کچھ وصول کرو تو مصیبت‘ کچھ وصول نہ کرو تو مصیبت : نوازشریف
سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''کچھ وصول کرو تو مصیبت‘ کچھ وصول نہ کرو تو مصیبت‘‘ یعنی جو اتنا سارا وصول کیا تھا اس پر تو کچھ نہیں کہا‘ اور جو وصول نہیں کیا اس پر نااہل کر دیا‘ اگرچہ جو کچھ وصول کیا‘ اس پر ریفرنس الگ سے آ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''حالات نے نظریاتی بنا دیا جس کی سزا بھگت رہا ہوں‘‘ جو صرف نظریۂ وصولی ہی تھا اور اسی معصوم سے نظریے کی یہ سزا بھگت رہا ہوں‘ تاہم مریم نواز نے کہہ دیا ہے کہ میں وزیراعظم نہ بھی بنا تو لوگوں کے دلوں میں بستا رہوں گا‘ چنانچہ میں نے بھی یہی سوچا ہے کہ چوتھی بار وزیراعظم بننا تو اب ویسے بھی نہایت نامناسب بات ہے لہذا لوگوں کے دلوں میں بسنے والی بات زیادہ خوشگوار ہے کیونکہ وہاں سے تو خود لوگوں کے علاوہ کوئی نکال بھی نہیں سکے گا‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
اب سوچیں گے کس مُلک سے الحاق کرنا ہے : وزیراعظم آزادکشمیر
آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نے کہاہے کہ ''اب سوچیں گے کہ کس مُلک سے الحاق کرنا ہے‘‘ اگرچہ سوچنے کی کچھ ایسی ضرورت بھی نہیں‘ جس طرف سابق وزیراعظم اشارہ کریں گے اللہ کا نام لے کر کر لیں گے۔ اور‘ ظاہر ہے کہ اُن کا اشارہ بھارت ہی طرف ہو گا جس میں اب اُن کی برطرفی پر باقاعدہ سوگ منایا جا رہا ہے جس کے لئے ہم مودی صاحب کے غم میں برابر کے شریک ہیں اور اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ انہیں صبرجمیل عطا فرمائے۔ انہوں نے کہا کہ ''دُکھ ہے‘ نوازشریف کی بہ حیثیت وزیراعظم تذلیل کی گئی‘‘ اور لگتا ہے کہ یہی کچھ میاں شہبازشریف کے ساتھ بھی کیا جائے گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس بیان کی وجہ سے مجھے بھی دھر لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''ایک بار پھر نظریہ ضرورت کو زندہ کر لیا گیا‘‘ اگرچہ اس کی ضرورت بھی حد سے کچھ زیادہ ہی تھی۔ آپ اگلے روز حافظ حفیظ الرحمن کے ساتھ راولپنڈی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
بڑی سیاسی تبدیلی رونما ہو چکی‘ کارکن
الیکشن کی تیاری کریں : زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''بڑی سیاسی تبدیلی رونما ہو چکی‘ کارکن الیکشن کی تیاری کریں‘‘ اگرچہ ایک اور بڑی تبدیلی ابھی باقی ہے جس کے بغیر یہ تبدیلی ممکن ہی نہیں ہو گی کیونکہ خاکسار کے کئی کیس بھی کھُلنے والے ہیں جن کا نتیجہ بھی اسی طرح کا نکلے گا کیونکہ نتیجے بھی اب نئے طریقے سے ہی نکلنا شروع ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''پیپلز پارٹی ہی صحیح قومی اور جمہوری پارٹی ہے‘‘ اور لُطف یہ ہے کہ میرے‘ یوسف رضا گیلانی اور ایسے ہی متعدد دیگر خواتین و حضرات کے ہوتے ہوئے بھی یہ جمہوری پارٹی ہی ہے‘ خداوند تعالی کی کیا قدرت بیان کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ''یہ پارٹی ہی ملک کو بحرانی کیفیت سے نکال سکتی ہے‘‘ کیونکہ اگر شریف برادران کی طرح اس پارٹی سے بھی متعدد شُرفا کو نکال باہر کر دیا گیا تو یہ بحران اپنے آپ ہی ختم ہو جائے گا۔ آپ اگلے روز سابق وفاقی وزیر صاحبزادہ حامد سعید کاظمی کی ٹیلی فون پر عیادت کر رہے تھے۔
نوازشریف کی نااہلی کا فیصلہ قوم نے تسلیم
کیا نہ تاریخ کرے گی : شاہد خاقان عباسی
نامزد عبوری وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''نوازشریف کی نااہلی کا فیصلہ قوم نے تسلیم کیا نہ تاریخ کرے گی‘‘ اور انہوں نے خود بھی تسلیم کر کے غلطی کی ہے۔ کیونکہ عدم تسلیم کے نتیجے میں بھی وہ زیادہ سے زیادہ جیل ہی بھیجے جا سکتے‘ جو انہوں نے ہر حالت میں جانا ہی جانا تھا جبکہ سپریم کورٹ نے بھی چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جن مقدمات میں وہ اندر ہو سکتے تھے وہ ریفرنسوں میں بھجوا دیئے اور معمولی سے کیس میں نااہل کر دیا جس سے ثابت ہو گیا کہ ملک میں اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے‘ اور انشاء اللہ یہ گنگا بہت جلد سیدھی بہنے لگے گی اور حسب سابق اس میں یار لوگ نہ صرف مُنہ دھوئیں گے بلکہ ڈُبکیاں بھی لگائیں گے جو کہ اس گنگا کا واحد مقصد بھی ہے کیونکہ یہ ہماری گنگا ہے‘ بھارت کی نہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں نامزد ہونے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
خُدارا اختیارات پارلیمنٹ کے پاس رہنے
دیں‘ عدلیہ کے حوالے نہ کریں : اسفندیار ولی
عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی نے کہا ہے کہ ''سیاستدان خدارا اختیارات پارلیمنٹ کے پاس رہنے دیں‘ عدلیہ کے حوالے نہ کریں‘‘ کیونکہ ہمیشہ پارلیمنٹ ہی نے ہمیں تحفظ دیا ہے اور سالہا سال سے احتساب بل بھی بنایا نہ اسمبلی میں پیش کیا جبکہ اس دفعہ یہ اختیار عدلیہ نے اپنے آپ ہی لے لیا ہے اور ہم سب دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ گئے اور نہیں تو پارلیمنٹ ‘عدلیہ کا سو موٹو اختیار ہی ختم کر دے‘ ورنہ ہم سب کے ساتھ باری باری یہ مذاق ہوتا ہی رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''پاناما کیس کے فیصلے کو ہم تحفظات کے ساتھ قبول کرتے ہیں‘‘ کیونکہ یہ تو کہہ نہیں سکتے کہ ہم اسے تسلیم ہی نہیں کرتے‘ اسی لیے تحفظات کا سہارا لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں‘‘ اگرچہ یقین تو ہم کافی اور باتوں پر بھی رکھتے ہیں لیکن اُن کا ذکر نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔ آپ اگلے روز بلّور ہائوس پشاور میں پارٹی کی مرکزی کمیٹی سے خطاب کر رہے تھے۔
آج کا مطلع
نئی سحر ہے‘ سفینے خطر سے نکلے ہیں
ہزار خواب سفر بام ودر سے نکلے ہیں