تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     02-08-2017

دیوتا بننے کی حسرت …

خواہشیں بے لگام ہوتی ہیں۔ انسانی ذہن ہر حال میں آزاد رہتا ہے یعنی کچھ بھی سوچ سکتا ہے، کوئی بھی خواہش پال سکتا ہے۔ خواہش انفرادی سطح پر بھی ہوتی ہے اور اجتماعی سطح پر بھی۔ فرد یا ہو معاشرہ یا پھر ریاست، ہر سطح پر چند عجیب و غریب خواہشیں پروان چڑھتی ہی رہتی ہیں۔ 
انسان کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ جہاں ذرا سی طاقت ملتی ہے اس کا ذہن بے لگام ہوکر دوڑنے لگتا ہے۔ معاشرے دراصل انسانوں ہی کے مجموعے ہیں اس لیے وہ بھی اِسی روش پر گامزن رہتے ہیں۔ ریاستی سطح پر بھی زیادہ سے زیادہ طاقت کے حصول اور طاقت ملنے پر مزید منہ زور ہوتے چلے جانے کا رجحان برقرار رہتا ہے۔ غور کیجیے تو بھارت کا بھی یہی مسئلہ اور مخمصہ ہے۔ 
مور کے نصیب میں انتہائی خوبصورت جسم اور انتہائی بد ہیئت پیر لکھ دیئے گئے ہیں۔ وہ جب مست ہوتا ہے تو پَر پھیلاکر ناچتا ہے مگر پیروں پر نظر پڑتے ہی اُس کے آنسو ٹپکنے لگتے ہیں۔ بہت حد تک نئی دہلی کا بھی یہی المیہ ہے۔ پیروں کی بد ہیئتی ہے کہ دور ہونے کا نام نہیں لیتی۔ 
''بیک گراؤنڈر‘‘ اور ''ایپیٹائزر‘‘ کے طور پر دو خبریں ملاحظہ فرمائیے۔ 
امریکا کے چار سرکردہ قانون سازوں نے بھارت کو افغانستان میں وسیع تر کردار دلانے کے لیے عملی کوششوں کا آغاز کردیا ہے۔ سینیٹرز ڈین سلیون، گیری پیٹرز، جان کرنن اور مارک وارنر نے نیشنل ڈیفنس آتھورائزیشن ایکٹ میں ترمیم تجویز کی ہے جس کے تحت افغان نیشنل سکیورٹی فورسز کی تربیت، انٹیلی جنس اور لاجسٹکس کے حوالے سے بھارت کو وسیع تر کردار دلانے پر زور دیا گیا ہے۔ مارک وارنر سینیٹ کی سلیکٹ کمیٹی برائے انٹیلی جنس کے نائب سربراہ ہیںجبکہ جان کرنن سینیٹ میں ری پبلکن پارٹی کے چیف وھپ ہیں۔ یہ دونوں سینیٹرز ایوان میں ''یو ایس انڈیا کاکس‘‘ کے شریک چیئرمین بھی ہیں۔ 
یہ تو ہوا امریکا کا معاملہ۔ آئیے، اب ذرا بھارت کی طرف چلتے ہیں۔ 
چنئی (مدراس) میں گزشتہ دنوں دفاعی ساز و سامان کی نمائش منعقد کی گئی۔ اس میں ہتھیار اور دفاعی ساز و سامان تیار کرنے والے بھارتی ادارے ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن کا تیار کردہ جدید ترین ٹیکنالوجی کا حامل ریموٹ کنٹرولڈ ٹینک ''منترا۔ایم‘‘ پیش کیا گیا۔ اس ٹینک میں اعلیٰ ترین معیار کے جدید راڈار اور سینسرز نصب ہیں جو 15 کلومیٹر کے دائرے میں کسی بھی ٹھوس چیز (عمارت، گاڑی) یا انسان کی موجودگی کا سراغ لگاکر بروقت جوابی کارروائی کرسکتے ہیں۔ اس ٹینک سے بارودی سرنگوں کی نشاندہی اور اتلاف کا کام بھی لیا جائے گا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ ٹینک ان علاقوں زیادہ موثر انداز سے کام کرے گا جہاں جوہری اور جراثیمی ہتھیار یا تو استعمال کیے گئے ہوں یا پھر استعمال کیے جانے کا اندیشہ ہو۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس ٹینک کو راجستھان میں 52 سینٹی گریڈ کے ماحول میں آزمایا جاچکا ہے۔ 
یہاں تک تو ٹھیک ہے۔ لوگوں نے سوچا ہوگا کہ یہ ٹینک شاید پاکستان یا چین کا بھرپور انداز سے سامنا کرنے کی اہلیت پیدا کرنے کے لیے بنایا گیا ہوگا مگر بُرا ہو روزنامہ ٹائمز آف انڈیا کا جس نے ایک رپورٹ کے ذریعے بھانڈا پھوڑ دیا اور ''گھریلو عزائم‘‘ بے نقاب کردیئے! معاملہ کچھ یوں ہے کہ جس طور بھارت میں اچھی خاصی (مسلم مخالف) سیاست اندرونی کھپت کے اصول کے تحت کی جاتی ہے بالکل اُسی طور ''منتراما۔ایم‘‘ بھی اندرونی ضرورت کے تحت تیار کیا گیا ہے۔ 
شمالی اور شمال مشرقی بھارت کی پانچ سے زائد ریاستوں میں ماؤ نواز نکسل باڑی باغیوں نے تین عشروں سے بھی زائد مدت سے ملٹری اور پیرا ملٹری فورسز کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اور معاملہ ناک میں دم کرنے تک محدود نہیں رہا بلکہ ناک کاٹنے کی منزل تک بھی پہنچ چکا ہے۔ باغیوں کے ہاتھوں بھاری جانی نقصان اٹھانے کی صورت میں فوج اور نیم فوجی دستوں کی ناک تو پہلے ہی کٹتی آئی ہے مگر باغیوں نے کچھ مدت سے بھارتی فورسز کے جوانوں کو پکڑنے کے بعد تشدد کے ذریعے ہلاک کرنے سے قبل ان کے ناک اورکان کاٹنا بھی شروع کردیا ہے! بہت سے باغی یہ ناک اور کان یادگار اور اعزاز کے طور پر اپنے پاس رکھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بہت سے باغیوں سے ان کی منگیتر کی فرمائش ہوتی ہے کہ شادی کے موقع پر بھارتی سیکیورٹی فورسز کے کسی اہلکار کا ناک یا کان پیش کیا جائے! 
فورسز کے جوان چاہتے ہیں کہ نکسل باغیوں کے سامنے آکر لڑنے کے بجائے اُنہیں دور ہی سے نشانہ بنایا جائے۔ فضائی آپریشن بھی اِسی سوچ کے تحت کیے جارہے ہیں۔ ان آپریشنز میں چونکہ غیر متعلقہ افراد بھی بڑی تعداد میں مارے جاتے ہیں اور حکومت و فوج کو تنقید و بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لیے کوشش کی جارہی ہے زمینی کارروائی پر زیادہ توجہ دی جائے اور ساتھ ہی ساتھ باغیوں کے نزدیک جاکر کارروائی سے بھی گریز کیا جائے۔ ''منترا۔ایم‘‘ بظاہر ملٹری اور پیرا ملٹری فورسز کی فرمائش پر تیار کیا گیا ہے تاکہ باغیوں کو بہت دور سے ختم کرنے کی موثر کوشش کی جاسکے۔ 
تو یہ ہے صورتِ حال۔ اپنا گھر تو سنبھل نہیں رہا اور افغانستان کو سنبھالنے کی خواہش دل میں انگڑائیاں لے رہی ہے، بلکہ پُھدک رہی ہے۔ ایسے ہی موقع پر استعمال کرنے کے لیے خاقانیٔ ہند شیخ ابراہیم ذوقؔ نے خوب کہا تھا ع 
تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو! 
ایک زمانے سے نئی دہلی کے پالیسی میکرز علاقائی اور عالمی سیاست میں ٹیک آف کی تیاری کر رہے ہیں۔ ٹیک آف کے لیے طیارہ بھی درکار ہوتا ہے اور ایئر پورٹ بھی۔ بھارت کے پاس اِس مقصد کے لیے ڈھنگ کا طیارہ ہے نہ ایئر پورٹ۔ اور سچ تو یہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں ہوں بھی تو ایندھن کا مسئلہ حل کیے بغیر چارہ نہیں۔ اب اِسی نکتے کو لیجیے کہ علاقائی سطح پر چودھراہٹ قائم کرنے کی خواہش بھی ڈھنگ سے پوری نہیں ہوسکی ہے۔ افغانستان میں قدم جمانے کے لیے بھی امریکا سے مدد درکار ہے۔ اپنے علاقے سے نکل کر وسطِ ایشیا میں وسیع تر کردار بھی چاہیے تو امریکا کے تعاون سے! ایسی برتری کس کام کی جو کسی کی حمایت اور مدد کی محتاج ہو! مگر نئی دہلی کے پالیسی میکرز کو یہ بات کون سمجھائے؟ 
نئی دہلی کے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے ہوئے بزرجمہر اتنی سی بات بھی نہیں سمجھ پاتے کہ ناطاقتی کے عالم میں کسی کو للکارنے سے گریز کرنا چاہیے۔ سلیم احمد مرحوم نے کہا ہے ؎ 
دیوتا بننے کی حسرت میں معلّق ہوگئے 
اب ذرا نیچے اتریے، آدمی بن جائیے! 
بھارت کے لیے بھی بہتر آپشن یہ ہے کہ بہت زیادہ پاؤں پھیلانے سے پہلے چادر کو دیکھے، اپنی حدود کا اندازہ لگائے۔ چین نے سرحدی معاملات پر آنکھیں دکھاکر اشارہ تو دے ہی دیا ہے۔ اور عقل مند کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے۔ ڈوکلم میں سرحدی مناقشے کے بعد اب چین نے اترا کھنڈ میں بھی بھارت کی حدود میں ایک کلومیٹر تک فوجی بڑھاکر پیغام دے دیا ہے کہ کمزوروں کو دبایا جاسکتا ہے، طاقتور کو نہیں۔ ایسے میں قابل عمل اور سود مند یہی ہے کہ اپنی منطقی حدود میں رہا جائے اور افغانستان وغیرہ کے معاملات درست کرنے سے پہلے شمالی و شمال مشرقی بھارت کے باغیوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جائے۔ رہی دیوتا بننے کی خواہش تو اس حوالے سے کوشش فرصت ملنے پر کی جاسکتی ہے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved