تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     31-07-2017

درد جب حد سے گزرتا ہے …

ماہرین کو ایک بات کی داد تو دینا ہی پڑے گی۔ یہ کہ وہ انسان کو کسی نہ کسی طور بہلا پُھسلاکر کچھ دیر کے لیے ہر غم سے آزاد کردیتے ہیں۔ سنیما ہاؤس میں تین گھنٹے بیٹھ کر فلم دیکھنے والا شخص جس کیفیت میں رہتا ہے یعنی باہر کی (حقیقی) دنیا سے بے خبر ہوکر اپنی مستی میں مست رہتا ہے بالکل اُسی طور ماہرین کی میٹھی اور بھلی باتیں سُن اور پڑھ کر بھی انسان (کچھ دیر کے لیے ہی سہی) کسی اور دنیا میں پہنچ جاتا ہے اور اِس دوران رنج و غم کے چراغوں میں روشنی برائے نام بھی نہیں رہتی۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ اُس خیالی دنیا میں پی ٹی وی کا راج ہوتا ہے یعنی فضاء ''سب اچھا ہے‘‘ کا راگ الاپ رہی ہوتی ہے! 
ہالینڈ کے ماہرین کی ''تازہ ترین‘‘ تحقیق یہ ہے کہ اگر انسان کبھی کبھی کچھ دیر آنسو بہالیا کرے تو اُس کے بہت سے غم دور ہوجائیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ہر انسان اپنے دل پر کسی نہ کسی حوالے سے دباؤ محسوس کرتا ہی ہے۔ کہیں کام کا دباؤ ہوتا ہے، کہیں مالی مشکلات کا اور کہیں رشتوں یا تعلقات میں کھنچاؤ کا۔ ایسے میں تھوڑی دیر کے لیے رونا دل اور دماغ پر سے سارا بوجھ اتار دیتا ہے۔ اس حوالے سے متعدد تجربات کیے گئے اور ان تجربات کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ آنسوؤں کے ریلے میں دل کی ساری گھٹن بہہ جاتی ہے، دل و دماغ پر کوئی ایسا بوجھ باقی نہیں رہتا جو پریشانی کا باعث ہو۔ 
ایک بار پھر مغربی ماہرین پیچھے رہ گئے۔ آنسوؤں کے ریلے کیا کرسکتے ہیں اور کیا نہیں کرسکتے اِس نکتے پر وہ اب تحقیق فرما رہے ہیں اور ہم صدیوں سے اِن ریلوں میں بہہ رہے ہیں! اور حق تو یہ ہے کہ رونا پیٹنا اب ہماری نفسی ساخت کا ناگزیر حصہ ہوکر رہ گیا ہے۔ روئے بغیر کھانا کھایا جاتا ہے نہ ہضم ہو پاتا ہے! 
صدیاں گزر گئی ہیں ہمیں آنسوؤں کے ریلوں میں بہتے ہوئے مگر داد دیجیے آنسوؤں کو کہ اب تک نہیں تھکے اور پیٹھ تھپتھپائیے گھٹن اور دباؤ کی کہ وہ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں! گویا ع 
دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی! 
مغرب کے ماہرین دل اور دماغ پر مرتب ہونے والے دباؤ سے گلو خلاصی کے لیے کیا تجویز کرتے ہیں اِس سے قطعِ نظر ہم نے اپنے طور پر بہت سے نسخے آزمائے ہیں اور اُن کے خاطر خواہ نتائج بھی حاصل کیے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم اب اِس معاملے میں اِتنے دور نکل آئے ہیں کہ واپسی بظاہر ناممکن ہے۔ دل کا بوجھ کم کرنے کے لیے دنیا بھر کے ماہرین مل کر وہ سب کچھ نہیں کرسکتے جو ہمارے ہاں عام آدمی اپنی صوابدید کے مطابق کر گزرتا ہے۔ ہم ماہرین کی تازہ ترین تحقیق کا انتظار نہیں کرتے اور صورتِ حال کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے ؎ 
دل کی تنہائی کو آواز بنالیتے ہیں 
درد جب حد سے گزرتا ہے تو گالیتے ہیں! 
ہماری فلموں میں درجن بھر گانے اِس لیے ہوا کرتے تھے کہ لوگوں کی زندگی میں غم ہی غم تھے۔ لوگ ہیرو اور ہیروئن پر گزرتے ہوئے حالات و واقعات میں اپنی پریشانیوں کا عکس دیکھتے تھے اور سنیما کے پردے پر ہیرو یا ہیروئن کو کسی انتہائی المناک گانے پر ہونٹ ہلاتے ہوئے دیکھ کر یہ محسوس کرتے تھے کہ وہ خود گاکر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر رہے ہیں۔ یہ تھا ایموشنل بلیک میلنگ کا وہ ہنٹر جو ہم پر برسا برساکر فلم میکرز عشروں تک اپنی تجوریاں بھرتے رہے! 
جہاں بادل ہوتے ہیں وہاں پانی تو برس کر رہتا ہے۔ یہی حال پریشانیوں، گھٹن اور دباؤ ہے۔ جہاں بھی گھٹن ہوگی، آنسوؤں کی جھڑی ضرور لگے گی۔ اور جتنی گھٹن ہوگی اُتنے ہی آنسو ہوں گے۔ ہماری پریکٹس تو ایسی ہے کہ اُدھر گھٹن ختم ہونے کا نام نہیں لیتی اور اِدھر آنکھیں خشک ہونے پر نہیں آتیں۔ یعنی ''لگے رہو مُنّا بھائی‘‘ والا معاملہ ہے۔ دونوں طرف پورے زور و شور سے ع 
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا 
کا نعرہ گونجتا رہتا ہے۔ اِسی نکتے کو غالبؔ نے ذرا بدلے ہوئے انداز اور تیور کے ساتھ یوں بیان کیا تھا ع 
وہ اپنی خُو نہ چھوڑیں گے، ہم اپنی وضع کیوں بدلیں؟ 
اور اگر عوامی زبان اپنائیے تو یوں کہا جائے گا کہ پریشانیاں اور آنسو دونوں ہی کی ڈِھٹائی کا گراف بلندی پر رہتا ہے۔ پریشانیاں کم ہونے میں نہیں آتیں اور آنسو اپنی روانی کو خیرباد پر آمادہ نہیں! 
اگر کوئی یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ محض آنسو بہانے سے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے تو وہ سختی غلطی پر ہے۔ فلم میکرز ہی نے ہمیں یہ درس بھی دیا ہے کہ کبھی کبھی پریشانیوں سے نجات پانے کے لیے ہنسنے کے ساتھ ساتھ رونا اور رونے کے ساتھ ساتھ ہنسنا بھی پڑتا ہے۔ یعنی بریانی اور زردہ مِکس کرکے کھائیے! آپ کو یاد نہیں کہ ''آوارہ‘‘ میں راج کپور نے مکیش صاحب کی زبانی کیا طریقہ اختیار کیا تھا؟ یہی کہ ع 
ہم تجھ سے محبت کرکے ہنستے بھی رہے روتے بھی رہے! 
یعنی کسی ایک پر بھروسہ نہ رکھو، دونوں ہی آپشن بروئے کار لے آؤ۔ کیا پتا کس آپشن کے نصیب میں کارگر ہونا لکھا ہو! خیر، محبت میں تو انسان پر ایسا وقت بھی گزرتا ہے کہ ع 
... آنکھیں خشک ہو جاتی ہیں، طغیانی نہیں جاتی! 
اور محبت ہی کے ہاتھوں انسان ایسی عجیب کیفیت سے گزرتا ہے کہ غم اور خوشی خلط ملط ہوکر رہ جاتے ہیں، مفہوم سے بے بہرہ ہو جاتے ہیں اور ایسے میں انسان کہہ اٹھتا ہے ؎ 
اب میرے لیے غم اور خوش دو لفظ ہیں بالکل بے معنی 
ہنسنے پہ کبھی رو دیتا ہوں، رونے پہ ہنسی آجاتی ہے! 
نفسی امور کے ماہرین نے جو حل اب تجویز کیا ہے وہ ہم صدیوں سے آزماتے آئے ہیں مگر اب تک دل بھرا ہے نہ کام ہوا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ کسی سے دو گھڑی بات کرکے، چار آنسو بہاکر دل کا بوجھ ہلکا کیا جاسکتا ہے مگر یہاں تو حالت یہ ہے کہ خواتینِ خانہ روزانہ ایک ایک گھنٹے کے پیکیج پر کئی بار ''تبادلۂ خیال‘‘ فرماتی ہیں مگر دل کا بوجھ ہے کہ کم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ رونا جتنا رویا جارہا ہے اُتنا ہی بڑھتا جارہا ہے۔ کائنات کے خالق نے دو ایک جاندار ایسے بھی پیدا کیے ہیں جنہیں ختم کرنے کے لیے ٹکڑے کیجیے تو ہر ٹکڑا بجائے خود نئے جاندار میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ہماری پریشانیوں اور گھٹن کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ دل و دماغ پر سے دباؤ کم کرنے کے لیے آنسو بہائیے، کسی کے سامنے دُکھڑا روئیے تو دباؤ کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی چلا جاتا ہے! کچھ کچھ ایسا ہی معاملہ رات بھر سرگوشیوں میں فون پر باتیںکرنے والے نوجوانوں کا بھی ہے۔ خدا جانے یہ کیسی محبت ہے کہ رات رات بھر فون پر لگے رہنے سے بھی جس کا مکمل یا موثر اظہار نہیں ہو پاتا! سوال دل و دماغ کے دباؤ اور گھٹن کا ہو یا پھر محبت کا، دونوں ہی معاملات میں آنسو بہانے سے تشفّی نہیں ہو پاتی بلکہ معاملہ بالآخر ''مرض بڑھتا گیا جوُوں جُوں دوا کی‘‘ کی منزل تک پہنچ کر دم لیتا ہے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved