تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     01-08-2017

پھول کی پتی اور ہیرے کا جگر…(قسط دوئم)

فارسی کے ایک مصرع کے مطابق حکایت جتنی لمبی ہوتی گئی اُتنی مزیدار (فارسی میں لذیذ) بھی۔ کالم نگار کے انداز ے کے برعکس کوہ نور کے تذکرے نے اتنا طول پکڑا کہ دُوسرا کالم بھی لے گیا۔ اب کوہ نور سے میری جان چھوٹے تو میں دُوسری باتوں کا بھی ذکر کروں۔ خصوصاً کرکٹ کے تاریخی مقابلہ میںپاکستان کے غیر تجربہ کار، نو آموز مگر بہادر اور بے خوف کھلاڑیوں کی نہایت شاندار کامیابی پر اس کالم میں اُن پر داد وتحسین کے پھول بارش کی طرح برسائے جانے کی خواہش کب پوری ہوگی؟ یہ اُس قسم کی خواہش ہے جو غالب کے دل میں ایک نہیں۔ سو بھی نہیں۔ ہزاروں تھیں اور وہ بھی اتنی زبردست کہ ہر ایک خواہش پر اُن کا دم نکلتا تھا۔
آیئے اب ہم اس کمبخت یا بلند بخت ہیرے (کوہ نور) کی طرف متوجہ ہوں کہ وہ وُہی دُوسرا کالم لکھے جانے کا واحد جواز ہے۔ کتنا اچھا ہوتا کہ Dairylympleکی بھارتی نژاد انیتا سے ملاقات نہ ہوتی اور اگر ہوتی تو وہ موسم کرکٹ اور حالات حاضرہ اور اس قسم کے دُوسرے موضوعات پر گفتگو کر تیں اور اگر سر راہ کوہ نور کا ذکر چھڑ ہی گیا تھا تو اس پر کتاب لکھنے کی زحمت اُٹھانے کی کیا ضرورت تھی ؟ اور اگر کتاب چھپ ہی گئی تھی تو کیا ضروری تھا کہ وہ میری کثرت مطالعہ سے تھکی ہوئی نظروں سے گزرتی؟ اب میرے پیارے قارئین کو ان کے ناکردہ گناہوں کے سزا ملنے سے بچ نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ یہ بھی اتفاقاً غالب کی ایک اُس غزل کا مصرع ہے جس کا مطلع ہے : 
؎ کوئی اُمید بر نہیں آتی
غالب کو ایک زمانہ میں حال دِل پر ہنسی آتی تھی اور اس کالم نگار کو نہ چاہتے ہوئے بھی کوہ نور پر دُوسرا کالم لکھنے کی مجبوری پر۔ برطانوی سامراج نے کوہ نور کو نو آبادیات کی فتوحات کے نشان کے طورپر استعمال کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ اُسے ایک تجارتی برانڈ کا درجہ دیا گیا۔ لکھنے والی پنسل سے لے کر ریستوران کا نام تک۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا۔ بذات خود کوہ نور ہیرے کو جس قلعہ میں عوامی نمائش کے لئے رکھا گیا ہے اُسے سالانہ ساٹھ لاکھ (روزانہ 20 ہزار کے قریب) افراد ٹکٹ خرید کر دیکھتے ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے دس سالہ سکھ شہزادے پر دبائو ڈالنے کے لئے یہ تیاری بھی کر لی تھی کہ اگر وہ ہیرا دینے پر رضا مند نہ ہوا تو اُس کی ماں کو قید کر کے تنگ و تاریک کوٹھڑی میں اُس وقت تک رکھا جائے جب تک کہ ہیر امل نہیں جاتا۔ جب سکھ تیسری جنگ (جو پنجاب میں منڈی بہائو الدین کے قریب چیلانوالہ میں لڑی گئی) ہار گئے تو شکست خوردہ فوج سے کوہ نور ہیرے کی وصولی بھی صلح نامہ کی نمایاں شرط تھی۔ ہیر اتو ملکہ وکٹوریہ تک اُس کے وفادار ملازمین نے پہنچا دیا مگر ملکہ نے اپنے ضمیر کی خلش دُور کرنے کیلئے یہ منصوبہ بندی کی کہ کم عمر دلیپ سنگھ کو شاہی محل بلایا جائے تاکہ وہ خود اپنے ہاتھوں سے ملکہ کو کوہ نور پیش کرے۔ ملک کے مشیروں اور مصاحبین کو بڑے خدشات لاحق تھے کہ ایک تو یہ کہ دلیپ سنگھ بڑا کم عمر ہے۔ (تقریباً بارہ سال عمر ہوگی)۔ دُوسرا یہ کہ جو بھی ہو آخر وہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا بیٹا ہے۔ تیسرا یہ کہ نہ صرف سکھ ہے بلکہ ایک جنگجو قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس لئے اس بات کا بھی امکان ہے کہ کہیں دلیپ سنگھ طیش میں آکر کوہ نور کو کھڑکی سے باہر شاہی محل کے اندر اُگی ہوئی گھاس میں اس طرح پھینک دے کہ ہیرا گم ہو جائے۔ یہ خدشات غلط ثابت ہوئے۔ دلیپ سنگھ نے دو زانو ہو کر، جھک کر ملکہ وکٹوریہ کو فرشی سلام کیا اور درخواست کی کہ وہ کوہ نور ہیرے کو بطور تحفہ قبول فرمائیں۔ اس کارروائی کے بعد ملکہ وکٹوریہ نے شاہی تقریبات میں کوہ نور کو اپنے جواہرات کا حصہ بنانا شروع کر دیا۔ مذکورہ بالا کتاب لکھنے والوں نے یہ حیرت انگیز انکشاف بھی کیا ہے کہ 1720 ء سے پہلے دُنیا بھر میں صرف ہندوستان میں ہیرے کانوں سے یا ندیوں سے نکالے جاتے تھے۔ تین سو سال پہلے ہر ہیرے کا آبائی وطن ہندوستان ہوتا تھا۔ کوہ نور کی تاریخ لکھی گئی تو اس خصوصیت کا نمایاں ذکر کیا گیا کہ اس ہیرے کا ایک مالک سے دُوسرے مالک تک پرُ امن اور خوشگوار حالات میں انتقال کبھی نہ ہوا۔ ہمیشہ تشدد۔ لوٹ مار۔ دھونس اور دھاندلی۔
1851 ء میں برطانوی حکومت نے اپنی رعایاپر رُعب ڈالنے کے لئے لندن کے دل میں پھیلے ہوئے ہائیڈ پارک Hyde park میں کوہ نور کی نمائش کا اہتمام کیا ۔ برطانیہ کی کل آبادی کا ایک تہائی ٹکٹ خرید کر اس نمائش کو ذوق و شوق سے دیکھنے گیا۔ جاننے والے لوگ کہتے ہیں کہ غالباً کوہ نور کا ایک بڑا بھائی بھی تھا۔ جو مغلیہ سلطنت کے خزانہ کا سردار تھا۔ نہ معلوم اُس کا فارسی زبان میں کیا نام تھا مگر جب شومئی قسمت سے یہ ہیرا رُوس پہنچا تو وہاں اُس کا نام Orlov رکھا گیا اور اب وہ رُوسی حکومت کے ماسکو میں صدر مقام Kremlin کی سب سے بڑی زینت ہے۔بھارتی سیاست دان اور مورخShashi Tharoor کی تحقیق کے مطابق کوہ نور جب پہلی بار منظر عام پر آیا تو اُس کا وزن 793 قراط (158.6 گرام) تھا اسے جنوبی بھارت کی ریاست آندھرا پردیش میں Guntur کی ایک کان سے نکالا گیا۔یہ اُس وقت کی بات ہے جب وہاں Kakatiya خاندان کی حکومت تھی۔ کوہ نور کو مندر میں بطور سجاوٹ رکھا گیا۔ کوہ نور پر پہلی اُفتادیہ پڑی کہ جب علائو الدین خلجی نے اس ریاست کو فتح کر لیا تو وہ کوہ نور کو بطور مال غنیمت دہلی لے گیا۔ پھر وہ مغل بادشاہوں کے قبضہ میں رہا۔ 1793 ء میں دہلی کو ایرانی قذاق نادر شاہ نے لوٹا تو وہ تخت طائوس کے ساتھ کوہ نوربھی لے گیا۔ بلکہ اس ہیرے کا نام کوہ نور بھی اسی نے رکھا۔ نادر شاہ کی وفات کے بعد اُس کا ایک جرنیل احمد شاہ درانی افغانستان کا حاکم بن گیا تو کوہ نور اُس کے قبضہ میں چلا گیا۔ 1809 ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے افغانستان فتح کیا تو کوہ نور کی صورت میں اُسے بڑا انعام ملا۔ اس طرح لاہور کوہ نور کا نیا مسکن بنا۔ سکھ سلطنت ختم ہوئی تو کوہِ نور نے لاہور سے لندن کا سفر کیا۔ 
بھارتی عدالت عالیہ میں کئی بار ایسی درخواستیں پیش کی جا چکی ہیں۔جن میں عدالت سے درخواست کی جاتی رہی ہے کہ وہ بھارتی حکومت کو کوہ نور کی بازیابی کے لئے ہر ممکن کوشش کرنے کا حکم دے۔ افسوس کہ اس طرح کی عرضیاں پیش کرنے والے وکیلوں نے بھارت کا ایک قانون نہیں پڑھا۔ ورنہ وہ اپنا اور عدالت کا وقت ضائع نہ کرتے۔ اس قانون کا نام ہے۔ Antiquities and Art Treasures Act 1972 ۔ بھارتی پارلیمنٹ کے منظور کردہ قانون کے مطابق بھارتی حکومت مجاز نہیں کہ وہ 1947 ء سے پہلے بھارت سے برآمد کردہ نوادرات کی واپسی کا قانونی مطالبہ کرے یا استغاثہ دائرہ کرے۔ وکالت کا پیشہ ایک بیرسٹر کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی کو مفت قانونی مشورہ دے (اور وہ بھی بھارت کی متعصب اور فرقہ واریت کے زہر میں بجھی ہوئی حکومت کو) کہ چاہے کوہ نور کی لندن سے بھارت واپسی کا کتنا کمزور اور بودا ہو پھر بھی رسمی کارروائی اور بھارتی عوام کی اشک شوئی (جو کرکٹ میں حالیہ ذلت آمیز شکست کے بعد اور ضروری ہو گئی ہے) کے لئے اقوام متحدہ کی ایک خصوصی کمیٹی (مناسب فیس ملنے پر ڈاک کا پتہ اور فون نمبر بتایا جا سکتا ہے) سے رجوع کرنا چاہئے۔ بھارتی حکومت کی کشمیر پالیسی نے اس کا اخلاقی دیوالیہ پن عیاں کر دیا ہے۔ اب اُسے کوہ نور مل بھی جائے (جو ہر گز ممکن نہیں) ایک نہیں لاکھ کوہ نور مل جائیں تو اُسے دنیا بھر کے عوام دوست لوگوں کی نظر میں وہ عزت کیونکر ملے گی جو وہ گنوا بیٹھی ہے۔بھارت اب صرف Oval کی گرائونڈ میں نہیں بلکہ ہر محاذ پر شکست کھائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved