تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     30-07-2017

کتنے گھر تباہ کئے تم نے !!

عمران اور جمائما خان کے گھر دوسرے بچے کی آمد آمد تھی کہ انہیں اطلاع ملی کہ جمائما خان کو کسی بھی وقت ایف آئی اے اور کسٹم حکام کی جانب سے '' سمگلنگ کے الزام‘‘ میں درج کئے جانے والے مقدمے میں گرفتار کیا جا سکتا ہے کیونکہ جن دفعات کے تحت یہ مقدمہ درج کیا گیا ہے اس کی سزا چھ ماہ قید ہو سکتی ہے اور ان دفعات میں ضمانت بھی نہیں ہوتی۔۔۔ یہ سنتے ہی جمائما کے وجود میں خوف کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔۔۔اپنی بیٹی کو دنیا کی سب بیٹیوں سے متبرک قرار دینے والے کیا جانیں اس وقت ایک حاملہ لڑکی پر کیا گزری ہو گی، وہ خاتون جس نے کبھی پولیس تھانہ تو دور کی بات زندگی میں کبھی جھوٹ بھی نہیں بولا تھا اسے جب پاکستانی جیلوں اور عدالتوں کے بارے میں بتا یا گیا تو برطانیہ کے پر سکون ماحول میں زندگی گزارنے والی ارب پتی خاندان کی بیٹی جمائما سر سے پائوں تک کانپ کر رہ گئی اور قبل اس کے کہ میاں نوازشریف کی پولیس انہیں گرفتار کرنے کیلئے پہنچتی وہ برٹش ہائی کمیشن کی مدد سے واپس لندن پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔۔۔ پاکستان کی ہر ماں ہر بیٹے اور ہر باپ کے سامنے یہ منظر رکھتے ہوئے سوال کرتا ہوں '' اگر اس صدمے اور ذہنی جھٹکے سے ماں کے پیٹ میں موجود ننھی جان یا جمائما کو کچھ خدا نخواستہ کچھ ہوجاتا تو اس کا ذمہ دار کون تھا‘‘۔ '' دسمبر 1998 میں نایاب ٹائلوں‘‘ کی سمگلنگ درج کیا جانے والا یہ مقدمہ اس وقت ختم ہوا جب جنرل مشرف نے نواز حکومت کو ختم کرنے کے بعد ملکی اقتدار سنبھالا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے انتہائی قابل احترام پانچ رکنی معزز بنچ کی جانب سے پانامہ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کو تاحیات نا اہل قرار دینے کی خبرپر عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائما خان کا ٹویٹGood riddance to the man who tried to get me jailed while I was pregnant اپنے اندر ایک ماں کی درد بھری کہانی لئے ہوئے ہے۔۔۔جمائما تو برطانیہ کی رہنے والی تھی وہ اپنا گھر اجڑنے کے بعد خاموشی سے واپس لندن چلی گئی لیکن نہ جانے کتنی گھریلو خواتین ہیں جن کے گھر اقتدار کے نشے اور طاقت نے اجاڑ کر رکھ دیئے ہیں جن کی میڈیا اور سوشل میڈیا پر کہانیاں بکھری پڑی ہیں ۔۔ ان میں سے نہ جانے کتنی مائیں اپنے بچوں کیلئے ترس رہی ہیں کتنے باپ ہیں جو بچوں کو اپنے سینے سے لگانے کیلئے تنہا اپنی زندگیاں جی رہے ہیں ؟۔کیا یہ درست نہیں کہ بادشاہ اپنی رعایا کیلئے باپ کا درجہ رکھتا ہے؟۔تو پھر ایسا کیوں ہوا کہ حکمران کی شکل میں باپ نے اپنے ہی بیٹوں اور بیٹیوں کے ہنستے بستے گھر اجاڑ کر رکھ دیئے؟
اگر آپ جمہوریت اور انسانی حقوق پر یقین رکھتے ہیں تو پھر آئین پاکستان کی رو سے ہر شہری کو پر امن سیا سی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا مکمل حق ہے۔ آئین کی اسی شق کو سامنے رکھتے ہوئے عمران خان نے بھی دوسرے سینکڑوں لوگوں کی طرح '' تحریک انصاف‘‘ کے نام سے اپنی علیحدہ سے ایک سیا سی جماعت رجسٹرڈ کرواتے ہوئے پاکستانی سیا ست میں حصہ لینا شروع کر دیا اور اپنی جماعت کا منشور ہی انہوں نے کرپشن سے پاک پاکستان رکھا اور ہر اس شخص کے خلاف آواز بلند کرنی شروع کر دی جو اس ملک کے وسائل لوٹ کر بیرون ملک لئے جا رہا تھا ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو آج پاکستان میں کھربوں روپے کے مالک بن چکے ہیں۔ 1996میں تحریک انصاف کی تشکیل کے فوراََبعد حالات نے ایک پلٹا کھایا اور پہلے مرتضیٰ بھٹو کو کلفٹن کے پر رونق چوک میں سب کے سامنے ایک'' پولیس مقابلہ‘‘ کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے اور پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو '' اس وقت کے
صدر سردار فاروق احمد لغاری کے ذریعے امریکی حکومت میاں نواز شریف کے کہنے پر بر طرف کرنے کا حکم جاری کروا دیتی ہے ۔یہ ایک ایسی سازش ہے جس کی کڑیاں اب سامنے آ چکی ہیں اور اس کی ایک گواہ '' مسز رابیل رافیل تھیں جنہوں نے بے نظیر بھٹو ختم ہونے سے چند ماہ قبل جولائی کے آخر میں میاں نواز شریف کے ساتھ مری میں لنچ کرتے ہوئے انہیں اقتدار سونپنے کا ایجنڈا طے کیا جس کا ذکر امریکی صدر کلنٹن سے میاں نواز شریف نے 22 مئی1998 کی رات دس بجے فون پر یہ کہتے ہوئے کیا :جناب صدر اگر چاہتے ہیں کہ آپ کے دیئے گئے ایجنڈے کو پورا کروں تو پاکستان میں میرا وزیر اعظم رہنا بہت ضروری ہے!! 
محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کرنے کے بعد آئین کے تحت90 دن بعدملک بھر میں عام انتخابات کا اعلان ہوا تو دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح عمران خان نے بھی عوام میں جانے کا فیصلہ کیا تو ہر جانب سے ایک ہجوم ان کی طرف لپک پڑا اور اس وقت کی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے ملنے والی رپورٹس اور سرکاری ٹیلیویژن کی فراہم کی جانے ٹی وی کوریج نے میاں نوازشریف کیلئے لمحہ فکریہ کی گھنٹی بجا دی ،اب یہ ایک لمبی کہانی ہے کہ یہ انتخابات کیسے ہوئے ،کیسے پی پی کو قومی اسمبلی کی دس نشستوں تک محدود کر دیا گیا۔ عمران خان اس وقت چونکہ دنیا میں بین الاقوامی طور پر جانا جانے والا شاید پہلا کرکٹر تھا جو ملکی سیاست میں مرکزی کردار ادا کرنے کیلئے عوام میں جا رہا تھا تو بین الاقوامی میڈیا اس کی کوریج کیلئے پاکستان میں امڈ پڑا۔ وہ انتخابات کیسے ہوئے ان کے نتائج کس نے اور کہاں مرتب کئے وہ اس ملک کے بہت سے صحافیوں کو اچھی طرح معلوم ہے۔۔'' انتخابات‘‘ ہوگئے جس کے نتیجے میں میاں نواز شریف ''دوسری مرتبہ وزیر اعظم‘‘ منتخب کرا دیئے گئے۔ 
جناب نواز شریف جیسے ہی وزیر اعظم کا حلف اٹھانے کے بعد اقتدار پر براجمان ہوئے تو انہوں نے عمران خان سے بدلہ لینے کا فیصلہ کر لیا اور اس سلسلے میں ملک کے پانچ سے زائد اداروں کو عمران خان کی چھان بین اور مقدمات بنانے کا حکم جاری کر دیا لیکن انہیں عمران خان کے فنانشنل معاملات میں کسی بھی قسم کی بد دیانتی نظر نہ آئی جس نے انہیں بہت مایوس کیا لیکن یہ سب ادارے ناکامی پر وزیر اعظم سے ڈانٹ کھانے کے بعد کچھ نہ کچھ کھوج لگانے کے چکر میں لگے رہے اور پھر ایک دن انہیں ایک موقع ایسا مل ہی گیا جیسے ذوالفقار علی بھٹو کی پی پی پی حکومت نے شہید چوہدری ظہور الٰہی پر بھینس چوری کا مقدمہ قائم کر دیا گیا تھا۔ 
جمائما خان اپنے شوہر اور ایک بچے کے ساتھ عمران خان کے ساتھ پر سکون ازدواجی زندگی گزار رہی تھی کہ ایک دن ایئر پورٹ پر تعینات کسٹم اہلکاروں کے سامنے عمران خان کی اہلیہ جمائما خان کی جانب سے اپنی والدہ کے نام لندن بھیجے جانے والے چند پیکٹس لائے گئے، ایئر پورٹ پر تعینات عملے نے اسی وقت اپنے افسران کو اس کی اطلاع دے دی کہ عمران خان کی اہلیہ جمائما خان کی جانب سے اپنی والدہ کو لندن کیلئے 397 ٹائلیں بھیجی جا رہی ہیں۔ اس کی اطلاع اسی وقت کسٹم کے اعلیٰ حکام کی جانب سے سی بی آر کو پہنچا دی گئی اور کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر وزیر اعظم تک خوشخبری پہنچا دی گئی کہ '' فاختہ کو پھنسا لیا ہے‘‘ جہاں سے حکم شاہی صادر ہوا کہ '' معاملے کو اپنی مہارت سے پیچیدہ کرتے ہوئے رگڑا دو‘‘۔
آج مریم صفدر کے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے اور حسین نواز کی تصویر پر آسمان سر پر اٹھا ئے دہائیاں دینے والے بھول گئے ہیں کہ نہ جانے کتنی بیٹیاں بیٹے اورر والدین آپ کی مہربانیوں سے ایک دوسرے سے جدائی کے غم سہہ رہے ہیں!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved