسکا ہے۔ گویا لالہ جی، خدا کی تلاش میں نکلے تھے مگر وصالِ صنم سے بھی گئے! 
نیپال اور بُھوٹان بھی بھارت کی بالا دستی قبول کرنے پر مجبور ہیں کہ دونوں ہی خشکی سے گِھرے ہوئے ممالک ہیں۔ اُن کی بقاء کا راستہ اب تک بھارت کی خوشنودی سے ہوکر گزرتا ہے۔ سری لنکا کو بھارت نے ایک مدت تک بہت پریشان کیا۔ اب وہ معقول حد تک اپنے پیروں پر کھڑا ہوچکا ہے اور قومی مفادات کو زیادہ سے زیادہ مستحکم بنانے والی پالیسیاں اپنانے کی پوزیشن میں ہے مگر پھر بھی وہ ہر معاملے میں بھارت سے متصادم ہونے کی اہلیت سے بہرحال دور ہے۔ 
نئی دہلی کو معاشی استحکام پر بہت ناز ہے۔ معاشی استحکام ہی نے اُسے سلامتی سے متعلق امور میں بھی الٹی سیدھی حرکتیں کرنے پر اکسایا ہے۔ بڑی منڈی ہونے کا نئی دہلی نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ پاکستان کا صنعتی ڈھانچا اس لیے بھی مستحکم نہیں ہو پاتا کہ بڑے پیمانے کی پیداواری صلاحیت کا بھرپور فائدہ اٹھانے میں بھارت نے کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ 
جیب بھری ہو تو انسان کو مستی سُوجھتی ہے۔ اور جو اصول کسی ایک فرد پر لاگو ہوتا ہے وہی پوری قوم پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ ایک ڈیڑھ عشرے کے دوران پاکستان کو دہشت گردی کے حوالے سے شدید ترین مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ بڑی طاقتوں نے پاکستانی سرزمین کو دہشت گردوں کا ٹھکانہ بنانے اور تباہی سے دوچار کرنے میں کوئی کسر بھی اٹھا نہیں رکھی اور دوسری طرف پاکستان کو بدنام کرنے کی بھی ہر وہ کوشش کی ہے جو کی جاسکتی ہے۔ یعنی ع 
وہی قتل بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا 
امریکا اور یورپ نے پاکستان کو یوں نشانے پر رکھا کہ ڈھنگ سے سانس لینے کی گنجائش بھی نہیں چھوڑی گئی۔ نئی دہلی کے بزرجمہروں نے صورتِ حال کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ تمام فوائد بٹورے جو بٹورے جاسکتے تھے۔ اور معاملہ صرف فوائد بٹورنے تک محدود نہ رکھا گیا بلکہ پاکستان کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کی منزل تک بھی پہنچایا گیا! 
خیر سے اب ''کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے‘‘ والی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔ پاکستان تو خیر ڈٹا ہی رہا ہے، اب ایک اور پُرانا حریف نئی سج دھج اور قدرے بے داغ تیاریوں کے ساتھ مارکیٹ میں آیا ہے۔ چین نے بینڈ باجے کے ساتھ اینٹری دی ہے۔ پاک چین راہداری منصوبے (CPEC) کا شور ابھی تھما بھی نہ تھا کہ چین نے ون بیلٹ ون روڈ (OBOR) منصوبے کی داغ بیل ڈال دی۔ 
بھارت نے یہ سمجھ لیا تھا کہ نائن الیون کے بعد کی دنیا میں اب وہ ہے، امریکا ہے اور یورپ ہے۔ باقی سب تو بس یونہی خانہ پُری کے لیے ہیں۔ نئی دہلی کے پالیسی میکرز اور بھی بہت کچھ بنانے کے فراق میں تھے۔ بھارت کو کسی نہ کسی طور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنا اُن کا خواب رہا ہے مگر معاملہ بہت حد تک مور والا ثابت ہوتا رہا ہے۔ مور ناچتے ناچتے پیروں کی طرف دیکھتا ہے تو اُس کی آنکھ سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں۔ نئی دہلی کے منصوبہ ساز بھی عالمی برادری میں سَر اٹھاکر چلنے کی بہت کوشش کرتے ہیں مگر اِس کا کیا علاج کہ وہ بھارت کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی غربت دور کرنے میں کامیابی کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اور سوال محض جیب کے خالی ہونے کا نہیں، ذہن کے خالی ہونے کا بھی ہے۔ بھارت بھر میں معاشرتی اور اخلاقی افلاس بھی قیامت ڈھانے پر تُلا ہوا ہے۔ چمکتے دمکتے بھارت کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے دعوے کرنے والی بی جے پی سرکار محض ووٹ بینک برقرار رکھنے کے لیے مسلم مخالف جذبات کی لہر کو برقرار رکھنے پر تُلی ہوئی ہے اور ہندوؤں میں مسلم مخالف انتہا پسندی کے گھوڑے کو سرپٹ دوڑاکر ترقی کے تمام امکانات کی واٹ لگانے پر تُلی ہوئی ہے! 
نئی دہلی کے پلانرز اور پالیسی میکرز نے خدا جانے کیا کیا خواب اپنی آنکھوں میں سنجو رکھے تھے کہ اچانک چین سامنے آگیا اور پڑوسیوں کو آں جہانی گیتا دت کے گائے ہوئے ایک گانے کا مکھڑا یاد دلادیا جو کچھ یوں تھا ع 
میرا سُندر سپنا ٹوٹ گیا 
نائن الیون کے بعد کی دنیا میں پاکستان سمیت اسلامی دنیا کے بیشتر ممالک کے لیے شدید مشکلات پیدا ہوئیں تو بھارت نے یہ سمجھ لیا کہ اب راستہ صاف ہے، جو چاہو کرتے پھرو۔ کوئی روکنے والا ہوگا نہ ٹوکنے والا۔ ایسے میں چین نے تین عشروں کے دوران کی جانے والی منصوبہ بندی کو طشت از بام کرنا شروع کیا تو بھارت نے امریکا کی شہ پر ''یہ شادی نہیں ہوسکتی‘‘ کا نعرہ لگانے کی کوشش کی۔ جواب میں چین نے عشروں سے چلے آرہے سرحدی تنازع کا پتیلا اِس قدر اہتمام کے ساتھ چولھے پر چڑھایا ہے کہ نئی دہلی کے اربابِ بست و کشاد نہ چاہتے ہوئے بھی ''ابھی دِلّی دور ہے‘‘ کا راگ الاپنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ بھارت سمجھ رہا تھا کہ پکی پکائی تازہ روٹی کے مصداق گوناگوں مفادات آسانی سے حاصل ہوجائیں گے۔ چین نے آگے بڑھ کر بتادیا ہے کہ خوش فہمی کی دنیا میں رہنا صرف پچھتاوے کے بیج بوتا ہے! 
واشنگٹن کی شہ پر نئی دہلی نے بیجنگ اور اسلام آباد دونوں کو دبوچنے کا سوچا مگر یہ نہ سوچا کہ اِس دنیا میں سب کچھ اپنی مرضی کے مطابق نہیں ملتا۔ کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا بھی پڑتا ہے۔ نئی دہلی کے عالی دماغ کھونے پر زیادہ یقین نہیں رکھتے۔ کچھ کھوئے بغیر بہت کچھ پانے کی تمنّا کرنے والوں کو پکی پکائی روٹی ضرور ملتی ہے مگر باسی، اور کبھی کبھی تو پھپھوندی لگی ہوئی! نئی دہلی کو صرف اتنا یاد رکھنا چاہیے کہ واشنگٹن اور لندن بہت دور کے ڈھول ہیں اِس لیے سہانے لگ رہے ہیں۔ بیجنگ اور اسلام آباد نزدیک کی، بلکہ پہلو میں بسی ہوئی سچائیاں ہیں۔ اِن دونوں کو نظر انداز کرنے سے سُندر سپنے ٹوٹتے رہیں گے اور پکی پکائی باسی روٹی پر گزارا کرتے رہنا پڑے گا!



 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved