تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     30-07-2017

ایک پہلوان اور پچیس مریض

بھارتی گجرات میں شنکر سنگھ واگھیلا نے کانگریس چھوڑ دی یا کانگریس نے واگھیلا کو چھوڑ دیا‘ اس سے کیا فرق پڑنے والا ہے؟ واگھیلا اگر کانگریس میں رہ بھی جاتے تو کیا وہ وزیر اعلیٰ بن سکتے تھے؟ کیا چنائو جیت کر وہ سرکار بنا سکتے تھے؟ گجرات میں کانگریس کی دال پہلے سے پتلی ہے۔ اس کے گیارہ ایم ایل ایز نے صدارتی انتخاب میں رام ناتھ کووند کو ووٹ دے دیے‘ یعنی انہوں نے پالا بدل دیا۔ یہ سب پالا بدلُو ایم ایل ایز واگھیلا کے ساتھی ہی تھے‘ یہ کہنا مشکل ہے۔ واگھیلا کو جو اپنا لیڈر نہیں مانتے‘ کانگریس کے ایسے درجنوں ایم ایل ایز آج پالا بدلنے کی فراق میں ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کانگریس میں رہیں گے تو ان کا مستقبل اندھیرے میں ہے۔ چار ماہ بعد گجرات میں چنائو ہونے والے ہیں۔ اگر بھاجپا انہیں ٹکٹ دے دے تو وہ جانتے ہیں کہ اگلے پانچ برس تک ان کی ممبرشپ کہیں نہیں گئی۔ اس وقت حال یہ ہے کہ گجرات سے راجے سبھا کے لیے کانگریسی امیدوار کا جیتنا ہی مشکل ہو رہا ہے۔ آج کی کانگریس میں لوگ کیوں موجود ہیں؟ یہ گاندھی کی کانگریس نہیں ہے۔ یہ اندرا گاندھی‘ سونیا گاندھی کی کانگریس ہے۔ یہ کرسی کانگریس ہے۔ لوگ صرف کرسی کے لیے کانگریس میں آتے رہے ہیں۔ اس میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ لیکن اب کانگریس کے لیے کرسی ایک خواب بن گئی ہے۔ کرسی کے حصول کے لئے اب اسے بڑی تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔ کانگریس اس قدر کمزور ہو چکی ہے کہ اگر بھارت کی ساری اپوزیشن پارٹیوں کو جوڑ لیں‘ تو بھی یہ اب بھاجپا کو للکارا نہیں دے سکتی۔ کیا لقوے میں مبتلا پچیس مریض مل کر بھی ایک اکیلے پہلوان کو پٹخنی دے سکتے ہیں؟ کانگریس کے پاس نہ کوئی لیڈر ہے اور نہ ہی کوئی واضح پالیسی ہے۔ اس کے ساتھ ملنے والے لگ بھگ سبھی پریوار پارٹیاں بھی اسی جیسی ہیں۔ وہ بھی کانگریس کی طرح پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں ہیں۔ پہلی بات یہ کہ ان پارٹیوں والے سب کسی ایک لیڈر کو اپنا لیڈر قبول نہیں کر سکتے‘ اور اگر انہوں نے کرسی کی لالچ میں قبول کر بھی لیا اور کرسی پر بیٹھ بھی گئے تو پورا بھارت پھر وہی ناٹک دیکھے گا‘ جو انہوں نے کسی زمانے میں مرار جی اور چرن سنگھ کے بیچ دیکھا تھا یا وشواناتھ پرتاپ سنگھ اور چندر شیکھر کے بیچ دیکھا تھا۔ اور پھر شاید ایسے ڈرامے چلتے ہی رہیں۔
چین نے بنایا ہندی کو ہتھیار 
چین ہمیں اکانومی اور جنگی مورچوں پر مات دینے کی تیاری نہیں کر رہا‘ بلکہ تہذیبی نظریہ سے بھی وہ پٹخنی مارنے پر اتارو (آمادہ و تیار) ہے۔ اس نے چینی مقاصد کو ثابت کرنے کے لیے اب ہندی کو اپنا ہتھیار بنا لیا ہے۔ اس وقت چین کی چوبیس لاکھ فوج میں ہزاروں جوان ایسے ہیں‘ جو ہندی کے کچھ جملے بول سکتے ہیں اور سمجھ بھی سکتے ہیں۔ میرے خیال میں بھارت چین سرحد پر تعینات چینی جوانوں کو ہندی اس لیے سکھائی جاتی ہے کہ وہ ہمارے جوانوں اور شہریوں سے سیدھے یعنی براہ راست بات کر سکیں۔ ان کا ہندی علم انہیں جاسوسی کرنے میں بھی جم کر مدد دیتا ہو گا۔ چینی جوان بھارتی جوانوں کو ہندی میں دھمکاتے ہیں‘ وارننگ دیتے ہیں‘ گالیاں دیتے ہیں اور پٹانے کا بھی کام کرتے ہیں۔ ہمارے جوان تو کیا‘ فوجی افسر بھی ان کے آگے بغلیں جھانکتے ہیں۔کمزوری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان کے دو زبانیں جاننے والے فوجی گفتگو کرواتے ہیں۔ چین کی لگ بھگ بیس یونیورسٹیوں میں باقاعدہ ہندی پڑھائی جاتی ہے۔ میں چین میں ایسے ہندی عالموں سے ملا ہوں‘ جو ہندی میں پی ایچ ڈی ہیں‘ اور جنہوں نے ہمارے کئی اقتصادی کتابوں کا چینی ترجمہ کیا ہے۔ میں جب بھی چین جاتا ہوں‘ چینی سرکار سے ہمیشہ ہندی چینی یعنی دو زبانیں جاننے والوں کی مانگ کرتا ہوں۔ جب وزیر اعظم نرسمہا رائو چین گئے تھے‘ تو میں نے ایک دوست ہندی پروفیسر کو دو زبانوں کے بارے میں وضاحت کی اور طے کرایا۔ بھارت کی بدقسمتی ہے کہ ہمارے لیڈر زبان کی اہمیت کو نہیں سمجھتے۔ وہ انگریزی کو ہی دنیا بھر میں بولی‘ پڑھی اور لکھی جانے والی واحد زبان سمجھتے ہیں اور اسی کے سیکھنے پر توجہ دیتے ہیں۔ وہ بھارت کے صدر اور وزیر اعظم بن کر اکڑ دکھانے لگتے ہیں‘ لیکن انہیں انگریزوں اور انگریزی کی غلامی کرتے ہوئے بالکل شرم نہیں آتی۔ یہ شرمناک بات ہے کہ بھارت میں چینی زبان جاننے والے پانچ سو لوگ بھی نہیں ہیں۔ اسی لیے ہمارے تاجروں کو چین میں ہزاروں روپے روزانہ کے عوض دو زبانیں بولنے والے لوگوں کی خدمات حاصل کرنا پڑتی ہیں۔ انگریزی زبان وہاں (چین میں) کسی کام نہیں آتی۔ ہماری سفارتی تعلقات بھی کئی ممالک میں اَدھ کچری رہتی ہے‘ کیونکہ ہمارے سفیر ان ملکوں کی زبان ہی نہیں جانتے۔ وہ ان کے ساتھ ان کی زبان میں کھلے طور پر بات ہی نہیں کر سکتے۔ ہمارے یہ نصف پڑھے لکھے (یعنی صرف ایک زبان جاننے والے) لوگ لیڈر کب سمجھیں گے کہ بھارت کو اگر ہمیں عظیم طاقت بنانا ہے تو ایک نہیں‘ کئی غیر ملکی زبانیں ہمیں اپنے باشندوں کو سکھانا ہوں گی اور اپنی مادری زبان کو بھی خاص زبان بنانا ہو گا۔ دوسرے ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات میں بہتری اسی صورت لائی جا سکتی ہے۔
پوشیدہ راز: بیچ کا راستہ ہی صحیح 
آج کل بھارت کی سپریم کورٹ میں یہ بحث زوروں سے چل رہی ہے کہ اس ملک کے باشندوں کو‘ راز کو خفیہ رکھنے کا حق حاصل ہے یا نہیں؟ کچھ درخواستیں ڈالنے والوں کا کہنا ہے کہ آدھار کارڈ کے لازم ہونے کے سبب کسی بھی آدمی کے بینک کھاتے‘ آمدنی و خرچے‘ آنا جانا‘ لین دین اور کئی ذاتی جانکاریاں لیک ہو رہی ہیں‘ یعنی اس جدید دور میں بھی جسے بجا طور پر ڈیجیٹل دور کہا جاتا ہے‘ اہم‘ ذاتی اور پوشیدہ معلومات افشا ہونے پر عام آدمی کا جینا حرام ہو سکتا ہے۔ اس طرح ہمارے ملک میں آئین کے ذریعے ذاتی آزادی ختم ہو رہی ہے۔ سپریم کورٹ اس ذاتی خفیہ پالیسی کو بھارتی عوام کا بنیادی حق کیوں نہیں تسلیم کر دیتی اور اس کا اعلان کیوں نہیں کر دیتی‘ بالکل ویسے ہی جیسے فرد کی خود مختاری کی وضاحت اس نے اس طرح سے کر دی ہے کہ بھارت میں پریس کی آزادی اپنے آپ محفوظ ہو گئی ہے۔ بھارتی سرکار اس پرسنل سیکریٹ کے حق کی مخالفت کر رہی ہے۔ سرکاری وکیل کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے 1954ء اور 1962ء کے دو فیصلوں میں خفیہ باتوںکو لے کر بنیادی حقوق کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اگر اس بات کو بنیادی حق کا درجہ دے دیا گیا تو اس کی آڑ میں‘ چکلے‘ جاسوسی‘ ٹھگی‘ ملک سے غداری و دہشت گردی جیسی موومنٹ بڑے مزے سے چلائی جا سکتی ہے۔ نہ ان کی کھل کر جانچ کی جا سکتی ہے اور نہ ہی پولیس انہیں پکڑ سکتی ہے۔ ان سوال کے طرفین کے دلائل میں دم ہے۔ کسی ایک پارٹی کو درست مان کر زیادتی والا قدم نہیں اٹھایا جا سکتا۔ سبھی باشندے انسان ہیں۔ انسانوں میں کچھ راز پوشیدہ ہوتے ہیں۔ جانوروں میں کوئی بھی خفیہ راز نہیں ہوتا۔ میرے خیال میں تو اس سلسلے میں بیچ کا راستہ ہی بہتر ہے۔ 
کانگریس اس قدر کمزور ہو چکی ہے کہ اگر بھارت کی ساری اپوزیشن پارٹیوں کو جوڑ لیں‘ تو بھی یہ اب بھاجپا کو للکارا نہیں دے سکتی۔ کیا لقوے میں مبتلا پچیس مریض مل کر بھی ایک اکیلے پہلوان کو پٹخنی دے سکتے ہیں؟ کانگریس کے پاس نہ کوئی لیڈر ہے اور نہ ہی کوئی واضح پالیسی ہے۔ اس کے ساتھ ملنے والے لگ بھگ سبھی پریوار پارٹیاں بھی اسی جیسی ہیں۔ وہ بھی کانگریس کی طرح پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved