تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     01-08-2017

محبت میں فرق

مخلوق سے خدا کی محبت کو ہمیشہ ماں کی اولاد کے ساتھ محبت سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ ''70 مائوں سے زیادہ محبت کرنے والا رب۔‘‘ بلکہ خدا تو یہ کہتا ہے کہ ماں باپ کے دل میں محبت بھی میں نے اتاری۔ دوسروں کو چیر پھاڑ کر کھا جانے والے درندے بھی اپنی اولاد سے محبت کرتے ہیں۔ اللہ کہتا ہے کہ یہ محبت ماں اور باپ کی ذاتی مِلک نہیں۔ اگر خدا کی طرف سے دلوں میں یہ محبت نہ اتاری جاتی تو تم دنیا کی ساری دولت خرچ کرکے بھی یہ محبت پیدا نہ کر سکتے۔ اللہ یہ کہتا ہے کہ میں تمہیں جب موت کے بعد دوبارہ زندہ کروں گا تو حشر کے میدان میں یہ محبت اٹھا لوں گا۔ تب ماں بیٹے کو پہچاننے سے انکار کر دے گی اور بیٹا باپ کو۔ حشر کا میدان تو بہت دور ہے، اسی دنیا میں ہم اس کا نظارہ کر سکتے ہیں کہ ماں کے دل سے محبت کیسے اٹھائی جاتی ہے۔ بلّی اپنے بلونگڑوں کے پاس سے بھی کسی کو گزرنے نہیں دیتی لیکن جب یہ ایک خاص عمر کے ہو جاتے ہیں تو اچانک وہ انہیں چھوڑ کر بھاگ جاتی ہے۔ چیتوں میں یہ ہوتا ہے کہ ہر طاقتور نر اور مادہ اپنا ایک مخصوص علاقہ منتخب کرتے ہیں۔ اپنی اس حدود میں کسی کو وہ گھسنے نہیں دیتے۔ مادہ اپنے بچوں کی بلی ہی کی طرح بھرپور حفاظت کرتی ہے۔ جب وہ بڑے ہو جاتے ہیں تو ان میں سے زیادہ طاقتور اپنے بہن بھائیوں اور حتیٰ کہ ماں کو بھی اس علاقے سے بے دخل کر دیتے ہیں۔ اس وقت ماں اور بچے ایک دوسرے کو دشمن کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ 
نفس جو کہ جبلتوں کا مجموعہ ہے، اس میں صرف اپنی ذات سے انتہائی شدید محبت ہوتی ہے۔ یہ کبھی دوسروں کی خاطر زحمت اٹھانا پسند نہیں کرتا۔ یہ ہمیشہ دوسروں کو اپنے لیے ایثار کرتے دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ دوسروں کو اپنے لیے serve کرتے دیکھنا چاہتا ہے۔ ماں باپ اور بالخصوص ماں کی محبت میں اس کے بالکل برعکس، نفس پسپا ہو جاتا ہے۔ خود اپنے آپ کو تکلیف دے کر وہ اولاد کو راحت پہنچاتی ہے۔ اولاد کے پائوں میں کانٹا چبھنا بھی اسے گوارا نہیں ہوتا۔ پھر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جو خدا 70 مائوں سے زیادہ محبت کرتا ہے، وہ انسان کو کسی بھی تکلیف میں نہ ڈالتا لیکن اس دنیا میں ہر جگہ، ہر قدم پر ہمیں تکلیف نظر آتی ہے۔ آخر کیوں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ ماں کی اولاد سے محبت اور خدا کی مخلوق سے محبت میں کیا فرق ہے۔ 
خدا اور ماں کی محبت میں بنیادی فرق علم کا ہے۔ خدا بندے سے 70 مائوں سے زیادہ محبت کرتا ہے لیکن وہ کروڑوں اربوں مائوں سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ علم تو ہے ہی سارا کا سارا خدا کے پاس‘ اور اس میں سے اپنے بندوں میں سے جتنا کسی کو دینا چاہے، وہ دے دیتا ہے۔ ''اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے لیکن جتنا وہ چاہے‘‘۔ انسانوں میں سے بھی کسی کے پاس جب تھوڑا بہت علم آتا ہے تو اس کا طرزِ عمل بالکل ہی بدل جاتا ہے۔ ڈاکٹر جب انجیکشن لگانے کا کہتا ہے تو بچّے کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ انجیکشن نہ لگوائے۔ وہ روتا ہے، بھاگنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہی ماں، جو اس کے پائوں میں کانٹا چبھتے نہیں دیکھ سکتی، وہ اسے پکڑ کے انجیکشن لگواتی ہے۔ وہ روتا ہے، بلکتا ہے لیکن وہ اسے بھاگنے نہیں دیتی۔ اس لیے کہ اس مرحلے پر وہ جانتی ہے کہ بچّے کوکچھ تکلیف تو ہو گی لیکن اس تکلیف میں اس کے لیے بہت فائدہ ہے۔ انجیکشن تو بہت معمولی سی چیز ہے، بچّے کے پیٹ میں رسولی بن جائے تو وہ اسے چیر پھاڑ کے لیے جراحوں کے حوالے کر دیتی ہے۔ اس کے برعکس ایسی
ماں کو آپ کیا کہیں گے، جو بیمار بچّے کو انجیکشن کی تکلیف سے بچانے کے لیے معالج کے پاس نہ لے کر جائے؟
خدا نے یہ دنیا آزمائش کے لیے بنائی ہے۔ اس نے انسان کو آزمانا ہے اور انسانوں کو ایک دوسرے سے بھی آزمانا ہے۔ اس کا علم لا محدود ہے۔ بہت سے لوگوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ جب تک وہ تکلیف اور آزمائش میں رہتے ہیں، تب تک ان کا روّیہ بہتر ہوتا ہے۔ جیسے ہی انہیں راحت ملتی ہے، دولت اور منصب ملتا ہے، وہ دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث بن جاتے ہیں۔ ذاتی طور پر ایک گھرانے کو میں نے دیکھا جو بہت ہی مصیبت کا مارا تھا۔ لوگوں کے ظلم کا مارا ہوا، بے انتہا غربت اور تکلیف سے گزرتا ہوا۔ کچھ سال بعد جیسے ہی اس کی حالت تبدیل ہوئی اور جیسے ہی اولاد کی رشتے داریاں شروع ہوئیں، مظلوم حضرات نے اب ڈٹ کر اپنے سے نیچے والوں کی ٹھکائی کرنا شروع کی۔ کل تک جو مظلوم تھے اور جن پر ترس آتا تھا، پل بھر میں وہ ظالم بن گئے۔ میرے بعض ہم جماعت، انکساری کا نمونہ تھے۔ اچھی نوکری ملتے ہی یکسر بدل گئے۔ عرب ریاستوں کو دیکھ لیجیے۔ جب تک بھوک اور آزمائش تھی، دنیا ان کی ہیبت سے کانپتی رہی۔ تیل کی دولت میسر آئی تو دنیا و مافیہا سے بے گانہ ہو گئے۔ اتنے مست کہ اپنے دفاع سے، اپنی زندگی کی حفاظت سے بھی غافل ہو گئے؛ حالانکہ یہ سب سے طاقتور جبلت ہے۔ ان کا حال دیکھتے ہوئے تو ڈر لگتا ہے۔ یہ آزمائش دولت سے بہتر ہے۔ اسی طرح غربا کے بچّے امرا کی نسبت بہت سخت جان ہوتے ہیں اور سخت جانی ایک بہت بڑا سرمایہ ہے۔ خدا کا طریق یہ ہے کہ مصیبتوں اور تکلیفوں سے گزار کر وہ انسان کو سخت جان بنا دیتا ہے۔ اس کی استطاعت (capacity) میں انتہائی اضافہ ہو جاتا ہے۔ 
خدا انسان کی استطاعت سے، اس کی capacity سے واقف ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں کسی پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی استطاعت کا علم نہیں۔ بہت سے لوگ، جو ابتدا میں کسی معمولی تکلیف پر واویلا کرتے ہیں، بعد ازاں سالہا سال تکلیفوں سے گزرتے ہیں۔ جس بیٹی کو انسان بٹھا کر کھلاتا ہے، وہ سسرال میں بیس بندوں کا کھانا بنا رہی ہوتی ہے۔ 
ہر انسان نے گندم کا جو دانہ کھانا ہے، پانی کا جو قطرہ پینا ہے، آکسیجن کے جس ایٹم سے سانس لینا ہے، لوہے کی جس گاڑی پر سفر کرنا ہے اور اس میں تیل کا جو قطرہ جلنا ہے، اس سب کا بندوبست خدا نے کر رکھا ہے اور یہ سب مقرر ہے۔ یہ سب 70 مائیں ہی مل کے کر سکتی ہیں۔ 
وزن اٹھانے والی گاڑی پر کمپنی یہ لکھ دیتی ہے کہ یہ 600 کلو وزن برداشت کر سکتی ہے۔ لفٹ پر بھی لکھا ہوتا ہے، 10 افراد، 1 ہزار کلوگرام۔ بعض لوگوں کی استطاعت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ موت کے منہ میں وہ خدا کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ میرے دوست معاذ کی بہن 17 سال بیمار رہی۔ مرتے دم تک اس نے ہاتھ سے تسبیح نہیں رکھی۔ کچھ لوگ معمولی مسائل پر خود کشی کر لیتے ہیں۔ سید علی گیلانی اور یٰسین ملک کو دیکھیں تو موت کے منہ میں وہ بے فکری سے زندگی گزار رہے ہیں۔ 
خدا ماں سے زیادہ محبت ضرور کرتا ہے لیکن وہ صرف ماں نہیں۔ سب سے بڑا استاد بھی ہے اور منصف بھی۔ بہرحال اس کا رحم و کرم اس کے عدل پر اور اس کے غضب پر حاوی ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved