تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     28-07-2017

چور اور کھوجی …!

قاسم میرے پاس کام کرتا ہے۔ میرے گائوں سے ہے۔
اس کو کام کا جنون ہے۔ صبح اخبارات میرے کمرے میں چھوڑ جاتا ہے۔ آج سرائیکی میں بولا رات گائوں کے دو گھروں میں سیندھ (نقب) لگی ہے۔
قاسم کی آنکھوں میں گہری حیرانی تھی جیسے کوئی بہت بڑا واقعہ ہوگیا ہو۔
میں بھی حیران ہوا ۔دنیا بھر میں لوٹ مار کے طور طریقے بدل گئے تھے لیکن گائوں میں ابھی بھی صدیوں پرانا طریقہ چل رہا تھا ۔ رات کو کچے گھر کی دیوار میں سوراخ کر کے سامان چوری کر لو ۔گائوں میں یہ چوریاں عام ہوتی ہیں۔ رات کو کپاس چن لینا ، اناج والے کوٹھی سے اناج چرا لینا ، کسی کا جانور کھول کر لے جانا ، کھیت میں سے رات کو تربوز توڑ لینا یا بھوسہ وغیرہ لے جانا۔
مجھے یاد آیا میرے بچپن میں سیندھ اگر لگتی تو لگتا پورے گائوں پر قیامت آگئی تھی۔ ایک دفعہ سردیوں کی صبح سویرے اٹھا تو گائوں کی دکان پر اس طرح کی چوری ہوئی تھی ۔ پورا گائوں اکٹھا تھا ۔ جس نے چوری کی تھی وہ موقع پر پکڑا گیا تھا. اسے باندھ کر بٹھایا ہوا تھا ۔آتے جاتے کوئی بھی تھپڑ جڑدیتا ۔ مجھے یہ سب دیکھ کر دکھ بھی ہوا اور برا بھی لگا تھا ۔ اسے بھوک لگی ہو اس لیے دکان سے چیز اٹھا رہا ہو شاید؟ ایک بے بس انسان بندھا ہوا اور درجنوں انسانوں کے نرغے میں ۔ میں نے دوڑ کر اماں کو بتایا شاید وہ کچھ کریں۔ برسوں گزر گئے لیکن آج بھی بے بس انسان کی تصویر ذہن میں ہے۔ آج بھی دکھ ہوتا ہے میں بہت چھوٹا اور اسے چھڑا نہیں سکتا تھا ۔
ایک اور واقعہ ماموں کے بنگلے پر پیش آیا ۔ کچھ سامان چوری ہوگیا تھا ۔ کھوجی کو بلایا گیا۔ چور کے پائوں کے نشانات پر بڑا برتن رکھ دیا گیا تاکہ نشانات نہ مٹ جائیں۔ کھوجی دوپہر تک آیا۔ گائوں میں سناٹا ہوتا تھا اب چور کا کھرا کدھر جائے گا ۔ کھوجی اس وقت گائوں کے لوگوں کے لیے اہم ترین فرد ہوتا۔ ہم گائوں کے بچے بڑے کھوجی پر نظریں جمائے کھڑے ہوتے۔ وہ دھیرے دھیرے جھک جھک کر چلتا ، نظریں زمین پر جمائے، پھر پائوں کے نشانات پر جھک جاتا اور جھکا ہی رہتا جیسے بہت بڑا خزانہ پا لیا ہو اور پھر اچانک مایوس ہو کر آگے چل پڑتا۔ پورا گائوں ایک فاصلے پر چلتا رہتا۔ہم بچے بھی ہجوم میں شامل ہوتے۔۔اس سے بڑی تفریح اور کیا ہوسکتی تھی جو اس دن ملتی ۔ سب کو خوف ہوتا کہیں اس کا پائوں چور کے جوتے کے نشان سے نہ مل جائے جس پر کھوجی نے ایک بڑا برتن اسے محفوظ رکھنے کے لیے رکھوایا ہوتا۔ بچوں کو ڈرایا جاتا کھوجی کہہ رہا تھا شاید چور کا پائوں فلاں بچے کا تھا ۔ ہم بچے خوف سے کانپ جاتے اگر ہمارا پائوں اس چور کے پائوں سے مل گیا تو پھر کیا ہوگا؟ پولیس پکڑ کر لے گئی تو۔۔؟ ایک جھرجھری لے کر ہم بچے ڈر جاتے اور یہ مقصد ہوتا تھا بڑوں کا ہمیں ڈرانے کا تاکہ ہم بھول کر بھی کبھی چرانے کا سوچیں بھی ناں۔
وہ کھوجی چلتا رہتا اور پورا گائوں پیچھے پیچھے۔۔کبھی وہ رک جاتا ۔ آسمان کو دیکھتا کہیں بارش نہ ہوجائے اور پائوں کے نشانات نہ مٹ جائیں۔ ان دنوں میں گائوں کے قریب سے ہی جنگل شروع ہوجاتا تھا۔ جنگل کے درمیان سے ہی کچا راستہ جاتا تھا ۔ ہم بچوں کو جنگل سے شروع ہونے سے پہلے تک تو ہجوم کے ساتھ جانے کی اجازت ہوتی تھی اور پھر سب بڑے ہمیں واپس بھیج دیتے۔ ہم کوشش کرتے جنگل کی جھاڑیوں کی اوٹ میں چھپ کر کھوجی کے ساتھ ساتھ چلتے رہیں کہ دیکھیں کھرا کس کے پاس جاتا ۔۔ پھر دھیرے دھیرے وہ کھرا جنگل کے راستے میں گم ہوجاتا ۔کھوجی بھی اداکاری کرتا ۔ زمین پر پہلے سے قدموں کے نشانات کو گھورتا رہتا پھر اچانک چل پڑتا ۔۔کبھی لگتا اس نے کھرا نہیں بلکہ قاروں کا خزانہ ڈھونڈ لیا تھا۔کبھی وہ کھوجی خود سے باتیں کرنے لگ جاتا۔۔ہم سب خاموش۔۔اس کے لبوں کے ہلنے کا انتظار کرتے۔ کبھی وہ زور سے ایک فقرہ کہہ دیتا ۔۔ چور بہت سیانا لگتا ہے، بار بار پائوں بدل رہا ہے۔ کہیں جوتا اتار لیتا ہے اور کہیں پہن لیتا ہے، بار بار اس جگہ پر چل رہا ہے جہاں پہلے بھی قدموں کے نشانات ہیں۔ سمجھدار چور سے واسطہ پڑا ہے۔ ہم سب مرعوبیت سے اسے سنتے جیسے یونیورسٹی کی کلاس میں کوئی پروفیسر بچوں کو زندگی اور موت کے موضو ع پر لیکچر دے رہا ہو۔
ہم بچے لوٹ جاتے تو چند بڑے کھوجی کے ساتھ چل پڑتے۔ ہم بچے وہیں جنگل کے کنارے بیٹھ کر انتظار کرنے لگ جاتے کہ کب یہ قافلے لوٹیں گے اور خبر لائیں گے کہ کھرا کہاں تک پہنچا ۔ ہمیں اس لیے بھی تجسس ہوتا تھا کیونکہ پھر ہم نے وہ خبریں اپنے گھروں تک بھی پہنچانی ہوتیں۔ گائوں میں کسی گھر کی دیوار نہیں ہوتی تھی۔ پورا گائوں ایک گھر تھا ۔ ہم گائوں کے اندر سے گزرے جاتے تو ہر گھر سے پوچھا جاتا تو پھر کیابنا ۔۔کھرا کہاں تک پہنچا۔۔یہ آواز گائوں کے جنگل کے کنارے سے لے کر ہر گھر تک پیچھا کرتی کیونکہ سب خواتین کوبھی علم ہوتا تھا یہ بچہ وہیں سے آرہا تھا ۔ ہم بچے بھی اچانک اہمیت پا کر مرچ مصالحہ لگا کر کھوجی کے انداز و حرکات کو مزید سننی خیز انداز میں بیان کرتے۔خواتین حیرت سے منہ میں انگلیاں دبائے سنتی رہتیں ۔۔ پھر وہی کہانی اگلے گھر کے لان سے گزرتے وقت دہرائی جاتی۔ اور گھر پہنچنے سے پہلے پہلے ایک ایک بچہ دس گھروں کو وہی کہانی سنا چکا ہوتا کہ آج کھوجی نے کیا کھوج لگایا تھااور پائوں کا سائز کتنا بڑا تھا اور چور جوبھی تھا‘ تھا بڑا سمجھدار۔۔
گائوں کے قریب ہی بستی تھی۔ کچھ گھر ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ وہاں سے ایک خاتون اماں کی بہت دوست تھی۔ اماں اس غریب عورت کی مدد کرتی رہتی ۔ اسے اپنی بہن بنایا ہوا تھا ۔ اس بوڑھی خاتون کو ہمیشہ دکھوں میں ہی گھرا پایا ۔ اس کی آنکھوں سے آنسو ہی بہتے دیکھے۔۔ پہلے ہجرت کا دکھ ، پھر اس کے دو بیٹے تھے دونوں پر اکثر چوری یا لڑائی جھگڑے کے الزامات لگتے۔۔ وہ دوڑی دوڑی اماں کے پاس آتی۔ میں اس وقت چھوٹا تھا ۔ وہ خاتون ہمارے گھر کا فرد تھی ۔کئی کئی روز اماں اسے اپنے گھر رکھ لیتیں کہ یہیں آرام کرو ۔ اکثر اپنے بچوں کا رونا روتی رہتیں۔ اس کا ایک بیٹا بھی گھروں یا دکانوں کو توڑتا پایا جاتا ۔۔اماں اس کے بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتیں ۔۔ انہیں ماں کے آنسو دکھانے کی کوشش کرتی۔ وہ اماں کے سامنے شرمندہ ہوکر وعدہ کرجاتے آئندہ نہیں ہوگا اور ایک ماہ بعد پھر وہ خاتون آئندہ رو رہی ہوتی۔ گائوں میں ایک دفعہ وہ پکڑا گیا تو وہ پھر اماں کے پاس دوڑی آئی۔ ایک ماں کا دکھ ماں ہی سمجھ سکتی تھی ۔ بابا اماں کے کہنے پر چھڑا لائے۔
میں ماضی میں گم جب کہ قاسم خوفزدہ ہو کر بار بار کہے جارہا تھا گائوں میں دو گھروں میں ایک رات ہی سیندھ لگ گئی تھی ۔میں قاسم کی حیرانی پر حیران تھا۔ اسے پتہ نہ تھا لوٹ مار پاکستان میں تو چھوڑیں، اب سوئٹزر لینڈ اور برطانیہ سے ہوتی ہوئی پاناما تک پہنچ گئی تھی جب کہ ہمارے گائوں میں ابھی بھی وہی صدیوں پرانی ''سیندھ‘‘چل رہی تھی ۔۔
تو کیا آج بھی گائوں میں وہی پرانا منظر ہوگا ؟ وہی بوڑھا سیانا کھوجی اور وہی چور کے پائوں کے نشانات اور پیچھے بھاگتے میرے جیسے ڈانٹ کھاتے بچے۔۔ گائوں کے گھروں میں خبر کے انتظار میں منڈیر پر منہ میں حیرت سے انگلیاں دبائے کھڑی خواتین اور کہیں ڈھلتی شام دور جنگل میںگم ہوتے انسانوں کا ایک قافلہ ۔۔ منہ میں کچھ بڑبڑاتے کھوجی کی قیادت میں ۔۔۔۔ سب چور کی تلاش میں۔۔ !

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved