تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     30-07-2017

مقام ِعبرت

گو کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی اس وسیع وعریض کائنات میں بہت سی اشیاء اور واقعات میں عقل مند انسان کے لیے عبرت کا پہلو ہے لیکن دو مواقع ایسے ہیں جن سے کوئی بھی ذی شعور انسان عبرت حاصل کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پہلا موقع کسی پیارے دوست ‘محبت کرنے والے عزیز یا کسی محبوب رشتہ دار کا انتقال ہو تا ہے۔ ماں ،باپ، بہن ،بھائی ، بیوی، بچے، چچا، ماموں، خالہ، دادا ، دادی، نانا، نانی یہ انسان کے ایسے قرابت دار ہیں جن کی محبت کے سبب انسان اپنی زندگی میں بہت سے رنگوں کو محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح انسان کے مشفق اساتذہ کرام ، عزیز دوست اور اس کی رہنمائی کرنے والے علماء بھی اس کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں۔ یہ تمام تعلق دار اور رشتہ دار انسان کی زندگی میں خوشی اور رونق کا سبب ہوتے ہیں۔ لیکن ان میں سے جب کسی کا انتقال ہو جاتا ہے تو انسان تا دیر اس کی جدائی کو محسوس کرتا رہتا ہے۔ والدین کی جدائی کئی مرتبہ انسان کو بہت طویل عرصہ گزرنے کے بعد مغموم کر دیتی ہے۔ زندگی میں ملنے والی کوئی کامیابی یا خوشی اسی طرح انسان کوپہنچنے والا کوئی تکلیف یا صدمہ اسے والدین کی یاد دلاتا رہتا ہے۔ کسی حساس شوہر کے لیے ایک وفا دار بیوی اور سمجھ دار بیوی کے لیے ایک محبت کرنے والے شوہر کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ اگر یہ قیمتی رشتے چھن جائیں تو انسان تا دیر ان کی جدائی کی کسک کو اپنے دل میں محسوس کرتا رہتا ہے۔ خوشی اور غم کے موقع پر بالعموم اس کو دنیا سے چلے جانے والے اپنے رشتہ دار اور دوست احباب یاد آتے رہتے ہیں۔ ان اعزاء واقارب اور تعلق داروں کی وفات جہاں پر غم کا باعث ہے وہیں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی قدرت اور طاقت کا بہت بڑا اظہار بھی ہے۔ انسان اگر اپنے اعزاء واقارب کی جدائی پر ٹھنڈے دل سے غور کرے تو اس کو یہ بات سمجھ آجاتی ہے کہ انسان کی چاہت اور محبت اس کے پیاروں کو ہمیشہ ہمیشہ یا تادیر زندہ نہیں رکھ سکتی ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کا امر انسان کی خواہشات اور تمناؤں پر غالب رہتا ہے۔ جب کسی انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے پاس بلا لیتے ہیں تو اس کے رشتہ دار اور دوست احباب چاہت کے باوجود اس کی زندگی کے چند لمحات کو بڑھانے پر بھی قادر نہیں رہتے۔ عقل مند انسان موت سے عبرت حاصل کرتا ہے اور اس بات کو بھانپ لیتا ہے کہ جس طرح اس کے پیارے اور محبوب لوگ دنیا سے رخصت ہوئے ہیں اس کو بھی ایک دن اس فانی دنیا سے رخصت ہونا پڑے گا اور اس جدائی کے سبب عقل مند انسان خود بھی موت اور اس کے بعد آنے والی زندگی کی تیاری میں مشغول اور مصروف ہو جاتا ہے۔ جدائیوں اور وفاتوں کا یہ سلسلہ صرف ہمارے رشتہ دار ، دوست احباب اور متعلقین تک محدود نہیں بلکہ ہم سے قبل بہت سی عظیم اور قابل قدر ہستیاں بھی دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنی پوری زندگی اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی تعمیل میں گزاردی،ان کو بھی اس دار فانی کو خیر باد کہنا پڑا۔ ان تمام صلحاء کا دنیا سے رخصت ہو جانے میں بھی یقینا انسان کے لیے غوروفکر کا پہلو ہے کہ انسان کتنا ہی اعلیٰ اور افضل کیوں نہ ہو جائے بالآخر اس کو بھی اس فانی دنیا کو چھوڑ کر اپنے پروردگار کے پاس جانا پڑتا ہے۔رشتہ داروں، دوست احباب ،اساتذہ کرام اور ہم سے پیشتر دنیا سے رخصت ہونے والے نیک و کار لوگوں کی وفات کے ساتھ ساتھ عبرت اور غوروفکر کا دوسرا مقام وہ ہے کہ جب کوئی حاکم، طاقت ور انسان یا بڑا سرمایہ دار فنا کے گھاٹ اتر جاتا یا کسی زوال کا نشانہ بن جاتا ہے۔ 
سپریم کورٹ کی طرف سے وزیراعظم کی نااہلی کے فیصلے نے جہاں پر کرپشن اور اس کے برے نتائج کے حوالے سے معاشرے کے مختلف طبقات میں ایک بحث کو جنم دیا وہیں پر بصیرت رکھنے والے دانش مند اہل دین نے اس سے اُسی عبرت کو حاصل کیا جو سابق حکمرانوں کے زوال سے حاصل ہوئی ۔ قرآن مجید نے بہت سے طاقت ور لوگوں کے زوال اور انجام کا بڑے احسن انداز میں ذکر کیا ہے۔ فرعون انتہائی طاقت ور انسان تھا جو بنی اسرائیل کے بچوں کو ذبح کر دیتا اور ان کی عورتوں کو چھوڑ دیتا تھا۔ مطلق العنانیت کی نشے میں اس حد تک دھت تھا کہ اپنے آپ ہی کو پروردگار عالم سمجھنے کے خبط میں مبتلا ہو چکا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب اس کے پاس اللہ کی واحدانیت کی دعوت کو لے کر آئے تو اس نے دعوت کو مسترد کر دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے تنبیہ کے لیے اسے اور اس کی آل کو مختلف طرح کے عذابوں میں مبتلا کر دیا۔ ٹڈی دل، جوؤں، مینڈکوں، خون کی بارش، طوفان اور دیگر عذابوں کے ذریعے اس کو تنبیہ کی گئی۔ لیکن وہ ہر اُمڈتے ہوئے عذاب کو دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کہتا اپنے رب سے کہو وہ اس عذاب کو ٹال دے اور عذاب کی ٹلنے کی شکل میں ہدایت کاوعدہ کرتا۔ لیکن عذاب کے ٹل جانے کے بعد دوبارہ سرکشی پر آمادہ ہو جاتا۔ حتیٰ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جب موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے لوگوں کو سمندر کی لہروں سے باحفاظت باہر نکال دیا تو فرعون اور اس کی فوجیں انہیں لہروں کی نذر ہو گئیں۔ایسے عالم میں فرعون نے کہا کہ میں بھی اس معبود واحد پر ایمان لے کر آتا ہوں جس پر بنی اسرائیل کا ایمان ہے اور میں بھی مسلمان ہوں۔ 
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے انجام بد کو دیکھ کر توبہ تائب ہونے والے ظالم اور متکبر کی توبہ کو قبول نہ کیا اور اس کی ذات کو آنے والے لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بنا دیا۔ زمین نے بھی اسے قبول نہ کیا اور اس کا وجود ہمیشہ کے لیے نشان ِ عبرت بن گیا۔ قارون کو اپنے سرمائے پر ناز تھا اور اس کے سرمائے کو دیکھ کر دنیا دار لوگ اس جیسے مال کے حصول کی تمنا کیا کرتے تھے۔ لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو اس کے خزانے سمیت زمین میں دھنسا دیا ۔ اس کے خزانے کوزمین میں دھنستا دیکھ کر وہی لوگ جو اس جیسے عروج کے طلب گار تھے اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرنے لگے کہ ان کے پاس وہ کچھ نہیں تھا جو قارون کے پاس تھا وگرنہ وہ بھی زمین میں دھنس جاتے۔ 
اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریم ﷺکی عداوت اور دشمنی میں ہر حد کو پھلانگ جانے والے آپ کے سگے چچا ابو لہب کو بھی نشانہ ٔ عبرت بنا دیا اور قرآن مجید کی ایک پوری سورت اس کی شقاوت اور اس کی ہمنوا بیوی کی مذمت میں نازل فرمادی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ لہب میں ارشاد فرماتے ہیں ''ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ (خود) ہلاک ہو گیا۔ نہ تو اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی۔ وہ عنقریب بھڑکنے والی آگ میں جائے گا۔ اور اس کی بیوی بھی(جائے گی۔)جو لکڑیاں ڈھونے والی ہے اس کی گردن میں پوست کھجور کی بٹی ہوئی رسی ہو گی۔‘‘
پاکستان کی سیاست نے بھی بہت سے حکمرانوں کے عروج اور زوال کو دیکھا۔ جنرل ضیاء الحق کے طیارے کا حادثہ، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، جنرل پرویز مشرف کی برطرفی، بے نظیر بھٹو کا قتل، میاں نواز شریف کی سابق جلا وطنی اور حالیہ نااہلی میں دانش مند اور صاحب ِعقل لوگوں کے لیے عبرت کا بہت بڑا سامان ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے اور زوال سے پاک ذات صرف خالق ومالک کائنات کی ہے۔
اس میں غوروفکر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات اگر حکمرانوں کا محاسبہ کر سکتی ہے تو عام انسان اللہ رب العزت کی گرفت یا احتساب سے کیوں کر بے نیاز ہو سکتے ہیں۔ عروج وزوال اور فنا کے ان چشم کشاء واقعات کو دیکھ کر انسانوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے اور اس دنیا میں رہتے ہوئے اپنے اعمال کو سنوارنے کے لیے تگ ودو کرنی چاہیے۔ اگر ہم اپنے اعمال کا صحیح طریقے سے محاسبہ کریں اور پروردگار عالم کو صحیح معنوں میں مالک الملک تسلیم کریں تو دنیا کی زندگی کے عروج وزوال کے اثرات خواہ کچھ بھی ہوں ، آخرت کی کامیابی اور فلاح ہمارا مقدر بن سکتی ہے۔ ہمیں اس بات کو ذہن نشیں کر لینا چاہیے کہ آدمی خواہ امیر ہو یا غریب، طاقت ور ہو یا کمزور‘ بالآخر اس کو قبر کی مٹی ہی میں جانا ہی پڑے گا۔ چنانچہ جب تمام انسانوں کی منزل ایک ہے تو معیشت اور اثرورسوخ کے اختلاف کی وجہ سے انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری سے بے نیاز نہیں ہو جانا چاہیے بلکہ اس سے ملاقات کی بھرپور انداز میںتیاری میں مصروف ومشغول رہنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو عقل،بصیرت اور حکمت کی نعمت سے مالا مال فرمائے۔ آمین !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved