نجی ٹی وی کی سکرین پر ابھرنے والی اس سلائیڈ نے چونکا کر رکھ دیا کہ57 ہزار کی خورد برد کرنے پر سات ملازمین کو پنجاب اینٹی کرپشن نے گرفتار کر لیا۔بات ہی کچھ ایسی تھی کہ انسان چونک جائے۔ حکومت پنجاب کے 57 ہزار روپے جو ان سات ملازمین نے خرد برد کئے۔ ان سب میں آٹھ ہزارروپے فی کس کے اعتبارسے تقسیم ہو ئے ہوں گے۔ اگر آٹھ ہزار روپے کے غبن پر ایک پاکستانی کو گرفتار کیا جا سکتا ہے تو پھر کروڑوں، اربوں روپے کا غبن کرنے والوں کو اس قدر آزادی کیوں ؟ کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں غریب اور امیر کے لیے مختلف قوانین ہیں ؟ اگر ایسا نہیں تو بہتر ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یہ قانون بنا دیا جائے کہ پچاس ہزار ماہانہ سے کم کمانے والوں پر ہرقسم کے قانون کا اطلاق ہو گا جبکہ لاکھوں کروڑوں کمانے والوں کیلئے کوئی قانون نہیں ہو گا ،وہ جو جی چاہے کریں، جس قدر چاہے لوٹ مار کریں ان کو ہر قسم کی آزادی ہے۔ عمران خان نے جب کرپٹ اور بددیانت لوگوں کے خلاف آواز اٹھانا شروع کی تو قدرت کو اس پر رحم آ گیا،پاناما نے اپنے راز اگلنا شروع کر دیئے ،پاکستانیوں کے خزانے بھی ظاہر ہو گئے ...معاملہ سپریم کورٹ تک جا پہنچا جس پر عدالت عظمیٰ کے معزز بنچ نے چھ اراکین پر مشتمل مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی)تشکیل دے دی تاکہ ہر چھپا ہوا قومی خزانہ ڈھونڈ نکالاجائے ۔ سپریم کورٹ نے یہ جے آئی ٹی تشکیل دے تو دی لیکن اس ٹیم میں شامل ارکان میں سے کسی کے تصور میں بھی وہ کٹھن مراحل نہ تھے ،جن کا جے آئی ٹی کے ارکان اور ان کے خاندانوں نے سامنا کیا۔ انہیں ہر لمحے یہی ڈر رہتا کہ کسی بھی وقت کوئی نا معلوم ہاتھ ا ن کے اہل خانہ کے کسی فرد کو نشانہ بنا دے گا ۔ ان چھ اراکین نے جب دیکھا کہ خطرات شدید تر ہو گئے ہیں تو انہوں نے اپنے خاندانوں کو بیرون ملک بھجوا دیا۔ ساٹھ دن سے اب تک وہ سکون کی نیند نہ سو سکے انہیں کن کن مراحل اور دشواریوں سے گزرنا پڑا یہ ایک طویل داستان ہے لیکن چونکہ جے آئی ٹی کے ارکان نے حلف اٹھایا تھا کہ وہ اپنا کام انتہائی ایمانداری سے کرتے ہوئے اپنے فرائض ادا کریں گے ۔چنانچہ ملک کو کھوکھلا کرنے والوں کے گرد شہادتوں کا شکنجہ کسنے کیلئے وہ کانٹوں پر چلتے رہے... اور آج دنیا بھر میں پاکستان کی سپریم کورٹ کے تحت قائم‘ اس جے آئی ٹی کا شہرہ ہے۔ جے آئی ٹی کی جانب سے تفتیش کیلئے بلائے جانے والوں سے سوال یہ تھے کہ دوبئی میں گلف سٹیل مل کیسے لگائی گئی ؟اسے کیسے اور کیوں فروخت کیا گیا؟ گلف سٹیل مل کے واجب الادا قرضوں کا کیا بنا؟ گلف سٹیل کی حتمی فروخت کا نتیجہ کیا تھا؟ گلف سٹیل مل کی فروخت سے حاصل شدہ رقم جدہ، قطر اور پھر برطانیہ کیسے پہنچی؟کیا مدعا علیہان نمبر سات اور آٹھ اپنی نو عمری میں1990 کی دہائی کے اوائل میں اتنے مہنگے فلیٹس خرید سکتے تھے؟ سپریم کورٹ میں آپ کے وکیل کی جانب سے پیش کیے جانے والے قطر کے شہزادے حمد بن جاسم بن جابر الثانی کے خطوط کی آمد‘ حقیقت ہیں یا صرف ا فسانہ؟ شیئرز کے شراکت داروں نے فلیٹس کی ملکیت کس طرح طے کی؟میسرز نیلسن انٹر پرائزز لمیٹڈ اور میسرز نیسکول لمیٹڈ کافائدہ اٹھانے والا اصل مالک کون ہے؟ ہل میٹل اسٹیل کس طرح قائم ہوئی؟ مدعا علیہ نمبر آٹھ کے پاس فلیگ شپ انویسٹمنت لمیٹڈ اور قائم کردہ دیگر کمپنیوں میں سرمایہ کاری کیلئے رقم کہاں سے آئی؟ ایسی کمپنیوں کے ذریعے کاروبار کرنے کیلئے سرمایہ کہاں سے آیا؟ مدعا علیہ نمبر ایک کو مدعا علیہ نمبر سات کی طرف سے جو بھاری رقوم کے تحائف ملے وہ کہاں سے آئے؟
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی حتمی رپورٹ تو دس جولائی کو سپریم کورٹ کے تین رکنی معزز بنچ کے سامنے پیش کر دی جس پر سپریم کورٹ میں باقاعدہ سماعت کے بعد اب فیصلہ محفوظ ہو چکا ہے۔۔۔ لیکن یہ ایک ایسی تفتیش تھی جس نے اب تک کی تمام تفتیشوں میں نمایاں مقام حاصل کرلیا ۔سپریم کورٹ کے متعلقہ بنچ کی جانب سے دیئے گئے حکم کے مطا بق تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو جانے والی جے آئی ٹی کی تیار کردہ یہ رپورٹ دنیا بھر کی سیا ست اوروکالت میں زندہ رہے گی۔ سپریم کورٹ کی جانب سے دیئے جانے والے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جے آئی ٹی ہر پندرہ دن بعد،اپنی مرتب کردہ رپورٹس سپریم کورٹ کے سامنے پیش کرتی رہی جسے یقیناََ تین رکنی معزز بنچ نے بہ نظر عمیق دیکھا ہو گا۔یہ رپورٹس بالترتیب بائیس مئی، سات جون اور پھر بائیس جون کو سپریم کورٹ کے رو برو پیش کی گئیں۔ جے آئی ٹی کی دس جولائی کو پیش کی جانے والی رپورٹس میں کی گئی تحقیقات کا خلاصہ، گواہان کے بیانات اور ان کا تجزیہ، گلف سٹیل مل، ہل میٹل کا قیام اور تحائف، فلیگ شپ انویسٹمنٹ لمیٹڈ اوردیگر کمپنیز، نیب اور ایف آئی اے کے مقدمات، حدیبیہ پیپر ملز کیس،علانیہ ذرائع آمد ن سے بڑھ کر اثاثے دیگر مدعا علیہان اور آخر میں دسویں جلد میوچل لیگل اسسٹنس ریکوئسٹ( خفیہ) پر مشتمل ہے۔جسے مدعا علیہ کی درخواست پر انہیں پڑھنے کی اجا زت دے دی گئی۔۔۔لیکن اس میں نہ جانے کیا تھا کہ ان کے وکیل تین صفحات پڑھنے کے بعد ہی خاموشی سے اٹھ گئے۔
پانامہ لیکس کی تحقیقات میں معاونت کیلئے برٹش ورجن آئی لینڈ کے اٹارنی جنرل کو تین درخواستیں بھیجی گئیں، ہوم آفس برطانیہ کی سنٹرل اتھارٹی کو سات درخواستیں بھیجی گئیں جبکہ سعودی عرب کی وزارت داخلہ کو معاونت کیلئے ایک خط لکھا گیا۔۔۔متحدہ عرب امارات کی وزارت انصاف کو سات درخواستیں، سوئٹزر لینڈ کی سنٹرل اتھارٹی کو 2 درخواستیں اور لکسمبرگ کے پراسیکیوٹر جنرل کو معاونت اور معلومات کے حصول کیلئے ایک خط لکھا گیا۔
سپریم کورٹ کے نوٹیفکیشن کے تحت جے آئی ٹی کے چیئر مین کوNAO 1999 کے سیکشن21 کے تحت برٹش ورجن آئی لینڈ، ہوم آفس برطانیہ، وزارت داخلہ سعودی عرب، وزارت انصاف متحدہ عرب امارات، سینٹرل اتھارٹی سوئٹزر لینڈ، پراسیکیوٹر جنرل لکسمبرگ کو خطوط اور درخواستیں بھیجنے کے اختیارات تفویض کر دیئے گئے۔ جے آئی ٹی نے برطانیہ سے تعلق رکھنے والی ایک قانونی فرم'' کوئیسٹ لندن‘‘ اور متعلقہ ریکارڈ اور دستاویزات تک رسائی کیلئے برطانیہ سے تعلق رکھنے والی ایک تحقیقاتی ٹیم کی خدمات حاصل کی گئیں(جن کا حوالہ اپنے17 مئی کے کالم'' پاناما اور جے آئی ٹی‘‘ میں دے چکا ہوں) تاکہ یہاں سے حاصل کی گئی دستاویزات پر ہینڈ رائٹنگ جانچنے اور پرکھنے کیلئے برطانوی ماہرین کا تجزیہ اور رائے لی جا سکے۔مریم نواز شریف کیBVI کمپنیوں نیلسن اور نیسکول کی ملکیتی تصدیق فنانشل انویسٹیگیشن ایجنسی برٹش ورجن آئی لینڈ کے ڈائریکٹر ایرویل جارج سے کرائی گئی ۔۔۔۔!!