مرزا تنقید بیگ ہم سے اکثر ناراض رہتے ہیں۔ اُن کی ناراضی کا سبب یہ نہیں کہ ہم اُن کے بارے میں کچھ الٹا سیدھا کہتے ہیں یا انٹ شنٹ لکھ مارتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ ہمارے کئی کالم پڑھ کر بھابی کو شدید غصہ آیا۔ ہم تو اُن کے نزدیک تھے نہیں ورنہ مارے جاتے۔ شدید اشتعال کے عالم میں اُن کے پاس میاں پر برسنے کا آپشن بچا تھا سو وہ اُنہی پر برسیں اور برسیں۔ مرزا کا کہنا ہے کہ ہمارے لکھے پر وہ خواہ مخواہ پکڑے اور مارے جاتے ہیں!
بات یہ ہے کہ جب بھی ہم خواتین کے حوالے سے کوئی انٹ شنٹ خبر پڑھتے ہیں تو فطری میلان کے ہاتھوں مجبور ہوکر کالم لکھ مارتے ہیں۔ بس، یہی ہماری خطا ہے۔ مرزا کہتے ہیں کہ ہم خواتین کے بارے میں جو ''اہانت آمیز‘‘ کالم لکھتے ہیں اُنہیں پڑھ کر بھابی کا پارہ چڑھ جاتا ہے اور پھر وہ ہم سے دوستی کی بنیاد پر مرزا کو اپنی ناراضی کا نشانہ بنا ڈالتی ہیں۔ اب مرزا یا بھابی کو کیسے سمجھایا جائے کہ ہم اگر خواتین سے متعلق کسی دلچسپ اور چٹکیاں لینے والی خبر پر کالم لکھتے ہیں تو اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں۔ کوئی اُن خواتین کو کیوں نہیں سمجھاتا جو عجیب و غریب خبروں کو جنم دیتی رہتی ہیں؟
بات سمجھنے کی ہے۔ کوئی بھی اچھی، دلچسپ اور عجیب و غریب خبر کالم نگار کے لیے گھاس کی طرح ہوتی ہے یعنی وہ چَرے بغیر رہ نہیں سکتا۔ اور سیدھی سی بات ہے، گھوڑا اگر گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا؟ اگر ہم دلچسپ خبروں کو یونہی جانے دیں تو لکھیں گے کیا؟ اور جناب، سیاست دانوں کی مہربانی سے ہمارے لیے اب بچا ہی کیا ہے جس پر لکھیں؟ لے دے کر چند ایک دلچسپ خبریں اور بالخصوص خواتین کے حوالے سے آنے والی عجیب و غریب خبریں رہ گئی ہیں جن پر طبع آزمائی کی جا سکتی ہے اور کی جا رہی ہے۔ یار لوگ ''مجبوری کا نام شکریہ‘‘ سمجھ کر ہمیں معاف فرما دیا کریں!
تین دن قبل ایک خبر ایسی آئی کہ ہم پھڑک اٹھے اور فرطِ مسرّت نے یہ بات بھی بُھلا دی کہ مرزا جب اِس خبر پر ہماری طبع آزمائی ملاحظہ فرمائیں گے تو اُن پر اور اُن سے بڑھ کر بھابی پر کیا گزرے گی! خبر انڈین ایئرلائن کی ہے۔ انڈین ایئرلائن کے طیارے جتنی بلند پرواز کرتے ہیں اُس سے کہیں بلند پرواز اُس سے وابستہ پائلٹس کی ہے! ہم غلط نہیں کہہ رہے۔ طیارے سے بلند پرواز اگر پائلٹ کی ہو تو دل و جاں پر قیامت گزر جاتی ہے۔ طیارے سے بلند پرواز پائلٹ کی؟ آپ کو شاید یقین نہیں آرہا۔ کوئی بات نہیں۔ ہم ابھی وضاحت کیے دیتے ہیں۔
یہ بات ہے 22 جولائی 2017 کی۔ ہوا کچھ یوں کہ انڈین ایئرلائن کے ایک برانڈ نیو A-320 ایئر بس طیارے نے مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکتہ سے مہاراشٹر کے دارالحکومت ممبئی کے لیے اڑان بھری۔ سفر کم و بیش ڈھائی گھنٹے کا تھا اور طیارے میں ایندھن بھی اِسی حساب سے ڈالا گیا تھا۔ 99 مسافروں کے ساتھ طیارے نے ٹیک آف کیا۔ ٹیک آف بالکل درست تھا۔ طیارہ ممبئی کی طرف بڑھنے لگا۔ یہ طیارہ عام طور پر 37 ہزار فیٹ کی بلندی پر پرواز کرتا ہے مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ جس طیارے کی ہم بات کر رہے ہیں وہ 24 ہزار فیٹ سے زیادہ بلند نہ ہو سکا۔ اور رفتار بھی 230 ناٹس (یعنی 450 کلومیٹر) فی گھنٹہ سے زیادہ نہ ہو سکی۔ پائلٹس کو اس کا خیال ہی نہیں آیا۔
ممبئی ابھی خاصا دور تھا کہ طیارے کا ایندھن خاصا کم رہ گیا۔ اتنا ایندھن ڈالا گیا تھا کہ طیارہ آسانی سے ممبئی تک پہنچ جائے اور ہنگامی صورتِ حال درپیش ہو تو تھوڑا بہت اِدھر اُدھر بھی جا سکے۔ ایسے میں ایندھن کا کم رہ جانا حیرت انگیز اور تشویشناک تھا۔ دونوں پائلٹس نے طیارے میں ایندھن کی کمی کے پیش نظر ناگپور میں لینڈنگ کے لیے پیغام دیا۔ ناگپور ایئرپورٹ نے گرین سگنل دیا تو لینڈنگ کی تیاری شروع کی گئی۔ جب پائلٹس نے لینڈنگ گیئر (وھیل) کھولنے کے لیے متعلقہ ہینڈل کی طرف ہاتھ بڑھایا تو معلوم ہوا کہ ٹیک آف کے بعد لینڈنگ گیئر تو بند کیا ہی نہیں گیا تھا! یعنی طیارہ ڈیڑھ گھنٹے تک کھلے پہیوں کے ساتھ سفر کرتا رہا تھا!
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر پہیے کھلے رہیں تو طیارہ زیادہ بلندی پر نہیں جا سکتا اور ڈریگنگ کے باعث ایندھن بھی زیادہ خرچ کرتا ہے بلکہ ایندھن اُسی طرح پی جاتا ہے جس طور بعض لوگ دوسروں کا خون پی جاتے ہیں! سینئر پائلٹس نے اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ دونوں پائلٹس کو اس بات کا بھی خیال نہیں آیا کہ طیارہ خاصی کم بلندی پر اور کم رفتار سے پرواز کر رہا ہے۔ ایسے میں طیارے کے اندر شور بھی بڑھ جاتا ہے اور وائبریشن بھی اچھی خاصی ہوتی ہے۔ کیبن کریو اور مسافروں میں سے بھی کسی کو خیال نہیں آیا کہ طیارے میں شور اور وائبریشن زیادہ ہے۔ اور پھر پائلٹس کو یہ بھی تو دیکھنا چاہیے تھا کہ ڈھائی گھنٹے کی پرواز کے لیے مطلوبہ مقدار میں ایندھن ڈالا گیا ہے تو طیارے کا سسٹم ایندھن کم پڑ جانے کی انڈیکیشن کیوں دے رہا ہے۔
اب آئیے، اصل نکتے کی طرف۔ طیارے میں دونوں پائلٹس خواتین تھیں! اب آپ ہی بتائیے کہ جب معاملہ زمین کی سطح سے 24 ہزار فیٹ کی بلندی کا ہو اور خواتین بھی ''ملوث‘‘ ہوں تو ہم کالم لکھنے سے کیونکر مجتنب رہیں؟ ہمارے ''نظریے‘‘ کے مطابق ایسی کسی بھی خبر پر کالم نہ لکھنا کفرانِ نعمت کے زُمرے میں آتا ہے اور آنا ہی چاہیے!
ہوا بازی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور سینئر پائلٹس اس بات پر بھی حیران ہیں کہ جدید ترین ایئر بس طیارے میں لینڈنگ گیئر کے کھلے رہ جانے پر الارم سسٹم کیوں نہیں رکھا گیا۔ ہمارا خیال ہے کہ اُنہیں اس حوالے سے متعلقہ ادارے کو موردِ الزام ٹھہرانے میں عجلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ کسے خبر کہ الارم سسٹم ہو اور کھلے ہوئے لینڈنگ گیئر کی نشاندہی ہوئی بھی ہو مگر دونوں خواتین نے گفتگو کے دوران وفورِ جذبات و شوق میں اِس طرف توجہ نہ دی ہو! بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک بھرے پُرے طیارے کا کنٹرول صنفِ نازک کے ہاتھ میں دینا مناسب نہ تھا۔ کسی بھی ناگہانی صورتِ حال میں مرد زیادہ باحواس رہتا ہے اور زیادہ ہمت و جرأت کا مظاہرہ کرتا ہے۔
ذہن نشین رہے کہ یہ ساری باتیں ہم نہیں کہہ رہے، ماہرین اور سینئر پائلٹس کہہ رہے ہیں۔ ہم نے کون سا جہاز اڑایا ہے کہ ہماری بات پر دھیان دیا جائے! ہاں، اسکول کے زمانے میں بعض (مثلاً ریاضی وغیرہ کے) اساتذہ کی پُھسپُھسی باتوں سے تنگ آکر دل بستگی کے لیے کاغذ کے جہاز ہم ضرور اڑایا کرتے تھے مگر ایسے ''تجربوں‘‘ کو احترام کی نظر سے کون دیکھتا ہے!
خیر، خواتین سے متعلق ہماری ''گراں قدر‘‘ آرا پر مبنی کالم ستائش کی نظر سے دیکھنے والے کم ہی ہیں۔ لوگ اس بات پر معترض پائے گئے ہیں کہ ہم خواتین کے لتّے لینے کے فراق میں رہتے ہیں۔ ٹھیک ہے، مگر خواتین بھی تو دیکھیںکہ وہ کیا کیا کر گزرتی ہیں! 99 مسافروں اور عملے کے ارکان کے ساتھ طیارے کو اِس قدر لاپروائی سے اُڑانا کہ نہ تو بلندی کا خیال رہا نہ رفتار کا۔ اور نہ ہی ایندھن کے کم ہو جانے کا احساس ہوا۔ بعض لوگوں نے درست مطالبہ کیا ہے کہ دونوں پائلٹس نے ڈیڑھ گھنٹے تک جو گفتگو کی وہ منظر عام پر لائی جائے تاکہ عوام اس گفتگو سے کام کے چند نکات کشید کرکے اپنے فکر و عمل کا معیار بلند کرسکیں! (یاد رہے کہ یہ مطالبہ بھی عوام کا ہے، ہمارا نہیں!)