تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     30-07-2017

الا ماسعیٰ

اللہ رحم کرے‘ اللہ مگرانہی پہ رحم کرتا ہے‘ اپنی حالت بدلنے کا جو عزمِ صمیم رکھتے ہوں۔ فرمایا: لیس لانسان الاماسعیٰ۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال‘ آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
شہبازشریف وزیراعظم نہ بن سکیں گے۔ اس ناچیز کا خیال یہ ہے کہ ان کی رسوائی کے خونِ شہدأ در پے ہے۔ فرض کیجئے بن گئے تو پنجاب کا وزیراعلیٰ کون ہوگا؟ ابھی تک سب سے جو زیادہ مضبوط امیدوارہے۔ اس پر الزام یہ ہے کہ وہ ضلعی افسروں کا تقرر عہد قدیم کے وحشی حکمرانوں کی طرح کیا کرتا۔ کہا جاتا ہے کہ دو سے اڑھائی کروڑ روپے وصول فرمانے کے بعد۔ پھر ان میں سے ہر افسر کو اس قدر مہلت لازماً دی جاتی کہ موزوں منافع سمیت‘ وصولی کا عمل وہ مکمل کر لے۔کم از کم دو اڑھائی برس کہ چار پانچ کروڑ تو کما لے۔
اسی کا نام مافیا ہے۔ ایک وسیع و عریض مافیا‘ جس کا گاڈفادر زندہ اور بروئے کار ہے۔ لاکھوں افراد کے مفادات‘ جس سے وابستہ ہیں۔ سینکڑوں افراد منشیات کا دھندہ چلانے والے ایک بارسوخ سے وابستہ ہوا کرتے ہیں۔ منشیات کی لت میں مبتلا ہزاروں کا انحصار اس پر ہوتا ہے‘ تبدیلی کی جو تاب نہیں لا سکتے‘ چہ جائیکہ ان پہ سایہ فگن نظام کا خاتمہ ہی کردیا جائے۔
اس کے باوجود کہ چھ ہفتے تک جاری رہنے والی توہین کا شکوہ ہے‘ چوہدری نثار علی خان‘ پنجاب ہائوس کے اجلاس میں کیوں تشریف لے گئے؟ انگریزی میں اسے Path dependency کہا جاتا ہے۔ بنے بنائے پامال راستوں پر چلتے چلے جانے کی عادت۔دانا و بینا آدمی ہیں‘ عزتِ نفس رکھتے ہیں۔ جانتے ہیں کہ شریف خاندان ملک کو لوٹتا رہا۔'' تینتیس برس‘‘ چوہدری صاحب نے کہا کہ 33 سال سے‘ اِس قافلے میں وہ شامل ہیں اور آئندہ بھی شامل رہنے کے آرزومند ہیں۔ طلال چوہدریوں کو چھوڑیے‘ خاقان عباسی ایسے کتنے ہی شرفا مدتوں سے اس کارواں کا حصہ ہیں‘ عارضی وزیراعظم کے لیے جن کا نام طے کردیا گیا ہے۔ اس قدر ہم گر گئے۔ اس قدر پامال ہو گئے کہ ہمارے معززین بھی خون آلود ہاتھوں پہ بیعت کرتے ہیں۔
ملک اور معاشرے اس حال سے کیونکر دوچار ہوتے ہیں؟ کیونکر اتنے درماندہ ہو جاتے ہیں‘ اس کے ساتھ ہی دوسرا سوال ذہن میں ابھرتا ہے۔ وہ کون سا سرمایہ اور اثاثہ ہے‘ بڑھنے پھولنے کی جواقوام کو بنیاد فراہم کیا کرتا ہے!
کسی معاشرے کا شاندار ماضی؟ اگر ایسا ہوتا تو آج بھی عرب ساری دنیا کے حکمران ہوتے۔ وہ نہیں تو ترک۔ وہ بھی نہیں تو انگریز۔ ماضی میں کوئی دور تک چلا جائے تو سوال اٹھے گا کہ یونان کیوں نہیں؟ ایران اور مصر کیوں نہیں؟ 
ہمارے سامنے امریکہ بہادر ادبار کی طرف چل نکلا ہے۔ تعصب کی ایک لہر اٹھی‘ ڈونلڈ ٹرمپ صدر چنے گئے۔مستقبل کا تعین کرنے کے آرزومندوں کی نگاہ اب چین کی طرف اٹھتی ہے۔ روس بھی امریکہ کے مقابل کھڑا ہے۔ یورپ اپنی راہ الگ تراشنے پہ آمادہ ہے۔ جرمن قوم نے کبھی ہٹلر کا انتخاب کیا تھا اور خودکشی کی راہ پہ چل نکلی تھی۔ نپولین کی فتوحات کا دائرہ روس تک پھیل گیا تھا۔ اس کے وفادار دوست نے اس سرزمین پر حملے کی مخالفت کی تو فاتح نے اسے زار سے مرعوبیت کا طعنہ دیا۔ ایک بار تو غداری کا بھی۔ ہٹلر کی طرح‘ نپولین کی اسی غلطی نے اس کی ہیبت تمام کردی۔ پھر اسی انگریز جنرل نے فرانس کے فوجی حکمران کا کام تمام کردیا‘ ٹیپو سلطان سے جس نے ہزیمت اٹھائی تھی۔
جغرافیہ کسی قوم کی سربلندی کی بنیاد بن سکتا تو اقوامِ عالم میں افغانستان سربلند ہوتا‘ جسے دنیا کے جہاز کا کاک پٹ کہا جاتا ہے۔ ایک صدی ہونے کو آئی‘ اقبالؔ نے جب یہ کہا تھا:
آسیا یک پیکرِ آب وگل است
ملّتِ افغاں دریں پیکر دل است
از فسادِ او فسادِ آسیا
ازکشادِ او کشادِ آسیا
ایشیا آب و گل کا ایک پیکر ہے۔ افغان قوم جس کا دل ہے۔ اس کے فساد سے سارے ایشیا میں فساد اور اس کی افزائش سے سارے ایشیا کی افزائش۔ مادی وسائل کی کوئی کمی نہیں۔ معدنیات کے اعتبار سے‘ دنیا کے خوش قسمت ترین خطوں میں سے ایک ہے۔ سونا اور دوسری دھاتیں الگ‘ ایک عشرہ قبل یہ انکشاف ہوا کہ تیل بھی بہت ہے۔ افغانستان وسطی ایشیا ‘ مشرقِ وسطیٰ‘ چین اور جنوب مغربی ایشیا کے سنگم پر واقع ہے۔ پھر وہ آسودہ کیوں نہ ہو سکا؟ سرفراز کیوں نہ ہوا؟ ایک سادہ سے مصرعے میں اقبالؔ نے اس کا سبب بیان کردیا تھا۔ ع
ہزار پارہ ہے کہسار کی مسلمانی
سعودی عرب قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور عراق بھی۔ عرب ممالک میں مصر‘اوربلادِ شام شامل ہیں۔ پانی وافر‘ مٹی بھی زرخیز۔ اسرائیل کا ان سے کوئی موازنہ ہی ممکن نہیں۔ ان کے مقابلے میں آبادی بہت کم‘ رقبہ بہت تھوڑا۔
شمالی اور جنوبی کوریا‘ ایک ہی ملک کے دو حصے ہیں۔ شمالی کوریا میں فی کس سالانہ آمدن ساڑھے پانچ سو ڈالر سے زیادہ نہیں۔ یہ کچھ عرصہ پہلے کے اعدادوشمار ہیں‘ چھ سو ڈالر فرض کر لیجئے۔ جنوبی کوریا میں یہ شرح 27000 ڈالر ہے۔
نوگلز Nogales ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پہ واقع اوسط درجے کا ایک شہر ہے۔ آدھا اِدھر‘ ادھا اُدھر۔ ایک ہی قوم‘ ایک ہی مذہب‘ ظاہر ہے کہ ایک ہی تاریخ‘ ایک ہی نسل۔ میکسیکو کے مکینوں کی فی کس سالانہ آمدن دس ہزار ڈالر ہے اور امریکہ کے باسیوں کی 30 ہزار ڈالر فی کس۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟ دانشور رانا محبوب نے ان عوامل کی وضاحت کی۔ دراصل ایک ہی بنیادی نکتہ۔ایک میں ادارے موجود ہیں‘ دوسرے میں نہیں۔ نوگلز کے میکسیکو والے حصے میں نہیں۔ سعودیہ اور عراق میں نہیں‘ شمالی کوریا میں نہیں۔ ایران اور مصر اپنے ماضی کو یاد کرکے رویا کرتے ہیں‘ سینہ کوبی کرتے رہتے ہیں۔ عشروں تک قدیم ترکوں کے وارث بھی یہی کچھ کیا کرتے۔ 1400 سال پہلے مملکتِ چین تہذیب کا گہوارہ تھی‘ جب یہ کہا گیا تھا‘ اطلبوالعلم ولوکان بالسِّین۔ علم حاصل کرو‘ خواہ چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔
ذوالفقار علی بھٹو کا ماتم کیا گیا‘ اب میاں نوازشریف پر کچھ لوگ دل گیر ہیں۔ دل زدہ‘ گریہ کناں وہ رومانی شاعر کا ورد کرتے ہیں۔
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
سراٹھا کر؟ وہ آدمی جو کشمیر میں جاری جدوجہدِ آزادی کا نام تک لینے کا روادار نہیں۔قاتل کلبھوشن یادیو کا‘ کبھی نام تک نہیں لیا۔ جو پشاور سے کابل تک ریلوے لائن بچھانے کا آرزومند تھا کہ خام لوہا‘ بھارت پہنچ سکے۔ جندال نامی بھارتی تاجر کا سرمایہ نواحِ کابل کی ان کانوں میں کھپا ہے۔
پاکستان اداروں سے محروم ہے۔ کوئی پارٹی در حقیقت پارٹی نہیں‘ پارلیمان‘ پارلیمان کا کردار ادا نہیں کرتی‘ پولیس‘ پولیس نہیں۔ نوکر شاہی آزاد نہیں‘ منظم و مرتب نہیں‘ فوج کے سوا ۔کوئی ادارہ نہیں‘ کیوں نہیں؟ سیاستدان ذمہ دار ہیں مگر فوج بھی۔ سرکارؐ کا فرمان یہ ہے: تمہارے اعمال ہی تمہارے عمّال ہیں‘وہی تمہارے حاکم ہیں۔ صرف نوازشریف کی برطرفی سے کچھ نہ ہوگا‘ ادارے تعمیر کرنا ہیں‘ ادارے۔ ابھی سے آغاز کرنا ہوگا۔ سچے دل سے ابتدا کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے‘ بنیاد مضبوط ہو تو عمارت استوار ہوتی ہے۔ بنیاد کمزور ہو تو عمارت کمزور۔
اللہ رحم کرے‘ اللہ مگرانہی پہ رحم کرتا ہے‘ اپنی حالت بدلنے کا جو عزمِ صمیم رکھتے ہوں۔ فرمایا: لیس لانسان الاماسعیٰ۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال‘ آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved