تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     31-07-2017

تاریخی فیصلہ

آخرِ کار جنابِ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے 28جولائی کو ''تاریخی فیصلہ‘‘سنا دیا، جس کے نتیجے میں جنابِ نواز شریف کو نا اہل قراردے کر وزارتِ عظمیٰ سے معزول کردیا گیا،اس پر متضاد آراء ہیں کہ یہ نا اہلی کتنے عرصے کے لیے ہے ۔اس پر بھی بحث ہورہی ہے کہ جے آئی ٹی کی تحقیق کی نگرانی اوررپورٹ کی سماعت جنابِ جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں سہ رکنی بنچ نے کی، تو حتمی فیصلہ لارجر بنچ نے کیوں سنایا ، جبکہ بقیہ دو فاضل جج صاحبان تفصیلی سماعت کا حصہ نہیں تھے ۔ میری دانست میں اس کا ایک سبب یہ ہوسکتا ہے کہ اسمال بنچ کے فیصلہ سنانے کی صورت میں انٹرا کورٹ اپیل کی شاید گنجائش رہتی ہے ، لیکن لارجر بنچ کی صورت میں یہ گنجائش نہیں رہی اور ریویو پٹیشن کابنچ اور وکلابھی وہی ہوتے ہیں ،اس لیے یہ مشق بے سود ہوتی ،یہی وجہ ہے کہ فیصلے پر عملدرآمد بھی فی الفور ہو گیا ۔ عدالتی فیصلہ آئینی وقانونی طور پر نافذ ہوجاتا ہے، لیکن اُس کے حُسن وقبح پر بحث جاری رہتی ہے اور یہاں بھی جاری رہے گی۔
جنابِ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا تھا:''ہمارا فیصلہ تاریخی ہوگا،اسے سو سال تک یاد رکھا جائے گا‘‘۔ چند روز قبل علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کی رہائش گاہ پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا: ''ہمیں تاریخی انصاف نہیں چاہیے، حقیقی انصاف چاہیے‘‘۔ مولانا پختہ کار سیاست دان ہیں ،اس لیے ''پہلے تولواور پھر بولو‘‘ کے اصول پر عمل کرتے ہیں ،مغلوب الغضب نہیں ہوتے،ہوش میں بات کرتے ہیں ، پس دل کی بات کہہ بھی دی اور ناپختہ کار طلال چوہدری اورنہال ہاشمی صاحبان کی طرح توہین عدالت کے نوٹس کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑا۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ کے تناظر میں ''تاریخی فیصلہ‘‘ کرنے والے عالی مرتبت جج صاحبان میں جسٹس محمد منیر ،جسٹس مشتاق حسین ، جسٹس انوار الحق معِ رُفقائے کار، جسٹس ارشاد حسن خان معِ رُفقائے کار(بشمول جسٹس افتخار محمد چوہدری )اور جسٹس عبدالحمید ڈوگر وغیرہ کے اسمائے گرامی آتے ہیں ۔ماضی میں ہماری باوقار عدالتوں نے مختلف مواقع پرمارشل لاکو سندِ توثیق اورآمر وقت کو استدعا کے بغیر دستور میں ترمیم کا اختیار بھی عطاکیا۔ مولانا فضل الرحمن کا اشارہ اسی ''تاریخ‘‘ کی جانب تھا، جس پر بعد میں جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ اظہارِ ندامت کرتے رہے،لیکن یہ پشیمانی ''عذرگناہ بدتر از گناہ‘‘کا مصداق بنتی ہے۔ یہ ''تاریخی فیصلہ ‘‘پاکستان کی دستوری اور قانونی تاریخ میں کیا مقام پائے گا،اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی۔ 
ہمارے اہلِ علم کے درمیان جب علمی اور فقہی مسائل پر مجلسِ تحقیق منعقد ہوتی ہے ، توہر صاحبِ علم کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ حسبِ منشا اپنے مقدمات ترتیب دے کراپنا موقف بیان کریں تاکہ اُن کے استدلال کی بنیادسامنے آجائے، اُس کے بعد اُن سے سوالات یا وضاحت کی نوبت آتی ہے۔ اس مقدمے میں جو منظر ہم نے دیکھا کہ نوبجے کارروائی شروع ہوئی اور جج صاحبان کے سوالات کے ٹِکر چلنے شروع ہوگئے ، ایسے میں اپنا موقف پیش کرنے والا چکرا جاتا ہے۔ پھر بعض سوالات درجنوں بار دہرائے گئے اور بعض نہ علمی سطح کے تھے ،نہ عدالتی وقار کے شایانِ شان تھے، مثلاً: (۱)یہ سوال کہ ابوظبی سے کسٹم کلیئرنس آپ نے دیدی، دبئی اور ابوظبی کے درمیان کسٹم کا ریکارڈ کہاں ہے ، یہ بات تو ایک عام آدمی کو بھی معلوم ہے کہ متحدہ عرب امارات ایک ملک ہے اورامارات کے اندر آمد ورفت اور نقل وحمل آزادانہ ہوتی ہے ، کسٹم یا امیگریشن چیک پوسٹ نہیں ہوتی ،بلکہ اب تو شنگن ممالک کے درمیان بھی یہی صورتِ حال ہے، حالانکہ وہ سب الگ الگ ملک ہیں،(۲)چھٹی والے دن نوٹری پبلک نے دستاویز کی تصدیق کیسے کرلی، اس پر معلومات کا انبار لگ گیا کہ مغربی ممالک میں نوٹری پبلک کے دفاتر چھٹی کے دن بھی کھلے ہوتے ہیں ،وہ کسی کے گھر آکر بھی تصدیق کرسکتے ہیں ۔جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جب ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ میں سراج الحق کے سوا کوئی بھی آرٹیکل 62/63پر پورا نہیں اترتا ،تو اس کے التزامی معنی یہ تھے کہ منتخب ایوانوں میں سب کاذب اور خائن بیٹھے ہیں، لیکن بعد میں انہیں احساس ہوا اور انہوں نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ریمارکس واپس لے لیے، لیکن بصد ادب عرض ہے کہ عالی مرتبت جج صاحبان کو کوئی بھی ریمارکس دینے سے پہلے کئی بار سوچنا چاہیے۔
یہ بھی ایک سوال ہے کہ فوت شدہ شخص کا احتساب ہونا چاہیے ، محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اُن کے بعض مقدمات لپیٹ دیے گئے ،تو میاں محمد شریف مرحوم کے معاملات کو زیرِ بحث لانا آیا عدالتی روایات سے مطابقت رکھتا ہے ۔اسی طرح یہ سوال کہ دادا نے پوتوں کو ہبہ کیا تو دوسرے وارثوں کو کیوں نہ دیا؟۔ شریعت کی رُو سے یہ سوال نہیں بنتا، اول اس لیے کہ ورثا کا تعیُّن کسی شخص کی وفات کے بعد ہوتا ہے ، زندگی میں نہیں ہوتا ، زندگی میں صرف ہبہ ہوتا ہے، حدیثِ پاک میں اس امر کو پسندیدہ قرار دیاگیاہے کہ زندگی میں اولادکے درمیان ہبہ میں مساوات ہو ، لیکن اِس کا اطلاق پوتوں پر نہیں ہوتا ، کیونکہ کسی کے انتقال کے بعد اولاد کی موجودگی میں پوتے پوتیاں وارث نہیں بنتے ۔یہ سوال بھی قائم رہے گا کہ اپیکس کورٹ کا براہِ راست کسی شخص کو نا اہل قرار دینا اگرچہ عدالت کے اختیار میں ہے ،لیکن انصاف کے فطری اصولوں کے منافی اور عدالتی اختیار کاغیر حکیمانہ استعمال ہے،کیونکہ متاثرہ شخص اگرسمجھے کہ اس کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے تو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعداس کے پاس انصاف طلبی کا کوئی عدالتی فورم باقی نہیں رہتا۔ جنابِ نعیم بخاری نے بھی جنابِ عمران خان کی نا اہلی کے مقدمے میں یہی موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ کو اس آرٹیکل کے تحت نا اہل قرار دینے کا اختیار نہیں ہے ۔ ''شک کا فائدہ ملزم کو ملتا ہے اور قصور وارکا سزا سے بچ جانا بے قصور کو سزا ملنے سے بہتر ہے‘‘، یہ نظریات انسانی دانش کے طویل تجربات کا نچوڑ ہیں اوریہی اسلامی تصور ِعدل ہے۔ واضح رہے کہ ہم اس حوالے سے صرف اُن آئینی وقانونی ماہرین کی رائے کو ترجیح دیتے ہیں جو مدّعی یا مدّعیٰ علیہم میں سے کسی کے ساتھ وابستگی یا تعصب و نفرت نہیں رکھتے اور صرف آئینی وقانونی معیارات پر آزادانہ رائے دیتے ہیں: جیسے جنابِ ایس ایم ظفر ،جنابِ عرفان قادر، جنابِ ڈاکٹر خالد رانجھا، جنابِ جسٹس ناصر اسلم زاہد اور جنابِ عابد منٹو وغیرہ ۔ پس یہ فیصلہ مسلّمہ آئینی وقانونی اقدار و روایات کے اعتبار سے کئی مضمرات کا حامل ہوگا اورآئندہ کے لیے عدالتی نظیر بنے گا،پس وقت بتائے گا کہ یہ فیصلہ ہماری عدالت عظمیٰ کے فاضل بنچ کے لیے مستقبل میں نیک نامی کا باعث بنے گا یا ایک ملامت بن کر رہ جائے گا۔اسی طرح پاکستان کے تناظر میں سعودی عرب یا دبئی کا اقامہ ایک لطیفے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا، پس اقامہ رکھنے والے تمام سیاستدانوں، صنعتکاروں و تاجروں اور بیوروکریٹس کوکسی عامل سے ''دفعِ بلا‘‘کا وظیفہ پڑھواتے رہنا چاہیے ،کیونکہ کسی وقت اُن کی گردن بھی پھنس سکتی ہے ،کئی عاملوں کو روزگار مل جائے گا۔سو جو چیز نا اہلی کا سبب بنی ،پٹیشن میں اس کا ذکر نہیں تھا، جنابِ فیض احمد فیض نے کہا تھا:
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
بزعم خویش موجودہ دور کے انقلابی اورکَجْکُلاہ سیاستدان جناب سراج الحق پانامالیکس کے 600 مُدّعیٰ علیہم کی بابت استدعا لے کر گئے تھے،اُن کی کامیابی کا تناسب صرف 17ء0فیصدہے ، اسی لیے جناب عبداللہ طارق سہیل نے ان پر ''بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘‘ کی پھبتی کسی تھی ۔اب یہ ان پر منحصر ہے کہ اپنی کامیابی کا جشن منائیں یا ناکامی کا غم ۔ پیپلزپارٹی بھی آخر میں آکر شامل باجا ہوئی۔ صرف وزیرِ اعظم نواز شریف تو جناب عمران خان کا ہدف تھے اور انہیں اس میں کم از کم پانچ سو فیصد کامیابی ملی ،کیونکہ جنابِ نواز شریف کے پورے خاندان اورمعاونین سمیت کئی افراد کے خلاف نیب میں ریفرنسز کھولنے اورمقررہ مدت میں تکمیل کا حکم صادر ہواہے،لہٰذا انہیں جشن منانے کا پورا حق حاصل ہے۔ ایک امکان ابھی پردۂ خِفا میں ہے کہ آیا اب وزیرِ اعظم ہائوس بنی گالہ سے صرف ایک جَست کے فاصلے پر رہ گیا ہے یا ابھی:''ہزاروں لغزشیں حائل ہیں لب تک جام آنے میں‘‘۔
سواد اعظم تو معمولی خوشی پر بھی قناعت کرنے والے سادہ لوگوں پر مشتمل ہے، مجھے بتایا گیا کہ ممتاز قادری شہید کے حوالے سے وہ اس فیصلے پر بے انتہا خوش ہیں اورسوشل میڈیا پر شادمانی کا ایک جشن بپا ہے، وہ یہ بھول گئے کہ اسی بنچ کے ایک فاضل جج نے ممتاز قادری شہید پر دہشت گردی کی دفعہ بحال کر کے اسے دوبار سزائے موت کا حقدار قرار دیا تھا اور ریویو پٹیشن کو بھی مسترد کر دیا تھا، میں نے 5مارچ2016 ء کے کالم میں لکھا تھا:
''حکومتِ وقت نے چوروں اور ڈاکوئوں کی طرح شب خون مارا اور رات ایک بجے ممتاز حسین قادری شہید کی سزائے موت کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ،کیا کسی دہشت گرد کے ساتھ بھی ایسا سلوک روا رکھا گیا ہے؟۔یہ ان حکمرانوں کی شقاوت اور بدنصیبی ہے اور انہوں نے اس کا ارتکاب کر کے اپنے زوال کی پہلی اینٹ خود ہی رکھ دی ہے اوراپنی عاقبت کو برباد کیا ہے،انہوں نے اپنے چہرے پر ایسی کالک مَلی ہے ،جسے تاریخ کے صفحات سے کبھی بھی مٹایا نہیں جاسکے گا‘‘ ۔اسی طرح جمعۃ المبارک کے دن فیصلے کے اعلان کا سبب بعض حضرات نے جمعہ کی چھٹی کی منسوخی کا وبال قرار دیا ہے، سو جتنے منہ اتنی باتیں۔البتہ ہمارے دوست کیپٹن صفدر صاحب کے بارے میں کیا کہیں گے ،وہ تو بہتوں سے زیادہ پختہ اور خاندانی سنی ہیں۔

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved